بر اعظم افریقہ کی بدقسمتی اس کی غربت و افلاس نہیں بلکہ اس کا دُنیا بھر میں معدنیاتی اور زرعی دولت سے مالا مال ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے ملک نے بھی افریقہ کے علاقوں پر قبضہ کیا، وہاں سے لوگوں کو پکڑ کر غلام بنایا اور ان کی معدنی و زرعی دولت لوٹ کر خود کو خوشحال بنایا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ کی اس ظالمانہ نشست پر امریکہ آ کر بیٹھ گیا۔ پہلے یورپی ممالک افواج کے ذریعے کالونیاں بناتے تھے، اب امریکہ نے اپنی فوجی طاقت کو پسِ پردہ رکھ کر معاشی غلامی کے لئے تین ادارے بنائے۔ جولائی 1944ء میں ’’آئی ایم ایف‘‘، 1945ء میں ’’ورلڈ بینک‘‘ اور خفیہ طور پر دُنیا پر ان اداروں کی معاشی و سیاسی حاکمیت مسلّط کرنے کے لئے 26 جولائی 1947ء کو طاقتور خفیہ ایجنسی ’’سی آئی اے‘‘ تخلیق کی گئی۔ اس کے بعد امریکہ نے پوری دُنیا کے غلام ملکوں کو یورپی طاقتوں سے زبردستی آزادی دلا کر انہیں اپنی معاشی غلامی کے شکنجے میں جکڑ لیا۔ ان مظلوم علاقوں میں معدنیاتی اور زرعی دولت سے مالامال افریقی ملک کانگو بھی تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ملک یورپ کے ایک انتہائی چھوٹے سے ملک بلجیئم کی کالونی رہا ہے، جو خود 1830ء میں ہالینڈ سے آزاد ہوا۔ آزادی کے فوراً بعد بلجیئم کے بادشاہ لیوپولڈ اول نے 1840ء میں حکم دیا کہ ہماری بھی دُنیا میں کالونیاں ہونی چاہئیں اور پھر اس کی افواج نے 15 نومبر 1908ء کو کانگو پر قبضہ کر لیا۔ کانگو رقبہ میں پورے یورپ سے بڑا ہے اور اس کے پاس تانبے اور کوبالٹ کے ذخائر دُنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ یہاں دُنیا کا دوسرا بڑا جنگل (Rain forest) ہے اور اس کا دریا 8 کروڑ ہیکٹر زمینوں کو سیراب کرنے اور سستی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر اس کے باوجود اس کے چھ کروڑ لوگ قحط زدہ ہیں اور یہاں دُنیا کی تیسری بڑی غریب ترین آبادی رہتی ہے۔ کانگو کا بلجیئم کی غلامی سے امریکہ کی اقتصادی غلامی تک کا سفر 1950ء کی دہائی میں شروع ہوا۔ آزادی و حریت کے نام پر پورے افریقہ میں تحریکوں کا آغاز ہوا تو امریکی حواری یہاں بھی کود پڑے۔ آزادی کے نام پر تحریکوں کی مدد کی گئی تاکہ کل انہیں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا غلام بنایا جا سکے۔ کانگو کو ایک غلامانہ قسم کی جمہوری حکومت تحفے میں دینے کے لئے بلجیئم نے 1959ء میں الیکشنوں کا اعلان کر دیا۔ سیاسی پارٹیاں یہ چال سمجھتی تھیں۔ اس لئے کہ وہ مکمل آزادی و خودمختاری کی علمبردار تھیں۔ انہوں نے 27 دسمبر 1959ء کو الیکشنوں کے بائیکاٹ کی دھمکی دے دی۔ بلجیئم کو عوام کی طاقت اور آزادی کے جذبے کا بالکل اندازہ نہیں تھا۔ اس نے سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ یوں لگتا تھا کہ پورا کانگو گرفتار کرنا پڑ جائے گا۔ عوام نے الیکشنوں کا بائیکاٹ کر کے ثابت کر دیا کہ وہ کس قدر بیدار ہیں۔ اب امریکہ نے اگلے پلان پر عمل کرتے ہوئے بلجیئم کو مجبور کیا کہ فوراً الیکشن کروا کر اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرو۔ امریکہ کا دیا گیا یہ خواب اور حقِ خود ارادیت کا نعرہ کام کر گیا اور فریب زدہ کانگو جمہوری فریب میں ایک بے بال و پَر پرندے کے طور پر امریکی سی آئی اے، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے سامنے آ گرا… ایسی غلام آزادی انہیں 30 جون 1960ء کو میسر آئی۔لیکن الیکشنوں کے دوران انہیں ایک آزادی پسند لیڈر مل گیا۔ امریکہ کانگو کو اپنے معاشی تسلّط میں جکڑا ہوا ایک ’’آزاد‘‘ ملک دیکھنا چاہتا تھا۔ مگر کانگو کے عوام نے جس باغیرت اور حریتِ فکر والے لیڈر کو منتخب کیا تھا، اسے ان غلامی کی زنجیروں کا مکمل ادراک تھا اور وہ اپنی قوم کو خود مختار آزادی دلانا چاہتا تھا۔ یہ شخص تھا پیٹرس لوممبا (Partice Lumumba)۔ یہ شخص تحریکِ آزادی کا ہیرو تھا اور لوگوں کے دلوں میں دھڑکن کی طرح بستا تھا۔ عوام نے اسے بھاری اکثریت کے ساتھ اپنا وزیر اعظم منتخب کیا۔ یہ پورے افریقہ میں ایک افریقی قوم پرست اور متحدہ افریقہ (Pan Africa) کا علمبردار تھا۔ افریقہ کی دولت لوٹنے کے لئے عالمی طاقتوں نے اسے اس طرح تقسیم کر رکھا ہے جیسے کیک کو میز پر رکھ کر کاٹا جاتا ہے۔ یہ ان کا اتحاد چاہتا تھا۔ جیسے ہی لوممبا نے اقتدار سنبھالا، بلجیئم نے اپنی تربیت یافتہ فوج سے مزید مراعات کے نام پر مطالبات کروانے شروع کر دیئے۔ ملک کے حالات نازک ہوئے تو امریکہ نے سی آئی اے کو لوممبا کی حکومت بدلنے یعنی (Regime Change) کا خفیہ حکم جاری کر دیا۔ لوممبا نے جمہوریت کے چیمپئن امریکہ کو مدد کے لئے پکارا، اس نے اقوامِ متحدہ میں جا کر آواز بلند کی، تاکہ اس کے ملک کو خانہ جنگی سے روکا جائے۔ ایسے میں سی آئی اے کے بکائو صحافی اس کے خلاف میدان میں آ گئے اور انہوں نے دُنیا بھر کے اخبارات میں مضامین لکھنے شروع کر دیئے۔ لکھا گیا کہ لوممبا تو شروع دن سے ہی کیمونسٹ نظریات کا حامل ہے اور وہ مغرب کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ مغربی دُنیا کی بد ترین خاموشی نے لوممبا کو مجبور کیا کہ وہ سوویت یونین سے رابطہ کرے۔ اس نے رابطہ کیا اور پھر امریکہ غضبناک ہو کر میدان میں اُتر آیا۔ سی آئی اے نے اسے ’’روایتی کیمونسٹ قبضہ‘‘ (Classic communist take over) سے تعبیر کیا اور امریکی حکومت نے بزورِ طاقت لوممبا کو حکومت سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ دے دیا۔ یورپ کی ٹریننگ والی فوج سب کچھ بھلا کر ایک دم متحد ہو گئی اور فوج کے چیف آف سٹاف، ممبوتو نے لوممبا کو اقتدار سے ہٹا کر اس پر قبضہ کر لیا۔ جنرل ممبوتو، سی آئی اے کے نزدیک امریکہ کا حامی اور سوویت یونین کا مخالف تصور ہوتا تھا۔ لوممبا اس بغاوت سے پہلے بھی امریکہ گیا تھا، اس نے ہر وہ کوشش کی کہ بتائے کہ وہ امریکہ کا مخالف ہر گز نہیں ہے۔ وہ تو صرف اور صرف ایک آزاد اور خود مختار کانگو دیکھنا چاہتا ہے۔ اس نے اپوزیشن کے رہنمائوں کو اپنے خلاف اس سازش سے آگاہ کرنے کے لئے بلایا، لیکن ان تمام رہنمائوں کو سی آئی اے پہلے ہی سے اپنے ساتھ ملا چکی تھی۔ حکومت پر فوج نے قبضہ کیا تو گلی گلی ، شہر شہر تحریک کا آغاز ہو گیا۔ پورا کانگو، لوممبا کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آیا۔ وہ بھوکے تھے، لیکن لوممبا کے نعرے کے مطابق عزت سے زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ ہنگامے پھوٹ پڑے۔ کیمونسٹ سوویت یونین نے اس ’’جمہوری‘‘ وزیر اعظم لوممبا کے حق میں اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کی جسے 14 دسمبر 1960ء کو سکیورٹی کونسل نے مسترد کر دیا۔ عوام میں لوممبا کی مقبولیت کے خوف سے گھبرا کر سی آئی اے نے اپنے منصوبے کے اگلے مرحلے پر عمل کرنے کا آغاز کر دیا۔ اسے گرفتار کر لیا گیا۔ 17 جنوری 1961ء کو رات کے وقت لوممبا کو ایک جزیرے پر لے جایا گیا اور اندھیرے میں تین فائرنگ اسکواڈ نے شدید فائرنگ کر کے اسے ہلاک کر دیا۔ لیکن اس کی موت کے بعد کانگو کئی سال مسلسل آگ اور خون میں نہاتا رہا اور آج بھی وہاں کے عوام میں امریکہ ایک نفرت کی علامت ہے، جبکہ افریقہ کے ممالک میں تمام قوم پرست تحریکیں لوممبا کو اپنا ہیرو سمجھتی ہیں۔ امریکہ کے ہاتھوں لوممبا کی موت کے 59 سال بعد 2001ء میں سی آئی اے نے وہ تمام خفیہ دستاویزات شائع کیں تو پورا منصوبہ سامنے آ گیا۔ امریکی صدر آئزن ہاور نے اس کے قتل کے لئے ایک لاکھ ڈالر رقم کی منظوری دی۔ لوممبا کی حکومت کو بھی عمران خان کی طرح ایسی ہی ایک سفارتی کیبل (Diplomatic Cable) موصول ہوئی تھی کہ تم غلط روش سے باز آ جائو۔ وہ جانتا تھا کہ محکمہ خارجہ تو وارننگ دیتا ہے۔ باقی کام تو سی آئی اے کرتی ہے۔ اس نے اپوزیشن کے رہنمائوں اور فوج کو دکھانے کی کوشش کی لیکن کوئی سننے کو تیار نہ ہوا۔ لوممبا دُنیا سے چلا گیا لیکن آج پورے افریقہ میں صرف اُسی کا نام گونجتا ہے، اپوزیشن رہنمائوں اور فوجی سربراہوں کے نام تک لوگوں کو یاد نہیں۔ مگر امریکی منصوبے کے عین مطابق معدنی اور زرعی دولت سے مالا مال یہ کانگو آج دُنیا کا ایک قحط زدہ ملک ہے جہاں 6کروڑ لوگ بھوک کی حالت میں موت کا انتظار کر رہے ہیں۔