سی پیک منصوبوں سے جنوبی اور وسطی ایشیاء کے تین ارب عوام کو فائدہ ہوگا جبکہ اقتصادی راہداری منصوبے کے ذریعے بلوچستان میں معاشی ترقی و خوشحالی کی راہ ہموار ہوگی اور لاکھوں بلوچ عوام کیلئے روزگار کے دروازے کھلیں گے۔ بلوچستان میں بڑی بڑی شاہراہوں، بجلی گھروں، گوادر بندرگاہ اور ایئرپورٹ کی تعمیرسے بلوچستان معاشی اور صنعتی میدان میں ملک کے دوسرے صوبوں سے بھی آگے نکل جائیگا۔ سی پیک کا عظیم منصوبہ پاکستان اور چین کے درمیان وطن عزیز میں پہلا جامع منصوبہ ہے جس سے عوام کو سستی بجلی حاصل ہوگی۔ گوادر کے علاقے میں صنعتوں اور بجلی گھروں کے قیام سے مقامی لوگوں کی معاشی و معاشرتی ترقی کیلئے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے۔ چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی راہداری کا یہ منصوبہ وطن عزیزمیں معاشی اور سیاسی استحکام کا باعث بنے گا اور یہ منصوبہ وطن عزیز کیلئے صحیح معنوں میں گیم چینجر ثابت ہوگا۔ چین کیلئے سی پیک منصوبے کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ چین کی بیشتر بیرونی تجارت بحری راستوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ اسی لئے چین ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے کے ذریعے زمینی و بحری راستے ڈھونڈ رہا ہے۔ سی پیک کے ذریعے چین گوادر بندر گاہ کو اپنی بیرونی تجارت کا اہم مرکز بنانا چاہتا ہے۔گوادرکا محل وقوع بہت اہمیت کاحامل ہے۔ یہ خلیج فارس اور خلیج عدن کے قریب واقع ہے جوعالمی بحری تجارتی قافلوں کی گزرگاہ ہے۔ چین گوادر کو ترقی اسی لئے دے رہا ہے کہ وہ ایک بڑی بندرگاہ بنا سکے۔ اس سے نہ صرف چین کی تجارت کو فروغ ملے گا بلکہ خطے کے تمام ممالک بھی اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کے علاوہ دیگرمعاشی، معاشرتی اور دفاعی معاہدے بھی ہیں۔سی پیک کے تحت بلوچستان میں سولہ منصوبے، کے پی کے میں آٹھ منصوبے، سندھ میں تیرہ اور پنجاب میں بارہ منصوبے مکمل ہوں گے۔ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں سب سے زیادہ منصوبے بلوچی عوام کی آمدورفت کے علاوہ ترقی اور خوشحالی کے ضامن ثابت ہوں گے۔ اس طرح بلوچستان میں ترقی و خوشحالی کا نیا دور شروع ہوگا اور بلوچستان میں مقامی لوگوں کونہ صرف روزگار ملے گا بلکہ غربت اور افلاس کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔ یہاں یہ بات بھی بڑی دلچسپی کی حامل ہے کہ بلوچستان کے سولہ منصوبوں میں خضدار باسمہ اور ڈی آئی خان کوئٹہ شاہراہیں، حب کو اور گوادر بجلی گھر، گوادر نواب شاہ ایل این جی ٹرمینل، گوادر ایکسپریس ، گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے علاوہ گوادر شہر میں پورٹ سٹی منصوبہ، سکول ، کالج اور دستکاری مراکز کے ساتھ ساتھ گوادر فری زون کا قیام ہے۔ان منصوبوں کے آغا سے تکمیل تک مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔ ان تمام منصوبوںمیں چین سے کاریگر اور مزدور نہیں آئیں گے بلکہ وطن عزیز کے لوگوں کو ہی روزگار ملے گا۔ چینی سرمایہ کاری اور اشتراک سے جو منصوبے شروع ہوں گے ان میں صرف دس فیصد اہلکار ہی چینی باشندے ہوں گے باقی تمام اعلیٰ درجے، درمیانے درجے اور ادنیٰ درجے کی نوکریاں صرف پاکستانی کاریگروں اور مزدوروں کے حصے میں آئیں گی۔ خود ساختہ بلوچ لیڈر کا اعتراض کہ بلوچ عوام میں بیروزگاری بڑھے گی، جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی ہے اور وہ صرف بھارت کے آلہ کار اور نمک خوار ہونے کا کردار ادا کر رہاہے۔ بھارت سی پیک کو سبوتاژکرنے کیلئے پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ چین جیوانی میں اپنا فوجی اڈا بنانا چاہتاہے۔ جیوانی گوادر سے اسّی کلو میٹر دور واقع ایک قصبہ نما بندرگاہ ہے جہاں سے ایرانی سرحد صرف چونتیس کلو میٹر دورہے۔ اسی لئے امریکی پینٹا گون نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ چین بین الاقوامی سطح پراپنی عسکری صلاحیتوں کو وسعت دینے پر عمل پیرا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کے اندر فوجی اڈہ قائم کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ چین اور پاکستان نے سختی سے پینٹاگون کی اس رپورٹ کومسترد کردیا کہ ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔جہاں تک سی پیک کے دفاعی منصوبہ ہونے کا تاثر ہے تو ہم جانتے ہیں کہ جب بھی پاکستان پر کڑا وقت آیا ، امریکہ نے اس کو دھوکہ ہی دیا۔ جب کہ اس سلسلے میں چین نے نہ صرف1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا بلکہ اقوام متحدہ اور عالمی سطح کے دیگر اداروں میں پاکستان کے خلاف بھارتی و امریکی سازشوں کے پاکستان کا خلاف بھرپور ساتھ بھی دیا۔ حال ہی میں لداخ پر چینی قبضے سے بھارت کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ا س کا ایک حصہ کیسے چین کے قبضے میں چلا گیا۔دراصل یہ بھارت کیلئے زبردست انتباہ ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا تو چین بھارت کے خلاف ہر حد تک جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنے مٹھی بھر گمراہ اور نابلد بلوچ بھائیوں کے طرزعمل پر افسوس ہوتا ہے کہ کہ وہ بھارت کے آلہ کار بن کر خو د اپنے اور اپنے وطن کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ کلبھوشن نے تو اس بات کا بھانڈہ ہی پھوڑ دیا تھا کہ اس کے پاکستان آنے کا مقصد مختلف نام نہاد دہشت گرد تنظیموں بی ایل اے، بی آر اے، بی این ایم کی غدار قیادت کوگمراہ کرنا تھا تاکہ وہ اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹ ڈالیں ۔دہشت گردوں کو منظم کرنا تھا۔ ان بے علم اور ناخلف بلوچ لوگوں کو معلوم نہیں کہ برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے بے شمار قربانیاں دے کر پاکستان حاصل کیا تھا اور یہ بے خبر اور بھولے بلوچ چند ٹکوں کی خاطر بھارت کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ ہماری عوام کے دلوں میں یہ خیال بھی آرہا تھا کہ آج کل سی پیک سست روی کا شکار ہے مگر جب سے جنرل عاصم سلیم باجوہ سی پیک اتھارٹی کے سربراہ بنے ہیں ، انہو ں نے اس منصوبے پر عمل درآمد کی رفتار بہت تیز کر دی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر وہ اس منصوبے کی تکمیل کیلئے خود نگرانی کر رہے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کی بنا پر آنے والے دنوں میں وہ خوشیوں بھری کئی خبریں بھی دیں گے۔