اس کی آواز میں غصہ اور دکھ ملا ہوا تھا، تھوڑی سی براہوی اور زیادہ تر اردو میں وہ اس کرب سے بولا کہ میں دہل کر رہ گیا۔ کہنے لگا ’’آرمی پبلک اسکول کے بچے انگریزی بولتے تھے اسی لیے سو دن والا دھرنا فورا ختم ہو گیا تھا، ہم تو ٹھیک سے اردو بھی نہیں بول سکتے، اس لئے ریلیاں چلتی رہیں، ترانے بجتے رہے‘‘۔ میں اس وقت ٹیلی ویژن کی ٹرانسمیشن میں بیٹھا تھا، زیادہ بات نہیں کر سکتا تھا۔ بس اتنا ہی بولا، دیکھو لیڈر لیڈر میں فرق ہوتا ہے، بات اس کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی، وہ سیدھا سیدھا پنجابیوں پر آگیا، کہا تم دوسروں کا درد کیوں محسوس نہیں کرتے، میں نے کہا عمران خان بھی تو پنجابی ہے، لاہور کا ہے، بولا، پٹھان نسل ہے، تھوڑا درد باقی رہ گیا ہوگا اس کے دل میں۔ میں نے بات بڑھانا مناسب نہ سمجھا، بس فون بند کرکے ٹرانسمیشن میں چیخ اٹھا، لیکن میری آواز کون سنتا تھا، چینلوں پر جو دھما چوکڑی مچی ہوئی تھی اس کے پیچھے الیکشن مہم کے اشتہارات تھے۔ یہ نواز شریف کی آمد تھوڑی تھی، الیکشن مہم مضبوط کی جارہی تھی۔ کسی کو نواز شریف سے دلچسپی ہوتی تو بے نظیر کی آمد والا منظر ایک بار پھر تازہ ہو جاتا کہ رات سے ہی پورے ملک سے آئے ہوئے جیالوں نے ایئرپورٹ سے فورٹریس سٹیڈیم تک ساری روڈ اپنی دسترس میں لے لی تھی۔ وہ پیدل تھے، کشتیاں جلا کر آئے تھے، ان تک نہ کوئی کیمرہ پہنچ رہا تھا جو ان میں شوق پیدا کرے، موبائل اور سوشل میڈیا بھی نہیں تھے۔ ایسے ہجوم کو دنیا کا کوئی کنٹینر، لاٹھی چارج یا آنسو گیس نہیں روک سکتی۔ ایسے بے پناہ ہجوم ہی ہوتے ہیں، جب پولیس پیچھے ہٹ جانے کا فیصلہ کر لیتی ہے لیکن یہاں تو ہر لیڈر کو گاڑیوں میں بیٹھے یا ان کی رئوف سے سر باہر نکال کر اپنے وجود کا نظارہ کروانا ضروری تھا۔ نوازشریف کی جیل آمد دراصل انتخابات جیتنے کے لیے آخری ترپ کا پتہ تھا جو چلایا گیا۔ ایسے میں اگر ٹرانسمیشن روک کر مستونگ کے 131 شہداء کا تذکرہ شروع ہوجاتا تو ساری انویسٹمنٹ ضائع ہو جاتی۔ میڈیا مالکان بھی کئی ہفتوں سے پارٹی اشتہارات چلا کر رزق کا سامان کررہے تھے، وہ یہ نقصان کیسے برداشت کرتے۔ ادھر ٹرانسمیشن چلتی رہی، جہاز کے اڑنے، پہنچنے کی اطلاعات نشر ہوتی رہیں اور ادھر درینگڑھ سے سائرن بجاتی ایمبولینسیں کٹی پھٹی لاشیں اور کراہتے زخمی اٹھا کر کوئٹہ کے ہسپتالوں کی سمت بھاگتی رہیں۔ ہم کتنے سفاک ہیں کہ ہم اس وقت ان لاشوں اور کراہتے زخمیوں کا ذکر نہیں کر رہے تھے بلکہ نواز شریف اور مریم نواز کو پڑنے والے دھکوں پر افسوس کر رہے تھے۔ مستونگ میرے لیے ایسے ہے جیسے کسی نے گھر کو اپنے ہاتھوں سے ایک ایک اینٹ لگا کر بنایا ہو۔ اٹھارہ فروری 1992ء مستونگ ضلع کا پہلا دن تھا اور میرا بھی ڈپٹی کمشنر بننے کا پہلا دن۔ کوئٹہ سے صرف چند کلو میٹر دور میان غنڈی سے مستونگ کی سرحد شروع ہوجاتی ہے۔ یہ کراچی جانے والی سڑک پر واقع ہے۔ کوئٹہ شہر اور اس کے درمیان چلتن کاپہاڑ آتا ہے۔ اس پہاڑ کو ایک درے لک پاس سے عبور کریں تو بلندی ہی سے مستونگ، پڑنگ آباد اور درینگڑھ کے سبز باغات نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پہاڑ سے اترتے ہی ایک راستہ ایران کے لئے جدا ہو جاتا ہے۔ یہاں سے پورا علاقہ کئی کلومیٹر تک سرسبز و شاداب میدان کی طرح ہے جس کے باغات کے درمیان میں سے یہ دونوں سڑکیں اپنی اپنی منزل مقصود کی طرف جانے کے لیے ایک دوسرے سے آہستہ آہستہ جدا ہوتی جاتی ہیں۔ اسی سرسبز و شاداب علاقے کا ایک قصبہ درینگڑھ ہے۔ نواب رئیسانی کے گاؤں کانک کے قرب و جوار میں واقع ہے۔ یہ قصبہ انتہائی خوبصورت ہے۔ نواب اسلم رئیسانی 1990ء کا الیکشن جیت کر سینئر وزیر خزانہ بنا تھا۔ میرا ان سے ایک دیرینہ تعلق تھا۔ ایک تو پڑوس اور دوسرا ان کی شاندار مجلس جو وہ سارا دن اپنے ’’ساروان ہاؤس‘‘ میں لگائے رکھتے۔ میں محکمہ خزانہ میں ڈپٹی سیکرٹری بجٹ تھا۔ 1991ء کے این ایف سی ایوارڈ سے لے کر بلوچستان کی تاریخ کا پہلا سرپلس بجٹ پیش کرنے تک ان سے دن رات کا ساتھ سا ہو گیا۔ مستونگ ضلع بنا تو وہ مجھے مجبور کر کے وہاں لے گئے۔ انہی دنوں میرا باقی بھائیوں سے بھی تعارف ہوا، اور یہ تعارف دوستی اور محبت میں بدلتا چلا گیا۔ سب سے بڑے بھائی امین اللہ رئیسانی تھے، ان سے تو علم اور کتاب دوستی کا رشتہ تھا۔ ایسا درویش کہ رئیسانی قبیلے کی نوابی سے دستبردار ہوکر پگڑی اسلم رئیسانی کے سر باندھ دی۔ میر لشکری رئیسانی دوستوں کی طرح ہے جبکہ سراج ہمیشہ بڑے بھائی کی طرح احترام کرتا تھا۔ چونکہ اس کی بیوی تھائی لینڈ سے تھی، اس لئے وہ زیادہ تر وہیں رہتا۔ پاکستان آتا تو ملاقات ہوتی، کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایسا شخص ایک دن پاکستان کی سیاست میں اس قدر غوطہ زن ہوجائے گا کہ اس کے لئے احترام کے سوا کوئی دوسرا لفظ زبان پر نہیں رہے گا۔ قوم پرستی کے زمانہ عروج میں جب کیمونسٹ انقلاب سرداروں اور نوابوں کی قیادت میں لایا جا رہا تھا، تو اس وقت سراج کے والد نواب غوث بخش رئیسانی پاکستان کی سیاست کرتے تھے اور انکا یہ ورثہ تمام بھائیوں کو ملا ہے۔ لیکن سراج تو قبائلی جھگڑوں سے دور اپنے کاروبار میں مگن تھا۔ اسکا اسطرح سیاست میں آنا، کیا یہ سب اچانک ہوگیا؟ نہیں۔۔ وہ ایک نیت اور عشق کے ساتھ سیاست میں آیا تھا۔ مستونگ وہ علاقہ ہے جو ہمیشہ سے قوم پرست سیاست کا گڑھ رہا ہے۔ یہیں سے 1948ء میں خان آف قلات کے بھائی آغا عبدالکریم نے بغاوت کا اعلان کیا تھا اور افغانستان میں پناہ لی تھی۔ ون یونٹ کے خلاف اٹھنے والی تحریک اور شیر محمد مری عرف شیروف کے کیمونسٹ انقلاب کے جانثاروں میں بھی مستونگ کے لڑکے شامل تھے۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی فوج کشی نے جو حالات یہاں پیدا کیے، ان سے بلوچ علیحدگی پسند، افغانستان اور بھارت کا ایک ربط قائم ہو گیا اور یہ ربط بلوچستان میں رہنے والے ہر پشتون اور بلوچ پر آج بھی روز روشن کی طرح واضح ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ کون سا لڑکا، کب افغانستان گیا اور وہاں سے کب بھارت گیا اور پھر کیسے واپس آیا۔ مشرف کی پاکستان دشمنی کا ایک اظہار بلوچ قبائل میں پاکستان اور وفاق کے حامی نواب اکبر بگٹی پر حملہ تھا۔ اکبر بگٹی ان تمام قوم پرستوں کے خلاف 1973ء میں بلوچستان کے گورنر بنے تھے لیکن ان کی لاش ان کے بدترین مخالف قوم پرستوں نے اٹھاکر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب بلوچستان میں پاکستان کا نام لینا، اس کا پرچم لہرانا جرم بن گیا تھا۔ سب سے پہلے بلوچستان میں ہی شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو بسوں سے اتار کر قتل کیا گیا۔ کوئٹہ شہر ایک قتل گاہ بن گیا۔ ایسے میں پاکستان کا نام لینا بڑے حوصلے کی بات تھی۔ 31 جولائی 2011ء کو مستونگ میں یوم پاکستان کی تقریبات کے سلسلے میں فٹبال میچ تھا۔ سراج رئیسانی مہمان خصوصی تھا۔ دھماکا ہوا، خود تو بچ نکلا لیکن بیٹا حمل رئیسانی اللہ کو پیارا ہو گیا۔ باپ غمزدہ بھی تھا اور پریشان بھی۔ قبائلی ماحول میں قاتل نہیں چھپ سکتا۔ معلوم ہوگیا کہ کونسے تین نوجوان تھے جو افغانستان اور پھر بھارت جاتے رہتے تھے اور انہوں نے حملہ کیا تھا۔ کافی عرصہ ان کے پیچھے بھاگتا رہا۔ میں تعزیت کے لیے ملا تو وہ بھارت کے خلاف نفرت سے بھرا ہوا تھا۔ ساتھ ہی وہ پاکستان کے ان سیکولر لبرل دانشوروں کے بھی سخت خلاف جو ان قاتلوں کو قاتل نہیں ’’ناراض بلوچ‘‘ کہتے تھے۔ اس واقعہ کے بعد ایک محب وطن باپ کے محب وطن بیٹے کا یہ نیا روپ تھا۔ میری اس سے فون پر بات ہوتی رہتی تھی۔ وہ ایک دن بولا، تم ہمیں محب وطن نہیں کہو گے کیونکہ غدار تو تمہارے لاہور میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں، یہ وہ غدار دانشور ہیں جن کے نزدیک بھارتی اسلحے سے اگر کوئی بلوچ قوم پرست کسی پنجابی کو قتل کرے یا اپنے ہی بلوچ بھائی کو قتل کرے ان کے نزدیک وہ قاتل نہیں ’’ستایا‘‘ ہوا ہے۔ میں وہ گالیاں یہاں لکھ نہیں سکتا جو ایک درد مند اور دکھی باپ نے ان لبرل سیکولر پاکستان دشمن میڈیا اور سوشل میڈیا والوں کو دیں۔ اس کے بعد وہ مجھے ایسا محب وطن لگتا جو قربانی کا تاج سر پر سجائے ہوئے تھا۔ اپنی گاڑی پر پاکستان کا پرچم پینٹ کیے ہوئے، اپنے جوتے بھارتی پرچم سے بنائے ہوئے غلاف۔ اس کی شہادت پاکستان کی سالمیت پر حملہ تھا۔ لیکن تکلیف دکھ اور غصہ اس بات پر تھا کہ سراج رئیسانی اور اس کے ساتھ شہید ہونے والے 130 بلوچ تو وہ تھے جن کو اس ملک نے غربت، افلاس اور موت کے سوا کچھ نہیں دیا، لیکن وہ اس ملک کی محبت میں قربان ہورہے تھے اور پورا میڈیا ایسے شخص کے گرد گھوم رہا تھا جسے اس ملک نے تین دفعہ وزیر اعظم بنایا اور اس کے چارفلیٹوں پر انگلیاں اٹھیں تو وہ پاکستان کے ستر سالوں پر لعنت بھیجنے لگا۔ یاد رکھو! مؤرخ تاریخ لکھ رہا ہے۔ 1970ء کے الیکشنوں کا مشرقی پاکستان یاد آرہا ہے۔ انتخابات سے ذرا قبل تاریخ کا سب سے بڑا طوفان آیا تھا، 12 نومبر 1970ء کو پانچ لاکھ بنگالی لقمہ اجل بن گئے تھے اور مغربی پاکستان کے سیاستدان الیکشنوں کی ریلیوں میں گم تھے۔ طوفان اور اس پر ہمارا رویہ اس نفرت کا آغاز تھا جس نے بنگلہ دیش کے قیام کی راہ ہموار کی۔ اکبر بگٹی محب وطن پاکستانی تھا، اس کی لاش ہم نے خود علیحدگی پسندوں کو دی اور آج تک بھگت رہے ہیں۔ سراج رئیسانی کی لاش کو بچانا اور اسے عزت دینا، محبت دینا ہمارا فرض ہے ورنہ دوسروں کے ہاتھ اس کی میت آگئی تو خدا نخواستہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔