حضرت علیؓ کا قول ہے کہ سنگین ترین گناہ وہ ہے جسے گناہ گار معمولی جانے۔ میں سوچنے لگا کہ اس گناہ کا کیا درجہ ہو گا جسے گناہ گار معمولی بھی نہ جانے بلکہ بعض اوقات یہ سمجھے کہ اسے اس کا ثواب ملے گا۔ کبھی ہم نے سوچا کہ ہم ایسے گناہ کر رہے ہیں جسے کرتے ہوئے ہم ان کی سنگینی محسوس ہی نہیں کرتے‘ بلکہ بعض اوقات اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ہمارا عمل ہی حق کا راستہ ہے۔ میں نے ایک بار اسلام کے اس تصور کی وضاحت کی تھی جسے آج کل کبھی سیاسی اسلام اور کبھی اسلام ازم کے نام یاد کیا جاتا ہے اور ہم اسے تحریک اسلامی کا نام دے دیتے ہیں۔ میں نے اس کی چارعلامتیں گنواتے ہوئے یہ عرض کیا تھا کہ اس کی ایک شرط ہے کہ نہ صرف یہ کہ دین کو دنیا سے الگ نہ سمجھا جائے بلکہ سیاست کو بھی دنیا کا وہ حصہ سمجھا جائے جس پر آخرت میں بخشش کا دارو مدار ہے۔ہم اپنی زندگی میں سیاست کا جو کام کرتے ہیں اس کے بارے میں یہ نہ سوچیں کہ یہ ان معنوں میں سیکولر ہے کہ ہماری بخشش اور نجات کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ آخرت میں اس پر جواب دینا دہی ہو گی اور ہماری پکڑ بھی۔ اس معاملے میں ایک زمانے میں مجھ میں اتنی تلخی آ گئی تھی کہ میں پوچھا کرتا تھا کہ آیا ان علماء سے قیامت کے دن اس بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہ ہو گی جنہوں نے امت کی پیٹھ میں چھری گھونپی اور مملکت قرار داد کے قیام کے اجتماعی فیصلے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ پھر میں نے اپنی اس رائے میں قدرے نرمی پیدا کر لی تھی۔ نرمی سے مطلب کسی طرح کا رجوع نہیں‘ بلکہ اس کے اظہار میں احتیاط کرنا شروع کر دی تھی کیونکہ اس کی زد بڑے بڑے پارسا اور نیک نام افراد بھی آ رہے تھے۔ یہ سب مجھے اس لیے یاد آ رہا ہے کہ ہمیں دن رات اپنے قلم اور اپنی زبان سے اور اپنے عمل سے ایسی باتوں کا اظہار کرنا پڑتا ہے جنہیں ہم سیاسی سمجھ کر اس لیے اہمیت نہیں دیتے کہ ان سے عذاب و ثواب کا کوئی تعلق ہے۔ صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ بعض اوقات مرے سیاسی نظریات مرے مذہبی نظریات پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں ایک سٹڈی ہوئی ہے۔ ان دنوں ٹرمپ کے عہد میں خاص طور پر اس پر غور کیا جا رہا ہے کہ پہلے اگر مذہب مرے سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہو رہا تھا تو اب سیاست مرے مذہبی عقائد اور مری مذہبی وابستگی کا تعین کرتی ہے۔ میں ری پبلکن ہوں تو لامحالہ میں آہستہ آہستہ مذہب کی طرف کھینچتا جائوں گا اور امریکی معیار کے مطابق مرے ہفتہ وار چرچ جانے میں بھی بہتری آئے گی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں اپنے کلیسا کے انتخاب میں (اپنے حوالے سے کہہ لیجیے کہ اپنے فرقے کے انتخاب میں)بھی اس بات کا خیال رکھوں گا کہ کون سا چرچ کس کی حمایت کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پارٹی میں شمولیت سے پہلے مرا بھی مذہبی رویہ مختلف ہو۔ اس طرح اگر میں ڈیمو کریٹ ہوں تو مجھ پر مذہب کا اثر کم ہو گا اتوار سے اتوار گرجے جانا بھی ضرور ی نہیں سمجھوں گا۔ مذہبی اجتماعات میں بھی اگر کوئی کلچر شو ہو گا تو ٹھیک وگرنہ اس سے دور رہوں گا۔ پہلے ایسا نہیں ہوا کرتا تھا سیاست مذہب پر مقدم نہیں ہوتی تھی۔ یہ تبدیلی کیوں آئی۔ امریکہ والے اس کا تجزیہ اور مطالعہ کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ابھی یہ صورت حال پیدا نہیں ہوئی۔ شاید اس لیے کہ ابھی ہمارے ہاں کسی ٹرمپ یا مودی کی پیدائش نہیں ہوئی۔ خدا ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ مطلب میرا یہ ہے کہ سیاست میں کی جانے والی غلطیوں کو پہلے تو ہم گناہ سمجھتے ہی نہیں‘ پھر اس کی تہذیبی اہمیت سے واقف نہیں‘ چند دن پہلے میں نے ایک قومی لیڈر کے حوالے سے اپنے نرم گوشے کا حوالہ دیتے ہوئے عرض کیا تھا کہ قدرت نے انہیں تاریخ کے خاص موڑ پر پیدا کیا ہے اور ان کے ذمہ کچھ کام ہیں۔ میری خواہش ہے کہ یہ الوہی مشن پایہ تکمیل تک پہنچے۔ میرے وطن کے لیے میری نظر میں اس کی اہمیت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی دوسرے کی نظر میں یہ بات غلط ہو‘ مگر مجھے جس بات پر اصرار ہے‘ دعا یہ ہے کہ جب تک ہم اپنے سیاسی فیصلوں اور اقدامات کو اس نظر سے نہیں دیکھیں گے‘ تب تک نہ ہمارا مقدر بدلے گا نہ ملک سنبھلے گا۔ ہماری ذاتی زندگیاں ہو سکتا ہے۔ ذرا چمک دار ہو جائیں‘ مگر وہ بھی عارضی ہو گا۔ اس پر بھی حضرت علیؓ کا ایک قول یاد آیا کہ دنیا سانپ کی مانند ہے جو چھونے میں بڑا نرم و ملائم ہوتا ہے۔ یہ نرمی اور ملائمت کتنی زہرناک ہے‘ اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پاتا۔ ہم سانپوں سے کھیل رہے ہیں‘ ہم نے آستینوں میں سانپ پال رکھے ہیں اور نہیں جانتے کہ کب ان کا زہرہماری رگ و پے میں سرایت کر جائے۔ دنیا کی خاطر ہم دین کو نظر انداز کر رہے ہیں اور اس نظریے کے مطابق سیاست بھی دین ہے اور میری نجات اخروی کا دارومدار ان کاموں پر بھی ہے جو ہم سیاست سیاست میں کرتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں ہر کوئی بڑی درد مندی سے یہ کہتا ہے کہ ہمارا مستقبل ہمارے ہاتھ میں ہے اور آنے والے انتخابات ہمارے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ پھر بھی اس صورت حال کے بارے میں اتنا سنجیدہ نہیں ہوتے جتنا ایک مذہبی شخص اس حوالے سے ہوتا کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے‘ اس پر اس کی نجات اخروی کا دارو مدار ہے۔ اس بحث کے دائرے سے باہر نکلتے ہیں تو یہ عرض کرنا ہے کہ یہ مملکت خدا داد لاکھوں دلوں کی دعائوں کا نتیجہ ہے۔ یہاں اس بات کی گنجائش نہیں کہ ہم سیاست کے جال بچھائیں اور یہ سمجھیں کہ یہ سب دنیا داری ہے۔ اس کی کون سی پکڑ ہونا ہے۔ جس طرح اقبال نے کہا تھا کہ خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی‘ اس طرح یہ جان لیا جائے کہ یہ ملک بھی اپنی ساخت میں خاص اجزائے ترکیبی رکھتا ہے۔ اس کے خلاف کی جانے والی کوئی غلطی قابل معافی نہیں ہے۔ ہم تاریخ کے ایک خاص موڑ پر کھڑے ہیں۔ ہر شخص ہی نہیں‘ ہر قومی ادارہ بھی اپنے اپنے انداز میں کام پر جتا ہوا ہے۔ ہر کوئی اسے ملک کے مفاد میں سمجھتا ہے۔ ہو سکتا ہے‘ ان کی سوچ کے تعین میں بعض اداراتی‘ گروہی ‘علاقائی مفادات حارج ہوتے ہوں اور ہم نادانستگی میں ملک کو نقصان پہنچا رہے ہوں۔ اگر ہم سمجھ لیں کہ آخر ہم سے اس کا حساب لیا جائے گا تو ہو سکتا ہے کہ ہمارا نقطہ نظر مختلف ہو۔ میں نے اوپر عرض کیا تھا کہ امریکہ والے اس بات پر پریشان ہیں کہ پارٹی کا انتخاب آپ کے مذہبی رویے اور مسلک پر اثر انداز ہوتا ہے‘ اس طرح ہم نے پاکستان میں دیکھا ہے کہ آپ کی کسی سیاسی گروہ سے وابستگی کے علاوہ کسی ادارے سے وابستگی بھی آپ کے ملکی مفاد کے حوالے سے نظریات کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہے۔ میں فوجی ہوں یا فوج میں رہا ہوں تو مرا ایک مائنڈ سیٹ بن جاتا ہے جو بہت سے قومی معاملات میں میری رائے کا تعین کرتا ہے۔ اگر میں وکیل ہوں تو بہت سے معاملات کو میں ایک اور نظر سے دیکھتا ہوں۔ اہل صحافت کے بارے میں کیا کہوں‘ اگر میں ’’سچ مچ‘‘ صحافی ہوں‘ اپنے ضمیر کے مطابق سوچنا‘ بولنا اور لکھتا ہوں تو بہت سے معاملات کو پرکھنے کے لیے میری اپنی کسوٹی ہو گی۔ شرط یہ ہے کہ میں اسے اپنی نظر سے دیکھوں۔ کسی کی نظر سے نہ جانچوں۔ میری رائے میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ وکیلوں کی رائے ایک ہی مسئلے پر مختلف ہو سکتی ہے‘ مگر وہ ایک دائرے کے اندر ہو گی۔ صحافت کی دنیا میں بھی ایسا ہے۔ اختلاف ہونا اور بات ہے مگر سب حدیں پھلانگ جانا دوسری بات ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کھل کر بات کرو۔ چونکہ میں اہل وطن کے ضمیر‘ باطن اور ان کی تہذیبی اقدار سے مخاطب ہوں۔ میں صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ اس کام کو معمولی نہ سمجھیں۔ ایسا کریں گے تو ہماری معمولی غلطیاں بھی سنگین غلطیاں اور گناہ ہوں گی۔ یہ بات اس لیے اہم ہے کہ یہ ملک بھی سیاسی پراسس سے بنا تھا اور لوگوں نے یہ کام مذہبی جوش و جذبہ سے کیا تھا۔ اس کی ساری اونچ نیچ بھی اسی پراسس کا حصہ ہے۔ چلیے یوں کہہ لیجیے یہ ملک چونکہ دوسرے ملکوں کی طرح عام ملک نہیں ہے۔ اس کی ترکیب بھی خاص ہے اور اس کا قیام بھی خدا کی خاص عنایت ہے‘ اس لیے اس کی خاطر کی جانے والی سیاست بھی خدا کی خوشنودی کے لیے ہے۔ یہاں آخر میں حضرت غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانی ؒکا ایک قول یاد آتا ہے جس میں حافظے کے زورپر لکھ رہا ہوں کہ جس نے دنیا کی خاطر آخرت تلاش کرنا چاہی‘ وہ خسارے میں رہا اور جس نے آخرت کی خاطر دنیا پائی وہ فائدے میں رہا۔ کیا حرج ہے ہم سیاست اس نیت سے کر لیں کہ اس پر ہماری نجات اخروی کا دارومدار ہے۔ انشاء اللہ پاکستان کا مقدر سنور جائے گا۔