’’اسلام آباد میں مرحلہ وار دھرنا ہو گا۔ پہلے مرحلے میں ملک کے لاکھوں کارکن دھرنا دے کر سڑکوں پر مساجد آباد کریں گے۔ درس وتدریس کا سلسلہ جاری رہے گا۔ دوسرے مرحلے میں جیل بھرو تحریک کا آپشن ہو گا۔ حکومت کے جانے تک اسلام آباد میں موجود رہیں گے۔ لاک ڈائون کا فیصلہ اٹل ہے۔ آزادی مارچ میں علماء کرام، پیش امام، حفاظ کرام قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے شریک ہوں گے۔‘‘ یہ اعلان دو دن پہلے خیبر پختونخواہ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی نے کیا ہے۔ درانی صاحب جے یو پی (ف) کے اہم رکن ہیں۔ دھرنا دینا جے یو آئی کا یا کسی بھی سیاسی جماعت کا حق ہے۔ موجودہ حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیںہونا چاہیے کیوں کہ ع ایں گنا ہیست کہ درشہر شمانیز کنند اگر یہ ناروا ہے تو آپ نے بھی یہ ناروا قدم اٹھایا تھا۔ تحریک انصاف کے دھرنے میں اور جے یو آئی (ف) کے مجوزہ دھرنے میں ایک جوہری فرق ضرور ہے! تحریک انصاف کا دھرنا ہمہ گیر ملکی بنیادوں پر برپا ہوا تھا۔ اس میں ہر مسلک ہر عقیدے ‘ ہر زبان، ہر صوبے اور ہر خطے کے پاکستانی موجود تھے۔ جے یو آئی (ف) ایک مسلکی جماعت ہے اور دیو بندی مسلک کی علم بردار ! ظاہر ہے کہ اس جماعت کے ارکان اور ووٹرز دونوں اسی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، چنانچہ قرین قیاس یہی لگتا ہے کہ دھرنے میں بریلوی، شیعہ اور اہل حدیث مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگ نہیں ہوں گے۔ ہوئے بھی تو برائے نام سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ ایک اور اعتبار سے جے یو آئی (ف) مسلکی ہونے کے ساتھ ساتھ لسانی یا صوبائی جماعت بھی ہے۔ پارلیمنٹ میں ان کی تمام نمائندگی پختون بیلٹ پر مشتمل ہے۔کراچی اورپنجاب سے انہیں کوئی نشست نہیں ملی۔(یہ اس کالم نگار کی ذاتی معلومات ہیں۔ اگر ان علاقوں سے جے یو آئی (ف) کی نمائندگی پارلیمنٹ کو میسر ہے تو پیشگی وضاحت کیے دیتے ہیں) ایک اور تاریخی اور واقعاتی پہلو بھی ہے۔ کیا جے یو آئی (ف) سیاسی حوالے سے تمام اکابر دیو بند کی وارث جماعت ہے؟ اس سوال کا جواب دلچسپ ہے اور دردناک بھی! درد ناک اس لئے کہ پاکستانیوں کی بھاری اکثریت حقیقت حال سے ناواقف ہے! تحریک پاکستان کا آغاز ہوا تو جمعیت علماء اسلام کا وجود ہی نہ تھا۔ اس وقت دیوبندی حضرات جس پلیٹ فارم سے سیاست کر رہے تھے‘ اس کا نام جمعیت علماء ہند تھا۔ اس کی قیادت مولانا حسین احمد مدنی کر رہے تھے۔ جمعیت علماء ہند نے تقسیم کی دوسرے لفظوں میں قائد اعظم اور مسلم لیگ کی مخالفت کی تھی اور اپنا سارا سیاسی وزن کانگرس کے پلڑے میں ڈالا تھا۔ علامہ اقبال اور مولانا حسین احمد مدنی کا مناظرہ تاریخ پاکستان کا حصہ ہے۔ جب مولانا نے تقسیم ہند کی مخالفت میں اعلان کیا کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں تو علامہ اقبال نے اپنا شہرہ آفاق قطعہ کہا ؎ عجم ہنوز نداند رموزِ دیںورنہ ز دیو بند حسین احمد! ایں چہ بو العجبی ست سرود برسر منبر کہ ملت از وطن است چہ بے خبر ز مقامِ محمدِ عربی ست عجم ابھی تک رموزدین سے ناواقف ہے! کیا بوالعجبی ہے کہ دیو بند کی نمائندگی حسین احمد کر رہے ہیں! منبر پر بیٹھ کر کہا کہ ملت وطن سے بنتی ہے۔ محمد مصطفیﷺ کے مقام سے کتنے بے خبر ہیں!) تاہم علماء دیو بند کا ایک بہت بااثر گروہ مولانا حسین احمد مدنی سے اتفاق نہ کر سکا۔ اس گروہ کی قیادت مولانا اشرف علی تھانوی کر رہے تھے۔ ان کی قیادت میں مولانا شبیر احمد عثمانی‘ مولانا ظفر احمد عثمانی ‘ مفتی محمد شفیع اور دیگر اکابر نے تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ ڈالا اور قائد اعظم کی پر زور حمایت کی! مشہور محقق اور صحافی منیر احمد منیر اس ضمن میں لکھتے ہیں: 26اکتوبر 1945ء کو کلکتہ میں علما کی ایک کانفرنس میں مولانا شبیر احمد عثمانی کی قیادت میں ’’جمعیت علماء اسلام‘‘ قائم ہوئی یہ اجلاس 26اکتوبر سے 29اکتوبر تک رہا جمعیت علماء ہند کے مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے مولانا عثمانی سے شکوہ کیا کہ ’’جمعیت علماء اسلام محض ہماری جمعیت کے مقابلے میں اس کو توڑنے کے لئے قائم کی گئی ہے‘‘ تاریخ کے عجائبات میں سے ایک عجوبہ یہ ہے کہ آج جو حضرات ’’جمعیت علماء اسلام‘‘ کے پرچم بردار ہیں وہ جمعیت علماء ہند اور مولانا حسین احمد مدنی کے سیاسی وارث ہیں۔ جمعیت العلماء اسلام پر اس اینٹی پاکستان گروہ کا قبضہ کب اور کس طرح ہوا؟ یہ ابھی تک معمہ ہی ہے! بہر طور بقول منیر احمد منیر’’قیام پاکستان کے نو برس بعد‘ 9اکتوبر 1950ء کو جب انہی لوگوں نے جمعیت علمائے اسلام کے نام تلے پناہ ڈھونڈی تو مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم نے لکھا تھا’’اس کے شرکا عموماً وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے نظریہ سے ہمیشہ مختلف رہے اور جمعیت علماء اسلام کے خلاف جمعیت علماء ہند سے وابستہ رہے‘‘ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم کے مدرسہ میں پاکستان کا یوم آزادی (چودہ اگست) باقاعدہ منایا جاتا ہے۔ جے یو آئی (ف) کے زیر اثر مدارس میں (میسر معلومات کے مطابق) یوم آزادی منانے کا کوئی تصور نہیں ۔ آپ جے یو آئی(ف) کے کسی عہدیدار یا رہنما کی زبان سے قائد اعظم یا تحریک پاکستان کا نام نہیں سنیں گے! ایک اور المیہ یہ ہوا کہ بالخصوص مفتی رفیع عثمانی اور جسٹس تقی عثمانی سیاست سے کنارہ کش ہی رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی علمی دینی تحقیقی اور تنظیمی خدمات کثیر ہیں مگر جے یو آئی (ف) کو میدان خالی مل گیا۔ یوں بھی جس قسم کی زمانہ ساز اور جوڑ توڑ کی سیاست مذہب کے نام پر مسلکی جماعتیں کر رہی ہیں! عثمانی برادران کا مزاج اس سے ہم آہنگ نہیں! مجوزہ دھرنے کی طرف واپس آتے ہیں!اس دھرنے میں ایک خاص بات یہ ہو گی کہ سڑکوں پر مساجد آباد کی جائیں گی، درس و تدریس کا سلسلہ ہو گا اور قرآن پاک کی تلاوت ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لاکھوں مظاہرین کے لئے واش روم اور وضو خانوں کی ضرورت ہو گی! کیا لاکھوں انسانوں کے لئے دارالحکومت کی شاہراہوں پر وضو اور طہارت کا بندوبست کرنا ممکن ہو گا؟ ہو سکتا ہے اس ضمن میں تبلیغی جماعت جے یو آئی(ف) کی مدد کر سکے کیوں کہ تبلیغی جماعت کو بڑے بڑے اجتماعات کے لئے لیٹرینوں اور وضو خانوں کے بندوبست کا طویل تجربہ ہے۔! دیگر مسلکی جماعتیں بھی مستقبل میں اپنے مطالبات منوانے کے لئے اسی قبیل کے دھرنے دے سکتی ہیں اور مطالبات منوانے کے لئے سڑکوں پر مساجد آباد کر کے شاہراہوں‘ راستوں اور گلی کوچوں میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر سکتی ہیں۔ یہ ناممکن نہیں اور اس میں قباحت بھی آخر کیا ہے؟ اگر دیو بندی مسلک کا ایک حصہ یہ طریق کار اپنا سکتا ہے تو کل کو بریلوی ‘شیعہ اور دیگر مسالک کو بھی ایسا کرنے سے روکنا قرین انصاف نہ ہو گا! مولانا خادم حسین رضوی اوران کے ہم نوا اس کا ایک تجربہ کربھی چکے ہیں! ہاں! یہ ایک اور سوال ہے کہ جن لاکھوں طلبہ کو مدارس سے ہٹا کر دھرنے میں منتقل کیا جائے گا(اوربظاہر لگتا ہے کہ دھرنے میں ان طلبہ کا قیام طویل ہو گا) تو کیا یہ منتقلی ان کے والدین کی اجازت سے عمل میں لائی جائے گی؟