انتخابات کا دور دورہ ہے ہر سیاستدان بساط بھر اس کوشش میں ہے کہ جس جماعت سے اس کا تعلق ہے وہ اسے اپنا لے اور انتخابی ٹکٹ جاری کر دے۔ایک بڑی تعداد ایسے سیاستدانوں کی ہے جو اس بات پر "جیہڑا جتیّ اودھے نال" کے فارمولے پر یقین رکھتے ہیں اس لئے ہر موسم میں انکے لئے نئی جماعت ضروری ہے کیونکہ ملکی تاریخ میں شاذونادر ہی ہوا ہے کہ حکومت سے جانے والی جماعت اگلی ٹرم حاصل کر پائے۔حالیہ سیاسی تاریخ میں ایک دو تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں کہ ایک توسندھ اور پنجاب میں صوبائی حکومتیں انہی جماعتوں کو نصیب ہوئیں جن کی حکومت تھی دوسرا نوے کی دہائی میں ہر دو تین سال بعد حکومت رخصت کر دی جاتی تھی اور پانچ حکومتیں اپنی مدت پوری نہیں کر پائیں۔ 2002 ء کے انتخابات سے دیکھیں تو یہ تیسری مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتیں ہیں جنہوں نے پانچ سال مکمل حکومت کی ہے۔سیاستدانوں کی زندگی کے سب سے مشکل دن انتخابات کے دو یا تین ماہ ہوتے ہیں جب انہیں پارٹی ٹکٹ سے لیکر عوامی حمایت تک کے سفر میںکیا کیا مشکلات نہیں اٹھانی پڑتیں۔ اب تو آزاد الیکٹرانک میڈیا اور اس سے بھی زیادہ آزاد ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے اور اسکے ثمرات ہر جگہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اسکو عوامی شعور کہیں یا ایک نیا ٹرینڈ لیکن اب یہ چل نکلا ہے اورگلی محلے میں سیاستدانوں کو عوامی احتساب کا سامنا ہے۔پہلے تقریباً تمام سیاستدان یہ نعرے لگاتے تھے کہ ہمیں عوام نے ووٹ دیا ہے وہی ہمارا احتساب کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ نیب، سپریم کورٹ یا دوسری عدالتیں ہمیں اقتدار سے کیوں نکال رہی ہیں۔ اب عوام پوچھ رہے ہیں تو پھر چیخیں نکل رہی ہیں۔ کہیں سردار لغاری کو غصہ آ رہا ہے کہ سردار سے کوئی ایسے بات کی جاتی ہے تو کہیں سائیں مراد علی شاہ فرماتے ہیں کہ میرے ڈرائنگ روم کے دروازے پر آ کر کیوں سوال پوچھا۔لوگوں کو اب سمجھ آنی شروع ہوئی ہے کہ یہی موقع ہے جب ان سیاستدانوں کی جوابدہی کی جا سکتی ہے۔ بقول ایک انگلش فلاسفر سیاستدان کی تعریف کچھ یوں ہے، One who shakes your hand before elections and your confidence thereafter.(وہ شخص جو انتخاب سے پہلے ہاتھ ملائے اور بعد میں ہاتھ دکھائے) اس بد اعتمادی میں عوام سے زیادہ خود سیاستدانوں کا قصور ہے۔ انتخاب کے وقت وہ آسمان سے چاند تارے توڑ لانے کی بات کرتے ہیں اور اسکے بعد اپنے حلقے کے لوگوں کو پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں۔انتخابات میں یہ وہاں بھی پل بنانے کا وعدہ کر لیتے ہیں جہاں دریا تو کیا نہر بھی نہیں ہوتی۔ سابق حکومت کے وفاقی وزیر رانا افضل کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ۔ انہوں نے اپنے حلقے کے ایک علاقے میں کارنر میٹنگ رکھی تو وہاں نوجوانوں نے انہیں گھیر لیا۔سوال کرنے پر انہوں نے کہا کہ آپ تو کبھی مجھے ملنے ہی نہیں آئے جس پر انہوں نے بتایا کہ وہ کس وقت انہیں کہاں کہاں ملنے آئے اور انہوں نے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ دوسری وجہ بقول امریکی لیجنڈ سفارتکار ہنری کیسنجر یہ ہے کہ کوئی اور نہیں بلکہ نوّے فیصد سیاستدان کی ساکھ صرف دس فیصد خراب کر دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں سیاستدانوں کے بارے میں ایک جیسی آراء پائی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں جو سب سے بڑی خرابی ہے وہ منظم سیاسی جماعتوں کا نہ ہونا ہے۔ کوئی سیاسی قائد نہیں چاہتا کہ وہ ایک ایسی سیاسی جماعت بنائے جس میں درجہ بدرجہ ایک تنظیم ہو۔اسکے انتخابات ہوں اور الیکشن کے ذریعے جماعت کی قیادت چنی جائے۔اگر سیاسی جماعتوں کا جمہوریت پر اعتقاد ہوتا اور خلائی مخلوق کے ترلے کر کے یا سہارا لیکر حکومت حاصل کرنے کی عادت نہ ہوتی تو وہ جمہوریت کی بنیاد سیاسی جماعتوں کو مضبوط بناتے۔دنیا بھر کی جمہوریتوں کا حوالہ دینے والے سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور تنظیم سازی کے معاملے پر انکے نقش قدم پر چلنے کو تیار نہیں ہیں۔ جمہوریت کے لئے اصل سرمایہ تو کارکن ہی ہیں جو نا صرف سیاسی فکر کو آگے بڑھانے میں مدد گار ہوتے ہیں بلکہ کسی غیر جمہوری صورتحال میںایک مزاحمتی فورس کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اگر ہم سترّ کی دہائی پر نظر ڈالیں تو پیپلز پارٹی کی تنظیم سازی بہت آئیڈیل نہیں تھی لیکن پھر بھی ایک موئثر قوت کے طور پر کام کر رہی تھی۔ انکے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی نہیں بلکہ مقامی عہدیدار پولیس اور دوسرے محکموں کے ہاتھوں ہونے والی عوام کے ساتھ زیادتی کا تدارک کرنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔تحصیل کی سطح پرسٹڈی سرکل موجود تھے جہاں کارکنان جمہوریت، سوشلزم اور پیپلز پارٹی کے نظریے کے بارے میں آگاہی حاصل کرتے تھے ۔ انکے درمیان ملکی اور بین الاقوامی مسائل پر بحث ہوتی تھی۔ اس لئے آج بھی آپ کسی سترّ کی دہائی کے ورکر سے بات کریں تو اسکی اپروچ اور سوچ کافی روشن نظر آئے گی اسکی آگاہی سطحی قطعا ً نہیں ہوتی تھی۔ آج اگر ملک کی بڑی جماعتوں کے کارکنوں اور عہدیداروں کا ایک نیٹ ورک گراس روٹس سطح پر موجود ہوتا تو انہیں ٹکٹوں کی تقسیم کے لئے اس قسم کے مسائل کا سامنا نہ ہوتا کہ: اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش اس سے لوگوں میں بھی نظم آتا جو آگے چل کر ایک بہتر معاشرے کی تشکیل میں مدد گار ہوتا۔ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم نے ہر عہدے کے ساتھ کچھ فوائد منسلک کر لئے ہیں اس لئے سیاسی، صحافتی،تاجر، کھیلوں کی غرضیکہ کوئی بھی تنظیم ہو ہمیں ایک دو یا کئی جگہوں پر اس سے بھی زیادہ متوازی تنظیمیں نظر آتی ہیں۔یہ باہم دست و گریباں رہتی ہیںجس کا نتیجہ یہ ہے کہ انفرادی فائدے تو کچھ عہدیدار اٹھا لیتے ہیں لیکن کسی کمیونٹی کی اجتماعی بہتری کے لئے کچھ نہیں ہو پاتا۔سب سے شرمناک صورتحال اس سلسلہ میں آپ کو بیرون ملک دیکھنے کو ملتی ہے جہاں پر سیاسی جماعتوں کے ونگ کئی حصوں میں تقسیم ہیں اور اکثر انکے درمیان لفظوں کی جنگ نہیں بلکہ ہاتھا پائی سننے کو ملتی ہے۔ جمہوریت اور ملک کے لئے بہترین راستہ انفرادی اثرو رسوخ سے آزادمنظم سیاسی جماعتیں ہی ہیں۔