وہ ایک حیرت ناک شام تھی۔ جس شام کراچی کے صحافیوں کوصرف اطلاع نہیں بلکہ دعوت بھی دی گئی کہ آج آپ کو سابق صدر زرداری نے پریس کانفرنس کے لیے مدعو کیا ہے۔ یہ اطلاع ملتے ہی صحافیوں نے چینلوں اور اخبارات کے ایڈیٹرز سے رابطہ کیا اور یہ عجیب خبر ان تک پہنچانے کے بعدانہوں نے اپنے آپ سے پوچھنا شروع کیا کہ آصف زرداری نے اتنے برسوں کے بعد انہیں کیوں یاد کیا ہے؟ اس سوچ میں ڈوبے انہوںنے اپنے موبائل فون پر وہ سوالات بھی لکھنے شروع کیے جو ان سے پوچھے جا سکتے تھے۔ کراچی کے صحافیوں کا ویسے تو بلاول ہاؤس آنا جانا لگا رہتاہے۔ صحافیوں کے وہ گروپ پریس کلبوں سے باہر بھی پہچانے جاتے ہیں جن کوبلاول بھٹوزرداری اپنی انگریزی تڑکے والی اردو میںنام لیکربلاتے ہیں۔بلاول کی گڈ بکس میںتو بہت سارے امیرصحافی ہیںمگرجب کوئی غریب یا مڈل کلاس صحافی ان کے منہ سے اپنا نام سنتا ہے تو وہ اس بات کو ایک واقعہ سمجھ کر بار بار مذکورہ وڈیو کلپ کودیکھتا رہتا ہے جس میں ذرا مسکرا کر اور اپنائیت کے ساتھ آصف زرداری کاسیاسی وارث انہیں نام سے پکار کر کہتا ہے کہ’’۔۔۔۔بھائی آپ سوال پوچھیں‘‘ ایک اپنے جیسے کولیگ کی ایسی خوش قسمتی دیکھ کرکس کافر کورشک نہ آئے گا؟ ایک وقت ایسا تھاکہ آصف زرداری سے سندھ اور دیگر علاقوں کے صحافی ملتے یاسوال پوچھتے ہوئے کوئی ایکسائیٹ مینٹ Excitementمحسوس نہیں کرتے تھے۔ اس وقت ہر جرنلسٹ کا خواب ہوتا تھا کہ کاش! ان کی ملاقات اس بلاول بھٹوزرداری سے کروائی جائی جو بلاول ہاؤس میں سیاسی اساتذہ کے زیر تربیت تھے۔ جو ہرموقعے پر نہیں بلکہ کبھی کبھی کسی خاص موقعے پر اس طرح جلوہ نما ہوتے تھے جس طرح پیر پگارا اپنے مریدوں کے سامنے ہوا کرتے ہیں۔ یہ ان دنوںکی بات ہے جب بلاول صرف عمر کے حساب سے نہیں بلکہ سیاسی علم کے حساب سے بھی بچے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب بلاول ہر بات پڑھ کر بولا کرتاتھا۔ یہ ان دنوں کی یاد ہے جب بلاول کوخود بھی معلوم نہ ہوتا تھا کہ وہ کیا بول رہا ہے اور کیوں بول رہا ہے۔ اس وقت اس سیاسی بچے کے منہ میں بڑے بڑے بول ٹھونسے جاتے تھے۔ بلاول زرداری اب سیاسی طور پر نہ صرف تیار ہو گئے ہیں بلکہ وہ بہت سرگرم بھی ہیں اور اب وہ اپنے سیاسی کوچز کے اشارے پر الفاظ کا انتخاب نہیں کر تے۔اب وہ کسی بھی صحافی سے ملتے ہوئے نہیں گھبراتے۔ اب وہ سیاسی بیان دینا سیکھ گئے ہیں۔ اب انہیںمعلوم ہے کہ کس صحافی کے کس سوال کا کیسا جواب دینا ہے۔اس منزل پر پہنچنے کے لیے اس بچے نے بڑی محنت کی ہے جوبچہ اب بڑا ہوگیا ہے۔ اب وہ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے نہیں گھبراتااور نہ مشکل سوال پر پیپلز پارٹی کے کسی سینئر رہنما کی طرف دیکھتا ہے۔بلاول کی بے حجابی اوراس کی بے ٹوک بات چیت سے اب صحافی حضرات اپنے صحافتی دماغوںمیں وہ کشش محسوس نہیں کرتے جو فطری ہواکرتی ہے۔ اب ملک کے مایہ ناز صحافی بلاول کے والد آصف زرداری سے ایکسکلیوسو ملاقات کے لیے ترستے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ اب آصف زرداری کے الفاظ پاکستان کی سیاست میں بھونچال مچا سکتے ہیں۔ اس دن بھی ایسا ہوا۔اس دن کی شام جب بہت سارے سوالات کے ساتھ صحافی حضرات بلاول ہاؤس پہنچے اور چائے کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے اپنے اپنے پارٹی سورسس Sourcesسے یہ بات پوچھنے کی کوشش کرتے رہے کہ اس پریس کانفرنس کا مرکزی نکتہ کیا ہے جس کی اطلاع انہیں اچانک دی گئی ہے؟ حالانکہ ہر صحافی کو معلوم بھی تھا کہ یہ وہ دن ہے جس دن وزیر اعظم شہباز شریف اپنے پارٹی کے اہم رہنماؤں کے ساتھ لندن یاترا کے لیے نکلے ہوئے ہیں۔ ان صحافیوںکویہ بھی معلوم تھاکہ مذکورہ میٹنگ کا سب سے اہم ایجنڈا یہی تھا کہ اس ٹوٹے پھوٹے سرکاری سیٹ اپ کو اتنادھکیلاجائے جتنادھکیلا جا سکتا ہے یا پھر سابقہ حکومت کی مہنگائی اور معاشی مجبوریوں کا ٹوکرا جلد از جلد اپنے سر سے اتارا جائے۔ آصف زرداری کو بھرپور خدشہ تھا کہ اگر شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی اورپارٹی قائد کی بات مان لی تو پھر انہیں وفاقی حکومت کا حصہ ملنا تو کیاسندھ کے سوا سال کاسرکاری مزہ بھی قربان کرناپڑے گا۔ اس دن صرف شہباز شریف لندن میں نہ تھے۔ اس دن مریم نواز شریف عوام میں تھی اور وہ مسلم لیگ ن سے چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ اس حکومت سے جان چھڑائی جائے۔ آصف زرداری نے اس دن صحافیوں کوبتایا تھا کہ ان کی رات میاں نواز شریف سے ٹیلی فون پر بات ہوئی ہے اور انہوں نے میاں نواز شریف کو سمجھایاہے کہ انتخابی عمل میں جانے کی عجلت اچھی نہیں ہے۔ انہیں اس سے قبل الیکشن کمیشن اورنیب میں ’’اصلاحات‘‘ کرنے ہیں۔ مذکورہ پریس کانفرس کے دوران سینئر صحافی سمجھ گئے کہ آصف زرداری اپنے سرکاری اتحادیوں پر دباؤڈالنا چاہتے ہیںکہ جلدی حکومتی میدان نہ چھوڑاجائے۔ مگر شریف خاندان کو یہ فیصلہ آصف زرداری کی منت سماجت کو دیکھ کر نہیں بلکہ اپنے مفادات کا سوچ کرکرنا ہے۔ سیاست بہت بے رحم چیز ہے۔ اس بات کا احساس آصف زرداری سے زیادہ اورکس کو ہو سکتا ہے؟ آصف زرداری کے اس پریس کانفرنس میںسب سے اہم نوٹ کرنے والی یہ بات تھی کہ ان کی صحت حیرت انگیز پر بہترنظر آ رہی تھی۔ وہ کسی بھی اینگل سے بیمار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ وہ یہ تاثر دینے میں بڑی حد تک کامیاب لگ رہے تھے کہ وہ ایک بار پھر پاکستان کے صدر بننے کے لیے تیار ہیں۔ مگر اس منصب پر پہنچنا اس بار اتناآسان نہیں تھا۔ وہ حالات اور تھے۔ وہ زمانہ اور تھا۔ اس وقت ملک میں بینظیر بھٹو کے قتل کا احساس اس قدر حاوی تھا کہ اسٹیبلشمینٹ نے چاہتے ہوئے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا مگر ’’اب کہ اور ہیں ہجران یار کا موسم‘‘بلاول ہاؤس کی دیگ میںکیا پک رہا ہے؟اس کا صحیح جواب تو اس سیاسی باورچی کو بھی معلوم نہیں ہے جس کا نام آصف زرداری ہے۔ وہ آصف زرداری جس کے حقیقی خیراندیش یہ سمجھ رہے ہیں کہ شریف خاندان اور ان کے حلقہ احباب نے ’’زرداری کو ڈاکٹر زرداری‘‘ کی اعزازی سند دیکر ان سے زندگی کی سب سے بڑی سیاسی غلطی کراوئی ہے۔ اس وقت کو اقتدار کی بریانی بنا رہے ہیں یا سرکاری پلاؤ پکا رہے ہیں؟ صحیح بات یہ ہے کہ وہ خود بھی نہیں جانتے۔ آصف زرداری تاثر دینے میں کمال کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں ان جیسی حقیقی اداکاری کرنے والا اور کوئی نہیں۔ اس لیے انہوں نے اب تک اپنے اتحادیوں کو اس تجسس کا شکار رکھا ہے کہ وہ اتحادی سیاست کی دیگ میں اب تک کیا پکانے میں مصروف ہیں؟ مگر آصد زرداری کے چہیتے اور بے تکلف دوست نماشاگرد جب ان سے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے یہ سوال کرتے ہیں کہ ’’رئیس! کیا پکا رہے ہیں؟ سیاسی بریانی یا اقتداری پلاؤ‘’ زرداری اپنی مخصوص رازداری والی اسٹائل میں جواب دیتے ہیں کہ ’’پہلے پکنے دو۔ جب پک جائے گا تب دیکھ کر فیصلہ کریں گے کہ یہ سیاسی بریانی ہے یا اقتداری پلاؤ؟‘‘