سی پیک منصوبے کے دوسرے مرحلے میں پاکستان اور چین نے سماجی ومعاشی ترقی کے شعبے میں 27ترجیح منصوبوں پر اتفاق کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان 27منصوبوں کے لئے چین ایک ارب ڈالر کی گرانٹ فراہم کرے گا۔دوسری جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کو بروقت مکمل کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ سی پیک منصوبے سے اس خطے کی قسمت بدل جائے گی اور یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان بلکہ اس پورے خطے کے لئے ایک معاشی حب کے طور پر جانا جائے گا۔ ورلڈ بنک نے بھی بی آر آئی منصوبے کی تکمیل سے بھر پور امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں کیونکہ اس منصوبے کی تکمیل سے سفری وقت میں 12فیصد کمی‘ تجارتی حجم میں 9.7فیصد اضافہ، انکم کی شرح 3.4فیصد بڑھنے اور لاکھوں افراد کو خط غربت سے نکلنے میں مددملے گی۔ پاکستان کو اس منصوبے سے جو فوائد مل رہے ہیں ان میں توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں بہتری سر فہرست ہے ۔ اس کے علاوہ مصنوعات اور لیبرکی بلا واسطہ طلب کے نتیجے میں بھی کئی مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ سی پیک کے تحت سڑکوں کی تعمیر اور توانائی کی قلت ختم ہونے سے اقتصادی سرگرمیوں میں جمود کے خاتمے کی امید ہے ۔ چین نے آنے والے سال میں 17نئے منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جن میں بلوچستان میں شمسی توانائی کے آلات کی فراہمی‘ خیبر پختونخواہ میں شمسی توانائی کے پمپس‘ آزاد جموں وکشمیر میں واٹر فلٹریشن پلانٹس کے ذریعے صاف پانی کی فراہمی ، طبی آلات ، ووکیشنل سکولز کے لئے آلات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اپ گریڈیشن کے منصوبے‘ زرعی تعاون کے شعبے میں استعداد کار میں اضافہ‘ زرعی مصنوعات کی پروسیسنگ اور ٹیکنالوجی میں توسیع شامل ہے۔ یہ ایسے منصوبے ہیں جن کی تکمیل کے بعد پاکستان میں معاشی طور پر کافی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی کیونکہ چین نے اسی ٹیکنالوجی کی بدولت 80کروڑ افراد کو غربت سے نجات دلوائی ہے۔اب چین بڑے ہی کھلے پن کے ساتھ اصلاحات کی پالیسی کو آگے بڑھا رہا ہے، اسی ٹیکنالوجی کی بدولت چین کی جی ڈی پی 14کھرب ڈالر تک پہنچی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ چین نے مغربی دنیا کی تقلید کی بجائے اپنی سوچ کو وسعت دی۔ مہنگائی اور غربت کے خاتمے کے دریا عبور کرنے کے لئے غیروں کے سامنے کشکول تھامنے کی بجائے اپنی عقل کو استعمال کیا جس کی بدولت وہ مستحکم اوردرست راستے پرگامزن ہے، یہی چینی عوام کے معیار زندگی کی بلندی اور ملکی مضبوطی کا موجب ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ کا چینی منصوبہ جس تیزی سے آگے بڑھے گا، اس تیزی سے خطے میں تبدیلیاں آ ئیں گی۔ بلوچستان ،خیبر پی کے اور آزاد جموں وکشمیر میں جو منصوبے شروع ہو نگے ان کی تکمیل سے وہاں کے لوگوں کی کافی حد تک پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔ اس وقت 25ہزار سے زائد پاکستانی چین میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں سے 7ہزار سے زائد طلبا مختلف نوعیت کی سکالر شپ بھی حاصل کر چکے ہیں جبکہ اس کے علاوہ پاکستان میں لوگ بڑی تعداد میں چینی زبان سیکھ چکے ہیں۔ پاکستان اگر ان افراد کو سی پیک پر کام کرنے والے چینیوں کے ساتھ انٹرن شپس یااسٹڈی اسائنمٹس کے ذریعے تعینات کرے تو اس سے بھی بے پناہ فائدہ ہو گا۔ بڑی سڑکوں کی بروقت تکمیل سے ماہی گیری‘ کان کنی ‘ لائیو سٹاک اور زراعت سمیت دیگر سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔ کیونکہ سڑکوں کی تکمیل کے بعد فصل بر وقت منڈی میں پہنچنے سے خراب ہونے سے بچ جائے گی ۔ اس سے مارکیٹوں تک ترسیل کے اخراجات بھی کم ہو نگے۔ تین روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے ہزارہ موٹر وے کا افتتاح کیا ہے اس چھ رویہ موٹر وے کی تعمیر کے باعث اسلام آباد سے حویلیاں کی مسافت آدھے گھنٹے میں طے ہو گی جبکہ مانسہرہ اور اسلام آباد کے سفر میں بھی کمی ہوئی ہے۔ مارچ2020ء تک جب اس سڑک کا تیسرا فیز مکمل ہو گا تو اس سے بھی نقل و حمل میں آسانی پیدا ہو گی۔ جب ذرائع نقل حمل سستے ہونگے تو کسانوں کے اخراجات میں کمی واقع ہو گی اور منافع زیادہ ہو گا۔ یوں کسانوں کے پاس بروقت اور زیادہ پیسے آئیں گے جس سے اقتصادی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو گا۔ پاکستان اس وقت سی پیک منصوبے کی بروقت تکمیل کے لئے سرگرداں ہے۔ اس منصوبے میں ہزاروں پاکستانی انجینئر اور لیبر کے افراد بھی کام کر رہے ہیں لیکن جب تک ہم چین سے زرعی شعبے میں مالی اور تکنیکی تعاون حاصل نہیں کر لیتے تب تک غربت اور محرومی کو ختم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ شعبہ زراعت میں تبدیلی آنے کے بعد ہمارے پسماندہ اور پسے ہوئے طبقہ کا معیار زندگی بہتر ہو گا‘جب کسان کو فصل دگنا ملے گی، ایک برس میں 2فصلوں کی بجائے جب وہ تین فصلیں اٹھائے گا تو لازمی طور پر کسان کی زندگی خوشحالی سے ہمکنار ہو گی۔ اس وقت ہمارے ہاں جدید زرعی آلات کی خاصی کمی ہے جبکہ ہمارے ملک میں ہی بعض امراء جدید آلات استعمال کر کے اپنی زراعت کو دوسروں کے لئے مثالی بنا چکے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت آنے کے بعد انہیں اپنے تجربات عام کسانوں سے شیئر کرنے چاہیے تھے لیکن انہوں نے اسے صرف اپنے تک محدود رکھا ۔ اب چین اگر پاکستان کو جدید زرعی ٹیکنالوجی دیتا ہے تو اسے عام چھوٹے کسانوں تک بھی پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاکہ ہمارا چھوٹا طبقہ جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا کر اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکے۔