دو ہزار تیرہ میں چین نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا جسے سی پیک (چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور) کا نام دیا گیا۔ یہ پروگرام ایسا ہی تھا جیسے دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے تباہ حال یورپ کو دوبارہ معاشی ترقی کی راہ پر ڈالنے کی غرض سے مارشل پلان شروع کیا تھا ۔ امریکہ نے وسیع پیمانے پر یورپی ممالک کو مالی امداد اور قرضے دیے تھے۔سنہ دو ہزار پندرہ میں چین اور پاکستان نے سی پیک پر باقاعدہ کام شروع کردیا۔ چینی سرمایہ پاکستان آنے لگے۔یہ ایسا وقت تھا جب دہشت گردی کے باعث دنیا بھر کے سرمایہ کاروں نے پاکستان سے منہ موڑ رکھا تھا۔ چین نے اس پُر خطر ماحول میں پاکستان کا ہاتھ پکڑا۔ اس پروگرام کے تحت اب تک چین پاکستان میں پچیس ارب ڈالر کے منصوبے لگا چکا ہے ۔ اگلے چار پانچ برسوں میں تیس پینتیس ارب ڈالرکے مزید منصوبے مکمل کرلیے جائیں گے۔ اس وقت کئی پراجیکٹ زیر تکمیل ہیں یا اُن پر جلد کام شروع ہونے والا ہے۔ سی پیک کے تحت جو منصوبے لگائے جارہے ہیں انکی لاگت کا تقریباً تیس فیصد حصہ سستے چینی قرضوں پر مشتمل ہے جبکہ باقی چینی بینکوں اور کمپنیوں کی سرمایہ کاری ہے۔چین مخالف لابی نے بہت منفی پروپیگنڈہ کیا کہ سی پیک سے پاکستان قرضوں میں جکڑ کر چین کی کالونی بن جائے گا لیکن وقت نے اسے بے بنیاد اور جھوٹا ثابت کیا۔اسکے برعکس چینی سرمایہ کاری نے بہت مشکل وقت میں پاکستانی معیشت کو سہارا دیا۔ اس وقت بھی ہم سی پیک کے مثبت اثرات دیکھ سکتے ہیں۔ تین چار برس پہلے تک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی قلت تھا۔ دس سے اٹھارہ گھنٹے روزانہ کی لوڈ شیڈنگ معمول کی بات تھی۔ یوں لگتا تھا کہ بجلی کا یہ بحران شائد کبھی حل نہیں ہوگا۔ پورا ملک تاریکی میں ڈوب چکا تھا۔ صنعتی کارخانے بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑے تھے۔ آج یہ حال نہیں ہے۔ کراچی کے سوا سارے ملک میں لوڈ شیڈنگ یا تو بالکل نہیں ہے یا روزانہ ایک دو گھنٹوں کے لیے ہے۔ وجہ یہ ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں سی پیک کے تحت چینی کمپنیوں نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے پاکستان میں کوئلہ سے بجلی بنانے کے چار بڑے منصوبے لگائے گئے۔ اینگرو تھرپارکر‘ حبکو‘ پورٹ قاسم اور ساہیوال میں پاور پلانٹ لگائے گئے۔ یہ چاروںپاور اسٹیشن ملک کو تقریبا ًچار ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کررہے ہیں۔ کوئلہ سے بجلی بنانے کے یہ پلانٹ جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل ہیں جن سے بہت کم فضا ئی آلودگی ہوتی ہے۔ کوئلہ کے پلانٹ لگانے کی ضرورت اسلیے پیش آئی کہ وہ جلد مکمل ہوجاتے ہیں جبکہ پن بجلی کے منصوبے تعمیر کرنے میں تین چار گنا زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ چونکہ بجلی کی شدید کمی کے باعث فوری بجلی کی ضرورت تھی اسلیے کوئلہ کے پلانٹ لگانے کو ترجیح دی گئی۔سی پیک کے تحت اسوقت بجلی بنانے کے مزید آٹھ منصوبوںپر کام ہورہا ہے ۔ ان زیرتکمیل منصوبوں میںکوئلہ سے بجلی بنانے کے چار مزید پاور اسٹیشن حبکو تھر پلانٹ‘ تھل نووا پلانٹ ‘گوادر پلانٹ‘ تھر(دوم)پلانٹ اور پن بجلی بنانے کے چار منصوبے کروٹ ‘ ناران‘ سوکی کناری‘ کوہالہ‘ اور آزاد پتن پلانٹ شامل ہیں۔ پن بجلی بنانے کے دوچھوٹے منصوبے گلگت بلتستان میں زیر غور ہیں۔ یوں چند برسوں تک سی پیک کے تحت پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں مجموعی طور پر دس ہزار میگا واٹ سے زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔ بجلی کی پیداوار کے ساتھ ساتھ ملک میں بجلی کی ترسیل کے نظام کو بہتر بنانے کی خاطر بھی چین سرمایہ کاری کررہا ہے۔ مٹیاری سے لاہور تک ٹرانسمیشن لائن پر کام جاری ہے جو اگلے سال مارچ تک مکمل ہوجائے گا۔ توانائی کے شعبہ میں چینی سرمایہ کاری کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ مہنگی بجلی بنانے والے پرانے پاور اسٹیشنوں سے بتدریج ہماری جان چھوٹ رہی ہے۔اگلے چند برسوں تک جب پن بجلی کے زیرِتکمیل منصوبے کام شروع کردیں گے تو بجلی کی قیمت مستحکم ہوجائے گی کیونکہ پن بجلی خاصی سستی پڑتی ہے۔ بجلی کے منصوبے چین کی کمپنیوں نے چینی بنکوں کے قرضوں سے لگائے ہیں ۔ پاکستان کی سرکاری کمپنی ان سے معاہدہ کرکے بجلی خرید رہی ہے۔ سی پیک کے تحت دوسری بڑی سرمایہ کاری سڑکوں میں کی گئی ہے۔ شاہراہ قراقرم کو توسیع دی گئی ہے۔اسکے کچھ نئے حصے تعمیر کیے گئے ہیں جیسے مانسہرہ سے تھاکوٹ تک ایکسپریس وے ۔ سکھر سے حیدرآباد تک موٹروے تعمیر کی جارہی ہے۔ پاکستان کے ریلوے لائن کو اپ گریڈ کرنے کے بڑے منصوبے ایم ایل ون پر کام شروع کیا جارہا ہے جس پر سات ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ بلوچستان کی بندرگاہ کی ترقی سی پیک کا اہم جزو ہے۔ وہاں بین الاقوامی ائیرپورٹ تعمیر کیا جارہا ہے۔ گوادر کو قومی شاہراہ سے منسلک کیا جارہا ہے۔ ایک اہم منصوبہ سنکیانگ کے شہر خنجراب سے راولپنڈی تک چین کے مہیا کردہ سستے قرضہ کی مدد سے ساڑھے آٹھ سو کلومیٹر طویل آپٹیکل فائبر بچھائی جاچکی ہے اور اس برس مئی میں کام شروع کرچکی ہے۔ یہ ایک طرح کی ڈیجیٹل شاہراہ ریشم ہے۔ اسکے مکمل ہونے سے پاکستان کاانٹرنیٹ کے لیے مغربی ممالک پر انحصار کم ہوگیا ہے۔ اب اس آپٹیکل فائبر کو ملک کے دیگر علاقوں تک توسیع دی جائے گی۔ ریلوے لائن اور موٹر ویز کے ساتھ ساتھ آپٹیکل فائبر بچھانے کے لیے منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔فیصل آباد اورنوشہرہ میں صنعتی زون پر کام شروع ہوچکا ہے جہاں انڈسٹری لگنے سے ملک میں صنعتی ترقی کا نیا دور شروع ہوگا۔ پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ اس کی پیداواری صلاحیت بہت کم ہے۔ زرعی اور صنعتی پیداوار اور برآمدات بہت کم ہیں۔ ہماری معاشی ترقی کا انحصار قرضوں اورسرکاری اخراجات پرہے۔ حکومت قرضے لیکر کھلے ہاتھ سے پیسے خرچ کرے تو ترقی کی شرح بڑھ جاتی ہے لیکن یہ عارضی اور ناپائیدار ترقی ہوتی ہے۔ یہ جعلی ترقی بار بار زرمبادلہ کا بحران پیدا کرتی ہے جس کے باعث آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔قرض ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ سی پیک پروگرام سے ہمیں موقع ملا ہے کہ ہم اس منحوس چکر سے نجات پائیں۔ صنعتی ترقی کی ٹھوس بنیاد رکھیں۔اگر پاکستان کے لوگ سیاست اور میڈیا کے فسادیوں کے پیچھے نہ لگے‘ ملک افراتفری کا شکار نہ ہوا تو اس سرمایہ کاری کے نتیجہ میں چار پانچ برس بعد ملک کے حالات خاصے بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے۔