پاکستان کے سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں توعوام کودجل وفریب دیتے ہیں کہ وہ حکومت میں ہوتے تو ان کے لئے دودھ اورشہد کی نہریں بہادیتے لیکن جونہی وہ اقتدارمیں آتے ہیںتووہ اپنے وعدے بھول جاتے ہیں۔ ان کی گردن میں سریا لگ جاتا ہے اوران کی بولی اورانکی چال بدل جاتی ہے وہ اپنے آپ کواس عوام کے سامنے جواب دہی سے مبراسمجھتے ہیں کہ جس نے انہیں کرسی پر بٹھایاہوتا ہے۔ کرسی پر بیٹھ کر انہیں خوف خدا اورنہ ہی خوف خلق ہوتاہے۔ روزآخرت پران کاایمان کمزورہوتا ہے جبکہ عوام ان کی نظروں میںجانوروں کے ریوڑ سے زیادہ نہیں ہوتے ۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے تقریباً ہر نئے حکمران کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ اس کے دور میں ہر چیز پہلے سے کئی گنا بہتر ہے۔ میڈیا کو تاریخ میں سب سے زیادہ آزادی میسر ہے۔ انسانی حقوق کا وہ احترام ہے کہ پوری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی معاشی ترقی بے مثال ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی کم ہوئی ہے گویا راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ ایسے دعوئوں کوجب حقیقت کے میزان پررکھتے ہیں توافسوس ہوتاہے کیونکہ یہ اکیسویں صدی ہے اوراس میں کوئی چیز چھپ نہیں سکتی۔میڈیا،انسانی حقوق اورمعاشی صورتحال خواص کے علم میں تو ہوتی ہے رہی مہنگائی کم ہونے کی باتیںتوجناب مہنگائی عوام کی روزمرہ کی زندگی میںلائونہیں آرہااوروہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے چلے جارہے ہیں۔، بجلی و گیس کی مسلسل قیمتوں میں اضافے نے عوام کی کمر ٹوڑ دی ہے عوام پرگزرتے طوفان حکمرانوںجھوٹے وعدوں کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا ایک طرف ان کے سب دعوے جھوٹے ثابت ہوتے ہیں تودوسری طرف ان کے کرداروعمل کے باعث ان کی حکمرانی بھی زوال پذیرہوجاتی ہے اوران کا اقتدار رسہ کشی کاشکار ہوجاتا ہے۔یہ آج ہی کی بات نہیں بلکہ تاریخ کے ہر موڑ پر ایسا ہوا ہے۔ ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کرکے ایک دوسرے کے خلاف اکھاڑے میں اترجاتے ہیں اورجب تک نہ اقتداری ٹولے کواقتدار سے بے دخل نہیں کرتے تب تک راحت کا سانس نہیں لیتے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں پاکستان کے ماضی کے نشیب و فرازبلکہ تلخ ماضی کے پیش نظر رکھنے میں صریحاََ ناکام ر ہیں اور اب بھی ان کایہی حال ہے۔ اسی لئے وہ ریاست کے حال اور مستقبل کی صحیح سمت کا تعین نہیں کرپارہی ہیں۔وہ وہی حربے اور ہتھکنڈے استعمال کررہی ہیں اوروہی غلطیاں اور کو تاہیاں دہرارہی ہیں ماضی میںجن سے پاکستان کوناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ وہ واضح اصول جومملکت پاکستان کو توانائی بخشنے بلکہ اس ریاست کے لئے توانائی کا سرچشمہ ثابت ہو اوراس ریاست کے مستقبل کوروشن کرنے میں کرداراداکرے لیکن خالصتاََ جماعتی تعصب اور ایک دوسرے کوزچ کرنے کے باعث ان اصولوںکو پرے دھکیل دیاگیا اورمن مانی کی جارہی ہے۔ 11اپریل 2022سوموار کومسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف پاکستان کے23 ویں وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں۔لیکن یہ پاکستان سیاسی تاریخ کاایک المناک باب ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اب تک22 لوگ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوچکے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے5سال کی مدت پوری کی ہو۔یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نون،پیپلز پارٹی اورتحریک انصاف نے اقتدارکو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور تو اور تحریک انصاف کے قائد کسی دوسری قد آور سیاسی جماعت کوخاطر میں لائے بغیر اپنے آپ کوافلاطون سمجھتے رہے ہیں ۔اناہی ایسی شے ہے کہ جس کی وجہ سے ماضی میں ملک ناصرف دو لخت ہوا بلکہ انتشار ـ،افراتفری اور غربت کی طرف چلاگیا ۔ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت نے اپنے ادوار میں ترقی کے بڑے دعوٰ ے تو کئے لیکن ان دعوئوں میں سے اکثرثمر بارثابت نہیں ہوئے۔ اس کے علیٰ الرغم حکمرانوں کی ذاتی زندگی دن دگنی ترقی کرگئی اور اس کی مثال ملک کی تینوںجماعتوں کے لیڈر ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جس بھی پارٹی کالیڈر پارلیمنٹ کی بالادستی کا حلف اٹھاتاہے اور پھر وہی کھڑا ہوکر ملک کی عوام کو جھوٹے قصے سناتاہے تو خود اندازہ لگائے کہ وہ پاکستان سے کتنا مخلص ہوگا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں بیٹھ کر جھوٹ بولنے والوں کاساتھ نبھانے والے پاکستان کی عوام کی عقل وشعوربھی قابل داد ہے کہ کس طرح اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے مستقبل پرکلہاڑامارتے رہے ہیں اوراب بھی باشعور کہلانے والی عوام کایہی طرزعمل اوروطیرہ ہے ۔ بہرکیف! قوم کی قیادت کادم بھرنے والے سیاسی تدبر سے عنقا اپنے ملک کے مستقبل سے کھلواڑ کررہے ہیں اورمسلسل کئے جارہے ہیں۔ بھارت میں اس پرشادیانے منائے جارہے ہیں کیونکہ بھارت کی اولین قیادت نے پاکستان کے حوالے سے جس ذہنیت کااظہار کیا تھا آج کی بھارتی قیادت سمجھتی ہے کہ ان کی بانی قیادت کاویژن درست تھا۔کیونکہ پاکستان ایک قوم بننے کے بجائے مختلف قومیتوںاورلسانیت میں بٹی ہوئی ہے کوئی اسے ایک جانب کھینچتاہے توکوئی دوسری جانب۔ اس مملکت کے لئے ایک مرکزیت قائم نہ ہونے دینے کی انہوں نے گویا قسم کھائی ہے ۔ جب تک پاکستان سیاسی طورپر منظم نہ ہو اورقانون وآئین کی حکومت کا تصور موجود نہ ہو تو پاکستان میںسیاسی افراتفری موجود رہے گی ۔ اس لئے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں پریہ فریضہ عائد ہوتاہے کہ وہ ملک کی سیاسی فضا میں امن و امان فراہم کریں اور ملک کی سیاست میں اقدارکوفروغ دیں ،بھائی چارہ قائم کریں اوربا ہم آہنگی پیدا کر کے ملک کوکسی رکاوٹ کے بغیر ترقی کی منازل طے کروائیں۔ ملک کے اندر احترام آدمیت کا عنصر اور عدل و انصاف کا تصور بغیر ریاست اور حکومت کے ممکن نہیں ہوتا لیکن جب حکمران ہی قانون اورآئین کی دھجیاں بکھیر کررکھ دیں توپھر ریاست کی ترقی کا محور نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے ۔ یہ مختصر سطورہمارے ان تجربات کی بھی داستان ہے جو ہم نے ماضی قریب اورماضی بعید میں اخذ کئے ہیں۔ اگرپاکستان کی سیاسی جماعتیں ماضی سے سبق حاصل کرناچاہتی ہے توپھرماضی کے نشیب و فراز کوزیرنظررکھناازحد ضروری ہے ۔