پاکستانی عوام کو مہنگائی نے چاروں اطراف سے گھیر لیا ہے۔بجلی کے بلوں نے تواچھے اچھوں کو دن میں تارے دکھا دیے ہیں۔گھریلو صارفین کو بجلی کے بل 45 سے 60 روپے فی یونٹ کے حساب سے بھیجے جا رہے ہیں۔بیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والے کو جب اپنی آمدن سے زیادہ کا بل موصول ہوتا ہے تو اسے غشی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ پچاس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا بھی اگر پچیس ہزار کا بل ادا کردے گا تو بچوں کی فیسیں ، کچن کا راشن اور گھرکے دیگر اخراجات کہاں سے پورے کرے گا۔ دوسری طرف عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے کے باوجودپاکستان میں بڑھ رہی ہیں ،اس کی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والا ایک معاہدہ ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی جو تفصیلات جاری کی ہیں ان میں مفتاح اسمعیل کی جانب سے بھیجا جانے والا ایک خط بھی شامل کیا گیا ہے جس میں واضح لکھا ہے کہ پاکستان پیٹرولیم مصنوعات پر پچاس روپے فی لیٹر تک پیٹرولیم لیوی عائد کرے گا۔ گویا جیسے جیسے عالمی منڈی میں قیمتیں کم ہوں گی ویسے ویسے پاکستان میں پیٹرول کی قیمت بڑھے گی کیونکہ عوام پر مرحلہ وار 50روپے فی لیٹر تک پیٹرولیم لیوی عائد ہونی ہے۔ ملکی معیشت اس وقت شدید خطرات سے دوچار ہے۔آئی ایم ایف کی ڈیل ہو جانے کے باوجود روپے کو استحکام نصیب نہ ہوا۔کہا جا رہا تھا آئی ایم ایف سے قسط آنے کے بعد ڈالر 180 پر آ جائے گا۔ اس کے برعکس صورتحال یہ ہے کہ جس دن آئی ایم ایف سے 1.16 ارب ڈالر کی قسط موصول ہوئی ، ڈالر 118روپے کا تھا، اگلے دس دن میں ڈالر 129پر پہنچ گیا۔دوسری امید یہ تھی آئی ایم ایف سے قسط ملنے کے بعد دیگر عالمی اداروں سے قرض ملنے کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔ مگر اس کے برعکس معاشی تجزیہ کار کہہ رہے ہیں ورلڈ بینک سے دو مختلف پروگرامز کے لیے ایک ارب ڈالر کا قرض لینے کی عوض پاکستان کو سخت شرائط کا سامنا ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ قرض لینے کے لیے پاکستان کو عوام پر مزید ٹیکسز لگانے پڑیں گے اور کئی سبسڈیز ختم کرنا پڑیں گی۔ اس کے نتیجے میں عوام کو مہنگائی کے ایک اور طوفان کا سامنا کرنا پڑے گا۔پچھلے چالیس سال میں حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ آج عوام بھگت رہے ہیں۔ رواں مہینے پبلش ہونے والی آئی ایم ایف کی کنٹری رپورٹ میں پاکستان کی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں توانائی کی قیمتوں میں بھیانک اضافہ ہو گا،عوام کی قوت خرید کم ہو گی ، مہنگائی مزید بڑھے گی اور پاکستان کی شرح نمو آدھی رہ جائے گی۔ پچھلے سال تحریک انصاف کی حکومت میں شرح نمو 6 فیصد کے قریب رہی تھی ، آئی ایم ایف کے تخمینے کے مطابق پاکستان کی شرح نمو 3 فیصد کے قریب جبکہ دیگر تجزیہ کاروں کی رائے میں 2.5 فیصد کے قریب رہنے کا خدشہ ہے۔ حالیہ سیلاب نے پاکستانی معیشت کو ایک اور دھچکا دیا ہے۔ سیلاب کے باعث ایف بی آر کو ٹیکس اہداف کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔7400 ارب روپے کا ہدف کسی صورت حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔دوسری طرف غذائی اجناس کی قلت کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ آٹا ابھی سے نایاب ہونے لگا ہے۔ بلوچستان میں بیس کلو کا تھیلہ 2300روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ فوڈ سیکیورٹی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو گندم اور دیگر اجناس درآمد کرنا پڑیں گی۔ اس سے پاکستان کا امپورٹ بل بڑھے گا اور ڈالر میں کمی واقع ہو گی جس سے روپے پر دبائو بڑھے گا اور روپیہ مزید کمزور ہو جائے گا۔رواں برس زرعی شعبے میں ترقی کا ہدف 3.9 فیصد رکھا گیا تھا۔ خدشہ ہے کہ اس سال یہ صفر ہو سکتا ہے یا پھر منفی میں بھی جا سکتا ہے۔ سیلاب نے اس حکومت کی معاشی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیلاب نہ آتا تو بھی معاشی حالات ہرگز اچھے نہیں تھے۔ حیرت ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت نے عمران خان کو معیشت کی خرابی کے نام پر گھر بھیجا مگر جب خود اقتدار میں آئے تو معاشی منصوبہ بندی کے بغیرچلے آئے۔ اب بھی کسی کو معلوم نہیں ہے کہ حکومت کے اگلے چھ ماہ کے معاشی اہداف کیا ہیں۔ دوسری طرف عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ظاہرکر رہی ہے۔ملک کے دیوالیہ ہونے سے نیشنل سیکیورٹی کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ عمران خان کو ڈر ہے کہ دیوالیہ ہونے کے بعد جو بھی قوت پاکستان کو بیل آئوٹ کرنے آئے گی وہ پاکستان پر سخت شرائط عائد کرے گی جس سے پاکستان کو اہم معاملات پر سمجھوتہ کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستانی معیشت کو اس وقت سیاسی عدم استحکام جیسے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔ بہت سے معاشی ماہرین مانتے ہیں جب تک سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ نہیں ہو گا،پاکستان کے معاشی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ پاکستان میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کی کوششیں کسی بھی جگہ سے نہیں ہو رہیں ۔ شاید اپنی اپنی انا کی خاطر کوئی بھی پاکستان میں سیاسی استحکام کا خواہشمند نہیں ہے۔ عمران خان کو چاروں طرف سے مقدمات میں پھنسا کر انہیں سڑکوں کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دوسری طرف پنجاب حکومت کے خاتمے کے منصوبے بھی بنائے جا رہے ہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ مزید عدم استحکام کی صورت میں ہی نکلے گااس کے باوجود سب اسی راستے پر گامزن ہیں۔تو پھر ملک سے مخلص کون ہے؟