خدا کرے لوگ وزیراعظم کے مشیر رزاق دائود کی یہ وضاحت مان لیں کہ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے ان کی بات سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کی۔ اخبار نے ان کاانٹرویو شائع کیا تھا جو سارے کا سارا سی پیک پر اعتراضات سے بھرا ہوا تھا، ہو سکتا ہے سارا انٹرویو ہی سیاق و سباق سے ہٹ کر ہو۔ خاص طور سے جو فقرہ ہلچل کا باعث بنا دیا تھا کہ مشیر صاحب نے سی پیک کو ایک سال کے لیے منجمد کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ یہ فقرہ کوٹ ان کوٹ شائع ہوا تھا، اس میں اب سیاق و سباق کوئی ڈھونڈے تو کیسے ڈھونڈے۔ مشیر موصوف کو مشورہ ہے کہ ان کی وضاحت سے کام نہیں چلے گا، انہیں اخبار پر جھوٹا انٹرویو شائع کرنے کا مقدمہ کرنا چاہیے۔ ہر چند کہ اس میں وہی معاملہ درپیش ہو گا جو کابل جانے کے خواہشمند کو تھا کہ چلا تو جائوں پر وہاں افغان کا ڈر ہے اور افغان تو ہوگا۔ برطانوی عدالت سے رزاق دائود جیسے معصوم اور سچے لوگوں کو انصاف کہاں ملتا ہے، الٹا لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ مشیر صاحب نے محض ایک سال کی بات نہیں کی تھی، بعدازاں پانچ سال تک پھیلانے کا اشارہ بھی دیا۔ مطلب یہ کہ ایک سال گزر جائے، پھر توسیع پر توسیع لیتے رہیں گے۔ لیکن ملک میں ان کے بیان کا ردعمل ہوا۔ اور یہ کافی سے زیادہ تھا جس پر پہلے وزارت خارجہ کو، پھر سی پیک کمپنی کے سربراہ کو اور بعض دوسرے حکومتی و پارٹی رہنمائوں کو وضاحت کرنا پڑی۔ لیکن بات اپنی جگہ ویسے کی ویسی ہے۔ تردید نما وضاحتیں یا وضاحت نما تردیدیں دیوار سے اکھڑے پلستر کو اخباری کاغذ کی چیپی لگا کر چھپانے کی کوشش ہے۔ ایک کام تو بہرحال ہوگیا، جو پیغام جہاں جہاں پہنچنا تھا، وہاں وہاں پہنچ گیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ ’’ڈومور‘‘ کی ضمنی ہے اور ’’ڈومور‘‘ کو تو یہ پیغام فردوس گوش بن کر پہنچا۔ سی پیک کے میک اپ کے لیے امریکہ بے قرار ہے تو بھارت اس سے بھی زیادہ بے قرار اور دونوں کی بے قراری کوقرار کا انتظار ہے۔ ٭٭٭٭٭ سی پیک سے جو ہونا ہے، اس کے اشارے تو چار برس پرانے دھرنے ہی میں مل گئے تھے۔ خان صاحب کے ہم نوائے اعظم اپنے شیخ جی تو اکثر خطابات میں اسے نئی ایسٹ انڈیا کمپنی کہا کرتے تھے۔ بابائے ہماری جنگ پرویز مشرف بھی گاہے گاہے اشاروں میں اپنی دکھن ظاہر کیا کرتے تھے۔ خان صاحب کا سی پیک کے بارے میں ایک موقف عملی اور دوسرا اصولی تھا۔ عملی موقف تو دھرنوں ہی میں سے ظاہر تھا، اصول یہ ہے کہ کوئی ملک سڑکوں، پلوں اور ریلوں سے ترقی نہیں کیا کرتا۔ کاش یہ اصول ترقی یافتہ ملکوں کو بھی سمجھ میں آ جاتا۔ ضمنی طور پر یاد آیا، چین نے تین سال کی مدت میں مالدیپ کے دواہم جزیروں کو ایک سمندری پل کے ذریعے ملا دیا۔ ایک جزیرے میں دارالحکومت ہے اور دوسرے میں مرکزی ایئرپورٹ۔سمندر پر پل بنانا آسان نہیں ہوتا۔ سعودی عرب نے بحرین کے ساتھ مل کر پل بنایا، بہت واہ واہ ہوئی لیکن وہ سمندرکا ساحلی علاقہ تھا، بھرائی کر کے پل بنایا گیا۔ مالدیپ گہرے سمندر کے بیچوں بیج ہے۔یہ پل تعمیراتی عجوبہ ہے۔ مالدیپ والے بہت خوش ہے بے چارے نہیں جانتے سڑکوں پلوں سے ترقی نہیں ہوتی۔ ٭٭٭٭٭ وزیراعظم اور ان کے ساتھی نہ صرف یہ کہ سچ بولتے ہیں بلکہ یہ بھی کہ تدبر اور حکمت کے جس مقام بلند پر فائز ہیں، اس کی مثال کم از کم پہلی جنگ عظیم کے بعد سے اور کم از کم پانچ براعظموں میں تو نہیں ملتی۔ چنانچہ ہمیں مان لینا چاہیے کہ امریکہ، کینیڈا، وسطی یورپ کے ملک اور چین جاپان بالترتیب دنیا کے پسماندہ ترین ملک ہیں اور سب سے ترقی یافتہ ملک صومالیہ اور افغانستان جیسے ملک ہیں جو بہت پہلے اس راز کو پا چکے تھے کہ سڑکوں سے ترقی نہیں آتی چنانچہ انہوں نے اس کارِ فضول سے احتراز ہی کیا۔ لیکن جہالت بہرحال زور آور ہے۔ سنا ہے کہ افغانستان والے نہ صرف سڑکوں کا جال بچھانے کی حماقت کرنے پر تل گئے ہیں بلکہ ریلوے کا نیٹ ورک بھی ڈالنے پر بھی کھربوں روپے ضائع کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ وہ تو غنیمت ہے کہ انہیں قومی سرمائے کے ضیاع سے روکنے کے لیے طالبان جیسے حکمت و تدبر کے سلسلہ ہائے کوہسار پورے ملک میں موجود ہیں ورنہ اب تک بہت بربادی ہو چکی ہوتی۔ ٭٭٭٭٭ حکومت نے اپنی پالیسی شروع دن سے واضح کردی تھی۔ وزیراعظم نے اپنے ابتدائی خطابات اور ارشادات میں بہت سی مکروہات کا ذکر نہ کرکے آنے والے دنوں کی تصویر آئینے میں دکھا دی تھی جن مکروہات کے ذکر سے انہوں نے کامل پرہیز کیا، ان میں آئین، جمہوریت، پارلیمنٹ کی بالادستی، بنیادی حقوق جیسی فضولیات کے علاوہ، سی پیک جیسی ہزلیات بھی شامل تھیں۔ان کے گرد کارپوریٹ سیکٹر کا گھیرا ہے، حقیقی ترقی کو اب کوئی نہیں روک سکتا۔ ٭٭٭٭٭ کابینہ نے گیس کی قیمتوں میں 46 فیصد اضاے کو فی الوقت موخر کردیا ہے۔ فی الوقت یعنی کتنا وقت؟ کہا جارہا ہے کہ ضمنی الیکشن کا مرحلہ طے ہونے تک معاملہ موخر ہی رہے گا۔ لیکن مائع گیس کا معاملہ موخر نہیں، اس کی قیمت میں سوفیصد اضافہ نافذالعمل ہو چکا ہے۔ 980 روپے والا سلنڈر 19 سو اور دو ہزار میں مل رہا ہے۔ کابینہ نے صوبوں سے کہا ہے کہ اس اضافے کو وہ روکیں۔ صوبوں سے یہ فرمائش کرنے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ جتنا اضافہ ہو چکا، فی الوقت کافی ہے، مزید کا ضمنی الیکشن کے بعد سوچیں گے۔بجلی کے نرخ دو روپے یونٹ بڑھ چکے، لوگ یہ سوچ کر ابھی سے ڈر رہے ہیں کہ نہ جانے کتنا بل آئے گا۔ فی ہزار پانچ سو اضافے کا اندازہ ہے لیکن اب تو بات اس سے بھی آگے کی نظر آتی ہے۔ ایک معتبر ٹی وی نے خبر دی ہے اور اس کی تردید ابھی تک نہیں آئی ہے کہ کسی مبینہ 180 ارب روپے گھاٹے کی اضافی وصولی صارفین سے کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اجازت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو دی گئی ہے۔ آپ کی مرضی ہے کہ اسے اجازت سمجھیں یا حکم، بات بہرحال ایک ہی ہے۔بجلی کے بل ادا کرنے والے 20 کروڑ نہیں، چند کروڑ ہیں کہ تین چار سے لے کر سات آٹھ تک لوگ کنبے میں ہوتے ہیںاور بل ادا کرنے والا اس کنبے کا سربراہ ہوتا ہے یعنی بریڈارنر۔ 180 ارب کو ان چند کروڑ پر تقسیم کر کے دیکھ لیجئے۔ ٭٭٭٭٭ بلوچ رہنما اختر مینگل صوبائی حکومت سے ناراض ہو گئے ہیں۔ فرمایا ہے کہ بلوچستان حکومت کو مینڈیٹ کہیں اور سے ملا ہے۔ یہ غیر جمہوری سوچ ہے جبکہ ہماری سوچ جمہوری ہے۔مینڈیٹ کہیں اور سے ملا؟ یہ کہیں اور کہاں واقع ہے، مینگل صاحب نے اس کی وضاحت نہیں کی۔بہرحال، چند ماہ قبل ایک آندھرانی سنجرانی ماڈل نام کی چلی تھی۔ میاں اختر گومشت خاک تھے مگر اس کے ساتھ تھے۔ ہم خیال بھی، ہم پرواز بھی۔ اب یکایک ان کی سوچ میں یہ کایا کلپ کیسے ہو گئی۔ سنجرانی ماڈل والی سوچ پھر سے جمہوری سوچ میں کیونکر بدل گئی۔ سلسلہ عجائبات ہے۔