مکرمی ! کسی بھی قوم میں مقبول کہاوتیں اْس کے اجتماعی روّیے،مزاج،نفسیات کی مظہر اور شعوری سطح کی خبر بھی دیتی ہیں۔ہمارے روّیے اس قدر مکدر اور مزاج اتنے بگڑ چکے ہیں کہ ہمارے ہاں مستعمل فقرے ہماری منفی سوچ اور ملاوٹی کردار کی اتنی بھرپور عکاسی کرتے ہیں کہ مزید کسی وضاحت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ اس حوالے سے عام طور پر بولے جانے والے ایک فقرے کو ہی لے لیجئے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا،گویا دل کی جگہ پتھر ہوتا ہے۔ جناب سیاست اگر خدمت کا نام ہے تو خدمتگاروں کے سِینے میں دِل کی بجائے پتھر کیوں ہیں؟ لیکن خمیر احسان فراموشی سے اْٹھا ہو اور سوچ دوسروں کی گردنوں کو زینہ بناتے ہوئے مسندِاقتدار تک پہنچنے کی ہو تو پھر جواب بھلا کون دیتا ہے اور کیوں دے گا؟ابھی پرسوں ترسوں سترہ جون کو ملک کے بڑے چھوٹے درجنوں شہروں کی آگ اْگلتی سڑکوں پر لاکھوں افراد ،ماڈل ٹاؤن لاہور میں ریاستی دہشگردی کا نشانہ بننے والے چودہ بیگناہ انسانوں کی شہادت کے ذمہ داروں کو کیفرِکردار تک پہنچانے،لواحقین و متاثرین کو انصاف دلانے کی قسمیں کھاتے ہوئے عوام کی ہمدردیاں سمیٹرہے تھے مگر تین سال سے اقتدار میں ہونے کے باوجود متاثرین کو انصاف کی فراہمی میں بال برابر بھی معاونت تو کْجا اس کے برعکس اْن تمام سرکاری اہلکاروں کو ترقیوں سے ہی نہیں نواز گیا بلکہ قتلِ عام کے ماسٹر مائینڈ اْس وقت کے حکمرانوں کی ضمانتوں اور بیرونِ ملک فرار میں سہولتکاری کر رہے ہیں۔کیا یہ انصاف ہے کہ قتل و دہشتگردی کے ذمہ دار ملزمان تو کل کی طرح آج بھی سلاخوں سے باہر مگر قتلِ عام کیخلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف قاتلوں کے دورِ حکومت میں درج کردہ جھوٹے مقدمات موجودہ دور میں بھی بطور لٹکتی تلوار تھانوں کے ریکارڈ میں موجود رہیں واپس نہ لئیے جائیں؟اگر ماڈل ٹاؤن کیس کے ملزمان کا اِیشو نظیر بنایا جائے۔مقررین و مظاہرین کی باتیں سْن کر یقین ہو گیا کہ انصاف، اقتدار کے نشے میں بہک اور بے حِس بھی ہو چکا ہے۔ (جاوید ذوالفقار‘فیصل آباد)