امریکہ نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری پہلے سے موجود معاشی بحران کو مزید سنگین کر سکتی ہے۔ امریکہ کی نائب معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز نے واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک منصوبوں سے پاکستان پر قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت ہو جائے گا جبکہ پاکستانی شہریوں کی بجائے نوکریاں چینی باشندوں کو مل جائیں گی۔ ایلس ویلز نے کراچی پشاور ریلوے اپ گریڈیشن منصوبے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شروع میں اس منصوبے کی لانگ 8.2ارب ڈالر تھی تاہم اکتوبر 2018ء میں پاکستان نے اس منصوبے کی لاگت کو 6.2ارب ڈالر تک لانے کا بتایا مگر حالیہ میڈیا رپورٹس میں یہ لاگت 9ارب ڈالر بتائی جا رہی ہے۔ مسز ایلس ویلز نے سی پیک منصوبوں میں بدعنوانی کا خدشہ بھی ظاہر کیا۔ ان کے الزامات پر پاکستان میں چینی سفیر پائوجنگ نے کہا کہ امریکی الزامات بے بنیاد ہیں اور سی پیک منصوبوں کامیابی کے راستے پر ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان اور چین کی حکومتوں کی اولین ترجیح ہے اور دونوں ملکوں کا اس کی پیشرفت پر مکمل اتفاق ہے۔ انہوں نے امریکہ کو مشورہ دیا کہ وہ الزام لگاتے ہوئے احتیاط کرے۔ امریکہ سپر پاور ہے یہ بات دنیا کے ہر ملک کی یادداشت کا حصہ ہے۔ پاکستان کی قومی یادداشت میں امریکہ کے مزاج‘ پالیسیوں اور طرز فکر کا ڈیٹا دوسروں کی نسبت کچھ زیادہ ہے۔ پاکستان آزاد ہوا تو امریکہ کے نائب وزیر خارجہ نے قائد اعظم محمد علی جناح کو مبارکباد کا پیغام ارسال کیا۔ دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس سے خطاب کے دوران بانی پاکستانی نے اس پیغام پر شکریہ ادا کیا۔ بعد میں جتنے حکمران آئے سب نے امریکہ کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کے لئے کردار ادا کیا۔ سرد جنگ نے دنیا کو سرمایہ داری اور سوشلزم کے معاشی نظریات میں تقسیم کیا۔ یہ نظریاتی اختلاف جلد ہی سیاسی اور پھردفاعی تصادم کی صورت میں ڈھل گیا۔ آدھی دنیا امریکہ اور آدھی سوویت یونین کے زیر اثر تھی۔ آئے دن اتحادی ممالک ایک دوسرے کے خلاف لڑنے پر آمادہ ہو جاتے۔ اپنے اپنے اتحادیوں کا تحفظ دونوں بڑی طاقتوں کو بھی جنگی تنائو میں رکھتا۔ پاکستان نے امریکہ کا اس وقت ساتھ دیا جب وہ افغانستان کو سوویت یونین کا قبرستان بنانے کے لئے میدان میں اترا۔درجنوں کتابیں شائع ہو چکی‘ ہالی ووڈ نے متعدد فلمیں بنائیں۔ پاکستان اور افغانستان کے بہادر مزاحمت کاروں کا کردار سب سے تحسین وصول کرتا رہا۔ انجام اس مہم کا امریکی خواہش کے مطابق ہوا اور سوویت یونین کئی ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ امریکہ نے اس طویل جنگی آپریشن کے بعداز جنگ منفی اثرات اپنے شہریوں تک پہنچنے سے روکے۔ امریکی حکام اگر ایسا ہی اچھا سلوک اداروں اور مجاہدین سے کرتے تو افغانستان اور پاکستان کے مجاہدین امن کی طرف لوٹ آتے۔ نائن الیون کے واقعات میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا مگر امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے پاکستان کی مشکلات کو جس طرح نظر انداز کیا اس سے بجا طور پر یہ احساس پرورش پانے لگا کہ امریکی ریاست اور حکومتیں خود غرض ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سترہزار جانیں قربان کرنے اور 100ارب ڈالر کے مالی نقصانات کے باوجود اب بھی امریکہ کے لئے قابل اعتماد نہیں۔ پاکستان کے بجائے بھارتی مفادات کا تحفظ کر کے امریکہ نے اس تاثر کو مستحکم کیا ہے۔ پاکستان کی تجارت‘ کاروبار‘ امن اور استحکام کو دہشت گردی کے خلاف جنگ نے بری طرح متاثر کیا۔ ملک میں صنعتی عمل رک گیا۔ زرعی و صنعتی ٹیکنالوجی کا فروح نہ ہو سکا۔ برآمدات کا حجم درآمدات سے کم ہونے لگا۔ قرضوں کا بوجھ قومی آمدن سے کئی گنا زیادہ ہو گیا۔ روزگار کے مواقع سکڑنے لگے۔ دہشت گردوں سے لڑنے کے لئے ترقیاتی بجٹ استعمال ہوا۔ جو رقم سکولوں‘ ہسپتالوں اور تفریح گاہوں کی تعمیر پر خرچ ہونا تھی اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ضروریات پوری کی جانے لگیں۔ ان مشکل حالات میں امریکہ کا کردار نہایت غیر دوستانہ اور غیر ہمدردانہ تھا۔ امریکہ نے کولیشن سپورٹ کی مدمیں دی جانے والی امداد روک لی۔ کئی طرح کے فنڈز پر کٹوتی لگا ۔ کسی ایسی ریاست کو ان حالات میں تنہا چھوڑ دینا اخلاقی و قانونی دیوالیے پن کے سوا کیا کہلائے گا کہ جو امریکہ کی جنگ لڑ رہی تھی۔پاکستان کو بین الاقوامی سرمایہ کاری کی ضرورت تھی۔ ساتھ یہ امریکہ نے اسے یہ احساس دلایا کہ وہ اب پاکستان کے ہمسایہ حریف ملک بھارت کے ساتھ دوستی کر چکا ہے۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ معاشی مسائل میں گھرے پاکستان کی قوت مزاحمت کو ضرب لگا کر خطے میں اس کے مفادات کا بھارت سے سودا کر لیا جائے۔ کاروباری امور میں ماہر امریکی حکام نے ایسا کرتے ہوئے دیر نہ کی۔ ان حالات میں پاکستان اور چین نے ایک دوسرے کی ضروریات کا تخمینہ لگایا۔ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت تھی۔ دیرینہ دوستانہ تعلقات کو سٹریٹجک تعلقات میں بدلا گیا۔ یہ تعلقات کن شرائط پر اور کس بندوبست کے تحت ہوئے اس پر دونوں فریق مطمئن ہیں۔ پاکستان کو سی پیک منصوبوں پر کوئی اعتراض نہیں۔ جہاں کہیں اعتراض بنتا تھا تحریک انصاف کی حکومت نے اس پر چینی حکام سے کھل کر بات کی۔ قرضوں کی ادائیگی کا طریقہ کار منصوبوں کی تکمیل کا نظام الاوقات اور دیگر تفصیلات پر کوئی ایسا اعتراق نہیں جسے تاحال تشویش کی وجہ قرار دیا جا سکے۔ امریکہ کو ایسا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے سابق اتحادی کی ان مشکلات پر فکر مندی کا اظہارکرے جو اس کی وجہ سے پیدا ہوئیں۔ جنرل پرویز مشرف کے عہد میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کے بدلے دیگر وعدوں کے ساتھ یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کی توانائی ضروریات کو پورا کرے گا‘امریکہ یہ وعدہ پورانہ کر سکا مگر چین ضرور اس سلسلے میں تعاون فراہم کر رہا ہے۔ امریکی نائب معاون وزیر خارجہ کے بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ پاکستان اور چین کے درمیان غلط فہمی پیدا کر کے باہمی تعاون کا یہ سلسلہ روکنا چاہتی ہیں۔