گذشتہ چند دنوں سے سندھ کے سوشل میڈیا میں ایک شور برپا رہا ہے، ایسا شور اس وقت پیدا ہوتا ہے جب غم اور غصہ آپس میں مل جائیں۔ یہ شور اس وقت پیدا ہوا جب کراچی میں جی ایم سید کی قدیم رہائش گاہ ’’حیدر منزل‘‘ کی جگہ پر اپارٹمنٹ قائم کرنے کے لیے کرینوں کی تصاویر فیس بک پر بار بار اپ لوڈ ہونے لگیں اور جئے سندھ تحریک کے کارکنوں میں نے شدید احتجاج کیا کہ ان کے قائد کی اس تاریخی عمارت کو نہ گرایا جائے۔ جی ایم سید کی وہ جگہ خاندانی وراثت کے طور پر ان کے پوتے اور سندھ یونائٹیڈ پارٹی (ایس یو پی) کے سربراہ جلال محمود شاہ کے حصے میں آئی ہے۔ جلال محمود شاہ اپنے دادا کی طرح انتخابی سیاست کے خلاف نہیں ہیں۔ وہ جی ایم سید کی طرح سندھو دیش کی بات نہیں کرتے۔ وہ پاکستان کے فریم ورک میں رہ کر پارلیمانی سیاست کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ سندھ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بھی رہ چکے ہیں مگر گذشتہ کئی انتخابات میں وہ جامشورو کے سردار ملک اسد سکندر سے مسلسل ہار رہے ہیں۔ وہ اپنے دادا کی شہرت کو کیش بھی کراتے ہیں اور ان کی انتہاپسندی سے دور رہتے ہیں۔ جلال محمود شاہ کا تعلق سندھ کے سیاسی حصے سے ہے جنہوں نے سیاست میں گنوایا کم اور کمایا زیادہ ہے۔ وہ جذباتی شخص نہیں۔ وہ ایک عملیت پسند سیاستدان ہیں۔ وہ اتنے سادہ اور جذباتی نہیں کہ اپنے دادا کی اس رہائش گاہ کو تاریخی ورثہ قرار دیں جو قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار کے قریب کراچی کے حوالے سے پرائم لوکیشن پر ہے۔ اس جگہ اب فلیٹوں کا جنگل ہے جس جگہ کبھی کراچی کی شہری سرحد ختم ہوجاتی تھی۔ اس پلاٹ کی بہت بڑی ڈیمانڈ ہے مگر اس بات کو جی ایم سید کے جذباتی پیروکار سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ویسے بھی جی ایم سید کی ’’حیدر منزل ‘‘ کو تاریخی ورثہ قرار دینے سے انہیں کون سا نقصان ہوتا ہے؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ اب سندھ میں جئے سندھ کی تحریک اس قدر طاقتور نہیں جس قدر وہ ستر اور اسی کی دہائی میں تھی۔ اس وقت سندھ میں ایک طرف ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی تھی اور دوسری طرف جی ایم سید کی جئے سندھ تحریک۔ ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہنواز بھٹو کے جی ایم سید کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے مگر ذوالفقار علی بھٹو سیاسی طور پر اس شخص کے سب سے بڑے مخالف تھے جنہیں وہ ’’چچا‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتے تھے۔ جی ایم سید نے عوامی سطح پر کام نہیں کیا۔ وہ سندھ کے مڈل کلاس اور خاص طور پر ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کے علاوہ طالب علموں میں مقبولیت رکھتے تھے۔ اس کا اہم سبب یہ تھا کہ جی ایم سید بنیادی طور ایک مفکر ٹائپ سیاستدان تھے۔ انہوں نے خاندانی دشمنی کے باعث روایتی تعلیم حاصل نہیں کی۔ وہ گھر میںرہے۔ گھر میں پڑھے اور جب جوان ہوئے تب سیاست کی شاہراہ پر قدم رکھا ۔ وہ مسلم لیگ سندھ کے مقبول رہنما تھے۔ انہوں نے خود اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ انہیں قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ عقیدت بھی تھی اور عشق بھی تھا۔ اس لیے جب اسمبلی میں بیٹھے انہیں اطلاع ملی کہ قائد اعظم پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے تو وہ اسمبلی میں روتے روتے بیہوش ہوگئے تھے۔ جی ایم سید ایک محقق اور صوفی ازم کو پسند کرنے والے شخص تھے مگر ان کے قریب رہنے والوں کا خیال ہے کہ وہ ذاتی طور پر بہت انا پرست اور جذباتی انسان تھے۔ اس لیے پاکستان بننے کے بعد ان کے مسلم لیگ سے سیٹوں کے معاملے پر اختلافات ہوگئے اور وہ انہوں نے شیخ مجیب الرحمان سے متاثر ہوکر سندھو دیش کی تحریک شروع کی اور اس ملک کے خلاف بولنے اور لکھنے لگے جس ملک کے قیام میں ان کا بہت بڑا کردار تھا۔ جی ایم سید ایک الجھی ہوئی شخصیت کے مالک تھے۔ ایک طرف وہ سید تھے اور انہیں سید ہونے پر ناز بھی تھا مگر انہوں نے ایسی کتابیں لکھی جن کی وجہ سے وہ مذہبی حلقوں کی طرف سے سخت تنقید کا نشانہ بھی بنے۔ ان کی سب سے متنازعہ کتاب ’’جیسے میں نے دیکھا ‘‘ ہے۔ مگر انہوں نے صرف سیاست کے موضوع پر نہیں لکھا بلکہ انہوں نے تاریخ کو نئے زاویے سے پیش کیا۔ انہوں نے شاہ لطیف کی شاعری کو قومی رنگ میں پیش کیا۔ انہوں نے ان سب شخصیات پر خاکے لکھے جن کو انہوں نے قریب سے دیکھا تھا۔جی ایم سید صرف ایک سیاستدان اور ایک عالم نہ تھے مگر انہیں حسن اور عشق سے بڑا لگاؤ تھا۔ اس لیے انہوں نے عشق اور محبت کے موضوع پر ایک کتاب ’’دیار ِدل ِداستان محبت‘‘ بھی لکھی جس میں انہوں نے اپنے معاشقوں کا بھی ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’عشق سیڑھی ہے جس پر انسان اوپر چڑھتا رہتا ہے‘‘ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ انہوں نے جو عشق کیا وہ ناکام رہا مگر عشق کی ناکامی نے انہیں وطن سے محبت کا درس دیا۔ جی ایم سید عشق کے موضوع پر کھل کر بولتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کے عشق کا اسٹائل ’’لکنگ لکنگ بٹ ناٹ ٹچنگ‘‘ والا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ جی ایم سید پر کبھی کسی اسکینڈل کا الزام نہیں لگا۔ انہوں نے اپنے جتنے بھی معاشقے کیے ان کے بارے میں انہوں نے خود بتایا ان سلسلے میں ان پر کوئی گواہ نہیں رہا۔جی ایم سید اپنے تمام تر خیالات اور اعمال میں مجموعی طور پر ایک دلچسپ شخص تھے۔ وہ اہنسا وادی کہلاتے تھے اور تشدد کے خلاف تھے مگر ان کی تحریک میں تشدد کا عنصر بھرپور انداز سے موجود تھا۔ وہ ایک عالم تھے مگر جئے سندھ تحریک میں ایسے افراد کی تعداد ہمیشہ زیادہ رہی جو کتاب سے زیادہ کلاشنکوف کو پسند کرتے تھے۔ جی ایم سید کے نظریات سے کوئی اختلاف رکھ سکتا ہے اور جی ایم سید کے سیاسی مخالفین کی سندھ میں کوئی کمی بھی نہیں مگر اس کے باوجود ان کے سیاسی دشمن بھی اس سچائی کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے سیاست میں ایک کوڑی کی بھی کرپشن نہیں کی۔ جی ایم سید ان سیاستدانوں میں سے تھے جنہوں نے سیاست میں اپنی خاندانی ملکیت بڑھانے کے بجائے لٹائی۔ جی ایم سید نے منظم طور پر تحریک نہیں چلائی مگر ان کی قوم پرست تحریک نے سندھ میں مخصوص ماحول پیدا کیا۔ جی ایم سید کو گذرے دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے مگر سندھ کے جو نوجوان ان کی شخصیت اور ان کے افکار سے متاثر ہوئے وہ آج بھی سفید بالوں میں ان سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ سب کسی پلیٹ فارم پر منظم نہیں ہیں مگر سوشل میڈیا پر اپنے دل کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اس بار ان کا دل جی ایم سید کی خاندانی رہائش گاہ ’’حیدر منزل‘‘ کے ساتھ ٹوٹا ہوا ہے۔ وہ سب شور مچا رہے ہیں کہ اس عمارت کو تاریخی ورثہ قرار دیا جائے مگر ہمارے ملک میں یہ روایت موجود ہی نہیں۔ ان جذباتی نوجوانوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ ہم قومی طور پر تاریخی ورثوں کی حفاظت کرنے والی روایت کے راہی نہیں ہیں۔ہم تاریخ کے سائے سے بہت دور رہتے ہیں۔ ہم علم اور ادب کی اہمیت کو فراموش کر چکے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کراچی کے مشہور بک اسٹورز آج کپڑوں اور جوتوں کے دکانوں میں تبدیل نہ ہوتے۔ اس دور پر علم اور تاریخ کا اثر نہیں ہے۔ یہ دور دولت کا دیوانہ ہے۔ اس دور کو کیا پڑی ہے کہ وہ اس بارے میں سوچے کہ ’’جی ایم سید کون تھے؟‘‘ اور انہوں نے ’’دیار دل داستان محبت‘‘ جیسی کتاب کیوں لکھی؟کیا سیاست اور محبت کے درمیاں کوئی تعلق ہو سکتا ہے؟اس سوال کا جواب ہر کوئی اپنے مزاج کے مطابق دے گا۔ مگر اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ جی ایم سید کچھ سیاست اور کچھ محبت تھے۔ سیاست اور محبت کے سنگم جیسے افراد اب ہم میں کہاں ہیں؟