کراچی کا رہنے والا ہو او ر’’بھائی ‘‘ کو نہ جانتا ہو تو آپ حق بجانب ہیں کہ اسکے شہر قائدسے تعلق پر شک کا عدسہ رکھ دیں ،یہ کیسے ممکن ہے کوئی کہے کہ وہ کراچی میں پلا بڑھا ہو اور ’’بھائی ‘‘کو نہ جانتا ہو ۔۔ زیادہ پرانی بات تو نہیں’’ بھائی‘‘ کراچی کے کھڑک سنگھ ہوا کرتے تھے ان کے حکم سے بسوں کے سائلنسرکاربن مونو اکسائیڈ اگلتے اورسڑکوں پر گاڑیوں کامتحرک بوجھ ہوتا زراکسی بات پر بھائی کا متھا پھرتا تو حسب منشاء مکہ چوک عزیز آبادکے قریب بھائی کی والدہ ماجدہ خورشید بیگم صاحبہ کے نام سے موسوم میموریل ہال میں ’’بھائیوں‘‘ کی بیٹھک لگ جاتی ،رابطہ کمیٹی سرجوڑ کر بیٹھتی اور پھرمیڈیا ہاؤسز کے مخصوص رپورٹروں کے ذریعے ہڑتال کی بریکنگ نیوز آنا فانا پھیلا دی جاتی خبر کے نشر ہوتے ہی کراچی کے بازار خودکار انداز میں بند ہوجاتے دکاندار’’رضاکارآنہ‘‘ انداز میں دکانوں کے شٹر گرا دیتے ،ٹرانسپورٹر گاڑیاں بند کردیتے،پٹرول پمپ قناتیں اوڑھ لیتے،ایدھی فاؤنڈیشن کے ایمبولینس ڈرائیور الرٹ ہوجاتے اور پورے شہرمیں ہڑتال ہوجاتی ،1984ء سے22 اگست 2016ء تک بھائی کی ایسی ہی حکمرانی رہی اگرچہ اپنی حکمرانی کے آخری عشرے میں بھائی بہکی بہکی تقاریر کرکے بانیان پاکستان کی اولادوں کو چونکا بھی دیتے تھے لیکن تقریر کے بعد واسع جلیل بات بنا جاتے وہاں موجود رپورٹروں کو ہدائت دے دی جاتی کہ آپ نے جو سنا ہے وہ ایسا نہیں بھائی اصل میں یہ کہنا چاہتے تھے ،فرمانبردار رپورٹر سینے پر ہاتھ رکھ کر کہتے فکر نہ کریں،کبھی کبھار بات بگڑجاتی تو فاروق ستار بھائی وضاحت کے لئے موجود ہوتے کہ بھائی کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے ان کا کہنا یوں نہیں یوں تھایہ دھندا یونہی چلتاآرہا تھا کہ بائیس اگست2016ء کی سہہ پہر بھائی نے کراچی پریس کلب کے باہر وہ بدبودار ’’ صوتی قے‘‘ کی کہ رابطہ کمیٹی کے پونچھے تھوڑے پڑگئے اور انہیںبھائی سے علیحدگی اختیار کرکے آخر کارعزیز آباد سے بہادر آباد آنا پڑا۔ اس پاکستانی میڈیا پر بھائی کے فرمودات پر پابندی ہے اب وہ سوشل میڈیا کے ذریعے بانیان پاکستان کی اولادوں کو لیکچر دیتے ہیں اوروہ تاریخ بتاتے ہیں جس کی کسی کوخبر نہیں لگتا ہے مورخ عالم بالا سے آکر ان کے سامنے اوراق پلٹ کر پلٹ جاتا ہے،گذشتہ دنوں انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میںلمبی تقریر جھاڑدی۔ فطرانے چندے اور بھتے کی رقم میں خطرناک حد تک کمی کے بعد متبادل ذرائع اختیار کرنا یقینا انکی بڑی مجبوری ہے ،مجبوری کے اس عالم میں ان سے کچھ بھی کروایاکہلوایا لکھوایا جاسکتا ہے اور وہ یہی کررہے ہیں کبھی پاکستان کو گالیاں دے کر اپنے آباو اجداد کی ارواح کو قبروں میں تڑپاتے ہیں اور کبھی قائد اعظم کے خلاف ہرزہ سرائی کرکے حیران کررہے ہوتے ہیں کہ بندہ پستی میںکس حد تک گر سکتا ہے سوال تو بنتا ہے کہ انہیں یہ سچ اس وقت کیوں یاد نہیں آیا جب وہ اپنے مریدوں کو بانیان پاکستان کی اولادیں کہہ کر پکارتے تھے،پاکستان سے فطرہ چندہ بھتہ وصولتے تھے یہ انکشافات اب ہی کیوں ہورہے ہیں ؟یہ یقینا ان کی مجبوری ہوگی۔ پرویز ہود بھائی دستاویزات کے حساب سے سائنسدان ہیں ،ماہر طبیعات ہیں ،ان کے پرستاروں کے نزدیک انہوں نے طبیعات کے میدان میں بڑے بڑے معرکے سر کر رکھے ہیں اورپانی پت کی لڑائیاں لڑی ہیں ہمیں فزکس سے دلچسپی ہے نہ پرویز صاحب سے ، اس لئے ان کی گراں قدر خدمات سے کم ہی واقف ہیں اور اپنی کم علمی کا اعتراف بھی کرتے ہیں لیکن اس کم علمی کے ساتھ یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ انہوں نے فزکس میں سرکھپارکھا ہے ،ماہر بنے ہوں گے، جوئے شیر نکال رکھی ہوگی مگر وہ اپنی جولانیوں سے تاریخ ،ادب اور فلسفے کو تو بخشیں ۔ ان کے لیکچر کا یہ حصہ سن کر مجھے زیادہ حیرت نہیں ہوئی کیوںکہ کراچی کے ’’بھائی‘‘ بھی کی اس طرح کی گفتگوسنتے رہے ہیںاب اگر اسلام آباد کے ’’بھائی‘‘ نے بھاشن جھاڑدیا تو کچھ انہونا نہیں کیالیکن مجھے ان کی نظریاتی وسعت پر حیرت ضرور ہوئی سقوط پاکستان سقوط نظریہ پاکستان ہر گز نہ تھا،ایسا ہوتا تو آج بھارت میں پاکستان زندہ باد کے نعرے نہ لگ رہے ہوتے کشمیر کے مسلمان پاکستان کے لئے نہ تڑپ رہے ہوتے ،آج بھارت میں گئو کش دل(گایوں کے حفاظتی دستے) مسلمانوں کا ٹفن کھول کھول کر چیک کرتے ہیں کہ ’’مسلا‘‘ بریانی میں گائے کی بوٹیاں نہ لے جا رہا ہو لیکن مسلمانوں کو کہیں بھی تحفظ نہیں انہیں بھارتی آئین تحفظ دے رہا ہے نہ وہاں کی متعصب سرکار،مودی سرکار کا متنازعہ شہرئت کا بل نظریہ پاکستان ہی کی تو تشریح ہے کہ اس خطے کے مسلمان ایک طرف ہو جائیں او ر ہندو آکر ’’ہندواستھان‘‘ سے جڑ جائیں ،یہ بل تو بنا ہی ہندوؤں کے لئے ہے باقی پانچ قومیں خطے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ان کا نام تو بس خانہ پری کے لئے لکھ دیا گیا ہے۔ یہ چھوڑیں کسی براہمن کے گھر کے باورچی خانے میں چوکی پر ہی بیٹھ کر فوٹو سیشن کروادیں ،پاکستان نہ بھی بنتا توبھی ہندو اور مسلمان دوالگ قومیں ہی رہتیںوہ ایک برتن میں پڑے تیل اور پانی کی طرح تھے جو اس وقت ایک ہوئے نہ آج ، آج بھی سمجھوتہ ایکسپریس سے واہگہ پار کریں تو پہلے ہی اسٹیشن پر انہیں’’ مسلم پانی اور ہندو پانی ‘‘کی آوازیں لگاتے دیہاڑی دار ملیں گے۔ جہاں مسلمانوں کے لئے پانی کا گلاس الگ اور ہندؤں کے لئے الگ ہوتا ہے،پرویز ہود بھائی کی کنفیوژن انہیں کبھی فزکس کے میدان سے فلسفے کے صحرامیں بھٹکاتی ہے اور کبھی منطق کے پہاڑوں پر چڑھا دیتی ہے یہ کبھی تاریخ کے میدان میں جا پہنچتے ہیں اور کبھی تشکیک کی جھاڑیوں سے دامن چھڑاتے ملتے ہیں ،بہتر نہیں کہ پرویز بھائی پہلے اپنی کنفیوژن دور کرلیں یا پھر جو سیکھا ہے وہی سکھانے پر اکتفا کریں۔