سیاست ، اداکاری اور ڈرامے کا عہد قدیم سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جس شخصیت میں یہ تینوں ہنر پائے جاتے ہوں وہ ایک کامیاب سیاست دان تصورکیا جاتاہے۔سیاست دان ہو یا اداکار دونوں کا مقصد ناظرین یا شہریوں کے دلوں میں گھر کرجاناہوتا ہے‘دل اور دماغ پر نقش کر نے والے مکالمے، تیر کی طرح دل میں اتر جانے والے جملے اور جذبات میں ہیجان برپا کردینے والے استعاروں،تشبیہات اورتمثیلات کا مسلسل استعمال کیا جاناتاکہ ناظرین یا شہریوں کا لیڈرشپ کے ساتھ گہرا ذاتی اور سماجی تعلق استوار ہوجائے۔ شہریوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے مختلف علامتوں (سمبلز) کا استعمال بھی سیاستدان تواتر سے کرتے ہیں۔آج کل سیاستدانوں کے پاس عوامی نفسیات کا مطالعہ کرنے والے اور معاشرتی رجحانات میں آنے والے تغیر پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کی ایک چاک وچوبند ٹیم ہوتی ہے جو انہیں حکمت عملی بنا کردیتی ہے کہ وہ رائے عامہ کو اور بالخصوص آبادی کے کسی مخصوص طبقے کو کس طرح متاثر کرکے اس کی حمایت حاصل کرسکتے ہیں۔ایسے ماہرین کی خدمات بھاری معاوضے پر حاصل کی جاتی ہیں۔امریکہ اور مغربی ممالک میں یہ کام باقاعدہ صنعت کا درجہ اختیار کرچکا ہے ۔ پاکستان میں بھی اب یہ رجحان کافی فروغ پاچکا ہے اور کئی ایک ادارے بن چکے ہیں۔ مثال کے طورپر کئی شخصیات اپنے آپ کو مغربی تہذیب اور کلچر کا دلدادہ ثابت کرنے کے لیے کتا اپنے ساتھ رکھتی ہیں یا پھر ڈانس پارٹی کا اہتمام کرتی ہیں۔ پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضے کے بعد ایک غیر ملکی اخبار کودیئے گئے پہلے انٹرویو میں اپنے ساتھ اعلیٰ نسل کا ایک کتا بٹھایا ہوا تھا۔انہوں نے مصطفیٰ کمال اتاترک کو اپنا سیاسی اور سماجی ہیرو قراردیا۔مقصد مغرب کو پیغام دیناتھا کہ مشرف ایک جدید ذہن کا مالک اور قدامت پسندوں سے مختلف ہے۔اس طرح مغربی رائے عامہ اور پالیسی ساز حلقوں میں اپنے لیے نرم گوشہ پیدا کیاگیا۔چنانچہ جلد ہی اہل مغرب مشرف کے جمہوریت پر مارے گئے شب خون کو بھول کر اسے نجات دہندہ قراردینے لگے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم کا نعرہ لگایا۔ لوگ سمجھے کہ وہ ملک میں معاشی مساوات قائم کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ سردار عبدالقیوم خان مرحوم سے منسوب ایک واقعہ بیان کیا جاتاہے کہ انہوں نے بھٹو کے ساتھ سوشلزم پر گفتگو کرنا چاہی تو بھٹو نے ان سے کہا کہ وہ ہرگز سوشلسٹ نہیں ہیں۔ یہ نعرہ لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے لگایاگیا۔ زلفی آف بھٹو میں اسٹینلے والپرٹ نے لکھا ہے کہ بھٹولال شہباز قلندر کے مزار پر جاکر دھمال ڈالتے۔ غریبوں او رعام لوگوں میںگھل مل جاتے۔بھوک اور ننگ سے نڈھال بچوں کو اٹھا لیتے۔اس کے برعکس ذاتی زندگی میں بھٹو ایک نواب تھے جو نکتہ چینی پسند نہ کرتے او رمخالفین کی زندگی دوبھر کردیتے ۔والپرٹ کے مطابق بھٹو ایک انوکھی شخصیت کے مالک تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں سیاستدانوں کی اداکاری کے بعض بڑے بڑے دلچسپ واقعات درج ہیں۔ قدرت اللہ شہا ب لکھتے ہیں کہ وزیراعظم لیاقت علی خان کی کابینہ میں مشتاق گورمانی وزیر بے محکمہ تھے۔ وہ مری میں ایک احتجاجی ہجوم میں پھنس گئے۔ انہوں نے مظاہرین سے مطالبات پوچھے اور جیب سے قرآن کا ایک چھوٹا سا نسخہ نکال کر مظاہرین کے سامنے لہراتے ہوئے کہا: میں اس کتاب کی قسم کھاکر آپ کے مطالبات پورے کرنے کا وعدہ کرتاہوں۔ یہ سنتے ہی ہجوم خوشی خوشی منتشر ہوگیا۔ شہاب لکھتے ہیں کہ میں بے حد متاثر ہوا۔ دوران سفر پوچھا کہ آپ ہر وقت قرآن مجید ساتھ رکھتے ہیں۔ وہ مسکرائے اور کہا کہ یہ سگریٹ کا کیس تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا حال بھی بہت مختلف نہیں تھا۔ انہیں بتایا گیاکہ ڈھاکہ میں کوئی پہنچی ہوئی ہستی پائی جاتی ہیں۔ محترمہ نے بنگلہ دیش کا دورہ رکھ لیا۔ سرکاری مصروفیات کے بعد شہر کے مضافات میں قائم پیر صاحب کے حجرے میں حاضری دی ۔ دیر تک ان سے دعائیں کراتیں رہیں۔ عمر بھران کا ایسا ہی عمل رہا۔ آصف علی زرداری نے باقاعدہ ایک صاحب کوپانچ برس تک ایوان صدر اسلام آباد میں سرکاری مہمان کے طور پر رکھا۔ وہ ہر روز زرداری صاحب کی حکومت بچانے کے لیے چلے کاٹتے۔ زرداری صاحب بکروں کا صدقہ کرتے۔ کہاجاتا ہے کہ تمام عظیم سیاسی لیڈر منجھے ہوئے اداکار یا ایکٹر ہوتے ہیں۔رونلڈ ریگن غالباً امریکہ کے پہلے صدر ہیں جو باقاعدہ تربیت یافتہ اداکار تھے۔سیاست اور اداکاری کے موضوع پر کئی ایک کتابیں بھی لکھی جاچکی ہیں کہ سیاستدان جو کہتے ہیں کیا وہ ان باتوں پر یقین بھی رکھتے ہیں یا محض عوام کا دل جیتنے کے لیے وہ کہانیاں گھڑتے ہیں۔ عمران خان نے بھی پاکستانی سیاست کی ضرورت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالا اور بدلا۔ نیتوں کا حال سوائے اللہ رب العزت کے کوئی نہیں جانتا۔لیکن عمران خان کو قریب سے جاننے والے مانتے ہیں کہ وہ مکمل طور پر مغربی کلچر میں رچی بسی شخصیت کے مالک ہیں۔ اسد عمر کہتے ہیں کہ وہ برطانوی جمہوریت کو دنیا کا سب سے بڑا اور کامیاب نمونہ سمجھتے ہیں۔ پارٹی رہنماؤں نے مشکل سے انہیں قائل کیا کہ وہ جلسوں میں برطانوی جمہوریت کی مثالیں کم دیں کیونکہ عوام مغربی نظام حکومت اور سیاست کو پسند نہیں کرتے۔ بقول عمران خان کے انہوں نے قاضی حسین احمد کے مشورے پر تقریراور گفتگو میں قرآن و حدیث کے حوالے دینے شروع کیے۔ پاکستان میں مزاروں اور خانقاہوں کی کرامتوں پر یقین رکھنے والوں کی بھاری تعدا د پائی جاتی ہے۔ خاص طور پر پنجاب میں زیارات کا مقام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ پچاس فی صد سے زیادہ پنجابی آبادی بریلوی مکتب فکر کی پیروکارہے جو نہ صرف اولیا اللہ اور ان کے مزاروں کے ساتھ جذباتی اور روحانی طور پر وابستہ ہے بلکہ ان کی خاطر جان و مال کی قربانی دینے کو ہر وقت تیاررہتے ہیں۔سندھ میں بھی آبادی کا ایک غالب حصہ صوفی اسلام سے عقیدت رکھتا ہے۔چنانچہ عمران خان کا پاک پتن جانا اور حاضری کے علاوہ چوکھٹ پر بوسہ دینا سیاسی نقطہ نظر سے ایک درست فیصلہ ہے۔انہوں نے ملک کی ایک بہت بڑی آباد ی کو پیغام دیا کہ وہ نہ صرف بزرگوں اور خاص کر اولیاء کا احترام کرتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ گہری عقیدت بھی رکھتے ہیں۔ معلوم نہیںکہ عمران خان عوامی حمایت حاصل کرنے کی خاطر یہ سب کررہے ہیں یا وہ حقیقت میں اس قدر بدل چکے ہیں کہ ـ سیاسی چالیں چل کر کامیابی حاصل کرنے پر اب ان کا یقین نہیں رہااور روحانی کرشموں پر یقین کرنے لگے ہیں۔ہوسکتاہے کہ وہ بھی باقی سیاستدانوں کی طرح یہ سب کچھ ووٹروں کی ہمدریاں حاصل کرنے کی خاطر کررہے ہوں۔ عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ عمر کے آخری حصے میں اکثر لوگ مذہب کی کسی نہ کسی تعبیر کو اختیا ر کرکے اس پر سختی سے کاربند ہوجاتے ہیں۔صوفیانہ اسلام کی تعبیر مغربی ذہن کو بہت تیزی سے متاثر کرتی ہے۔اسی طرح پاکستان کو ایک صوفی وزیراعظم مل جائے گا۔