اگر آپ سوشل میڈیا کا مستقل استعمال کرتے ہیں تو اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے وہاں بنیادی طور پر دو چار طرح کی مہمات ہی سر کرنے کی کوششیں ہورہی ہوتی ہیں۔ پہلی نون لیگ کی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والی مہم جو آج کل ذرا ٹھنڈی پڑی ہے کیونکہ نئی حکومت کو پہلے ہنی مون پیریڈ تک مکمل چھوٹ دینے اور پھر ’’کم از کم ایک سال تو موقع دیجئے‘‘ والی رعایت کا مرحلہ درپیش ہے۔ دوسری مہم پی ٹی آئی کی ’’نیا پاکستان‘‘ مہم ہے جس کے لئے وہ اپوزیشن والے دور سے نکل کر اب ’’ھذا من فضل ربی‘‘ ٹائپ کی حکومت انجوائے کر رہی ہے۔ تیسری مہم ’’دین کی محنت‘‘ والوں کی ہے جو کئی جہتوں میں بٹی ہوئی ہے۔ چوتھی مہم لوگوں کی ذاتی سرگرمیوں کی تفصیلات شیئر کرنے کی صورت ہوتی ہے جس میں بچوں کی پیدائش سے لے کر اموات تک اور تعلیم سے لے کر کار و بار تک سب کچھ شامل ہے۔ ممکن ہے آپ سوچ رہے ہوں، جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی سمیت اور بھی تو بہت سی سیاسی جماعتیں ہیں جن کے اپنے اپنے ایجنڈے اور اپنے کارکن ہیں۔ ان سب کا ذکر کیسے گول کردیا گیا ؟ کیا یہ سیاسی و دینی جماعتیں اور ان سے وابستہ افراد سوشل میڈیا پر نہیں پائے جاتے ؟ نہیں صاحب ! ہم ان کی موجودگی کا انکار ہرگز نہیں کر رہے۔ بس دلچسپ امر یہ ہے کہ زمانہ ایسا آگیا کہ خود ان جماعتوں کے کارکن و ہمدرد بھی پی ٹی آئی اور نون لیگ کے ایجنڈوں کے اسیر ہوچکے۔ جماعت اسلامی جیسی منظم جماعت کے کارکن بھی سید مودودی کو بھول کر یا تو عمران خان کی حکومت کے بلنڈرز اچھال اچھال کر دن گزار رہے ہوتے ہیں یا نون لیگ کے دور حکومت کو یاد کرکے پی ٹی آئی کے حامیوں کو میگا پروجیکٹس کا آئینہ دکھانے میں مشغول نظر آتے ہیں۔ پیش کرنے کے لئے کوئی ’’سراجی ٹوٹکا‘‘ ان کے ہاتھ میں نظر نہیں آتا۔ ممکن ہے اس میں کچھ کمال نون لیگ اور پی ٹی آئی کا بھی ہو کہ قومی سیاست کا پورا کھیل یہ دونوں جماعتیں اپنے قبضے میں کئے بیٹھی ہیں لیکن کچھ کم نا اہلی سراج لالہ اور ان کی شوری کی بھی نہیں کہ اپنے ورکرز کو مشغول رکھنے کی خاطر بھی ان کے پاس کوئی لفظوں کی جمع تفریق نہیں۔ یوں لگتا ہے منصورہ کے گیٹ پر صرف چوکیدار رہ گیا ہے، قیادت ساری کہیں تعطیلات منانے چلے گئی ہے۔ جماعت اسلامی پر بھی کبھی سناٹے کا ایسا دور آئے گا، کس نے سوچا تھا ؟ جماعت اسلامی کے مقابلے میں جے یو آئی پھر بھی کچھ ہلچل کرتی نظر آرہی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا غصہ تاحال ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ پہلے وہ خالص سیاسی ایشوز اپنے غصے کے اظہار کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ مگر جب دیکھا کہ نون لیگ سمیت سب ٹھنڈے پڑ رہے ہیں تو وہ سدا بہار مذہبی ایشوز کے ساتھ میدان میں آگئے۔ اب جلسہ تحفظ ختم نبوت کا ہوتا ہے اور تقریر نوے فیصد انتخابی نتائج کے گرد ہی گھوم رہی ہوتی ہے۔ لیکن کیا یہ غلط ہے ؟ نہیں ! ایک سیاسی لیڈر سے ایسی ہی تیزی و طراری کی امید رکھنی چاہئے کہ جب اپنے حریف کو ٹف ٹائم دینا اس کی ضرورت ہو تو پھر اس ضرورت کی تکمیل کے لئے موقع بنانے کا فن اسے آنا چاہئے۔ کون انکار کر سکتا ہے کہ اس فن میں ان سے زیادہ طاق سیاسی میدانوں میں کوئی نہیں۔ میں نے ان کے درویش صفت والد مولانا مفتی محمود کی ایک ایسی تقریر بھی سن رکھی ہے جو انہوں نے بھٹو دور میں گوجرانوالہ میں فرمائی ہے۔ الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ وہ اس تقریر کا آغاز کچھ یوں فرماتے ہیں۔ ’’جناب صدر جلسہ و معزز حاضرین ! چونکہ مسٹر بھٹو نے پورے ملک میں دفعہ 144 نافذ کرکے سیاسی اجتماعات پر پابندی لگادی ہے تو اس جلسے کی انتظامیہ کو ’’سیرت کانفرنس‘‘ کا سہارا لینا پڑا۔ اور حکومت نے اس کی اجازت دے بھی دی کیونکہ مسٹر بھٹو کا خیال ہے کہ یہ سیاسی نہیں مذہبی اجتماع ہے۔ لیکن مسٹر بھٹو یہ نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے سیاست کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ آج میری تقریر سیرت النبی پر ہی ہوگی لیکن ہم سیرت النبی کی روشنی میں مسٹر بھٹو کی پالیسیوں کا جائزہ لیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر جو مفتی صاحب شروع ہوئے ہیں تو پھر حیات محمد خان شیرپاؤ کے قتل سے لے کر نواب اکبر خان بگٹی پر غداری کے الزامات تک ہر چیز کا جائزہ مفتی صاحب نے سیرت النبی کی ہی روشنی میں ڈیڑھ گھنٹے تک لیا ہے، اور بتا نہیں سکتا کہ کیا خوب لیا۔ سو ان دنوں مولانا فضل الرحمن بھی عین اپنے والد کی تاریخ دہراتے ہوئے شہر شہر، قریہ قریہ ختم نبوت کانفرنسز منعقد کرکے عقیدہ ختم نبوت پر ڈالے گئے ڈاکے کے تناظر میں ووٹ کی چوری کا مقدمہ پیش کر رہے ہیں۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ ایک جلسے سے دوسرے جلسے کے مابین فاصلہ لمبا رکھا جاتا ہے تاکہ یہ سیریز مہینوں پر محیط ہوسکے۔ چنانچہ ان کے دو جلسوں کے بیچ کے وقفے میں ان کے کارکن کے پاس بھی سوشل میڈیا پر کرنے کے لئے اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ یا تو نواز شریف کا اچھا دور یاد کرلیں اور یا پھر پی ٹی آئی حکومت کے شگوفوں کا لطف لیں۔ رہ گئی پیپلز پارٹی تو اس کے ورکرز تاحال اپنی ڈی پیز میں علن فقیر کی تصویریں سجائے بیٹھے ہیں کیونکہ پنجاب میں تو 2018ء کے الیکشن میں بھٹو کی وہ ناکامی کنفرم ہوگئی ہے جو 2013ء کے الیکشن میں واقع ہوئی تھی جبکہ سندھ میں مشکوک ہواؤں کا راج ہے۔ جو سب پر بھاری ہے وہ سمجھ نہیں پا رہا کہ جس کشتی کا اسے سامنا ہے یہ اصلی ہے یا نورا ؟ اگر وہ اصلی سمجھ کر اینٹ سے اینٹ بجانے والے موڈ میں چلے جائیں اور کشتی نورا نکل آئے تو جتنی اینٹیں اب تک جوڑ چکے وہ سب بکھری نظر آئیں۔ اور اگر نورا سمجھ کر چپ رہتے ہیں تو اپنی اینٹ سے اینٹ بج سکتی ہے۔ اس پوری صورتحال میں سوشل میڈیا پر مزے اس غیر سیاسی مذہبی حلقے کے ہیں جو یہ سمجھتا ہے کہ دین کی ساری برکتیں اسی کی اس گالم گلوچ سے ہیں جو وہ فساق و فجار سے لے کر کفار تک سبھی کو دیتا ہے۔ یقین جانئے پاکستان میں سیل کرنے کے لئے مذہب سے زیادہ موزوں کوئی چیز نہیں۔ کمال یہ ہے کہ ڈیمانڈ بھی موجود، سپلائی کا بھی سال کے بارہ مہینے کوئی ایشو نہیں اور سب سے بڑی عیاشی یہ کہ خریدنا کہیں سے نہیں پڑتا لیکن سیل ہرجگہ ہوجاتا ہے۔