اشرافیہ عددی کمتری کے باوجود کسی نہ کسی طرح واپس تو آگئی ہے لیکن ایوان اقتدار پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے بیساکھی کی تلاش میں ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جسے اس نے موقع سمجھ کر فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے یہ محض جال ہو کہ ایسی پھنسے کہ لینے کہ دینے پڑجائیں۔ ابھی جو مخمصہ سامنے آیا ہے وہ یہی ہے کہ کمزور معیشت کو پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ اٹھائے اور اپنی ساکھ کو دھبا لگا لے یا پھر فوری طور پر انتخابات کی طرف جایا جائے جسکا کہ اپوزیشن پارٹی پرزور مطالبہ کر رہی ہے۔ پہلی حکمت عملی اپنانے میں ن لیگ کو فائدہ ہے کہ ابھی امید باقی ہے کہ وہ پنجاب کا میدان مارلے گی جبکہ پیپلز پارٹی کا فوری انتخابات میں جانا خطرے سے خالی نہیں۔ یوں اگر معیشت زوال کی طرف گامزن رہتی ہے تو اگلے ڈیڑھ سال میں صرف ایک ہی پارٹی کو نقصان ہوگا اور وہ ہوگی ن لیگ۔ یوں مریم نواز کا یہ کہنا بجا ہے کہ عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ ڈالنے سے بہتر ہے کہ انتخابات کا راستہ اپنایا جائے۔ پی ڈی ایم کی دوسری پارٹی، جمعیت علما ئے اسلام، کی بھی یہی سوچ ہے۔ یوں بروقت انتخابات کا فائدہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو ہے۔ جہاں تک گارنٹیوں کی بات ہے تو قانون کی حکمرانی عدلیہ کے دائرہ اختیار میں ہے اور آزاد خارجہ پالیسی پر اسٹیبلشمنٹ سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ قانون فطرت ہے کہ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے۔ سیاسی میدان میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ اشرافیہ نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری تو حاصل کرلی تھی لیکن بھول گئی تھی کہ یہ سہولت آئین کی مقامی حکومتوں کی شق سے مشروط تھی۔ لیکن ہوا یہ کہ صوبائی خود مختاری کے ملتے ہی مقامی حکومتوں کا ٹینٹوا دبا دیا گیا اور ردِ عمل سے بچنے کیلئے کچھ ایسے انتظامات کرڈالے کہ وفاق میں دو پارٹیاں ایوان ِ اقتدار میں باریاں لیتی رہیں۔ جہاں سودے بازیوں کے ذریعے چھوٹی پارٹیوں کو بڑی پارٹیوں کا دست نگر بنادیا گیا وہیں اپوزیشن کا فطری کردار بھی ختم کردیاگیا۔ یعنی ہمیں پانچ سال لگانے دیں اگلی باری آپ کی۔ امریکہ سے مالی امداد کی توقع رکھنا فضول ہے کہ ایک تو اس کی اسٹیبلشمنٹ مشرقی یورپ کے معاملات میں الجھی ہے دوسرے وہ چاہتی ہے کہ جمہوری ممالک نہ صرف اپنا بوجھ خود اٹھائیں بلکہ جمہوریت کے دنیا میں بول بالا کرنے کیلئے اس کا ساتھ بھی دیں۔ پتے کی بات یہ ہے کہ امریکہ خود چاہتا ہے کہ نوزائیدہ جمہوریتیں خود انحصاری کی راہ پر چلیں۔ سیاسی پارٹیاں جمہوریت کا جھنڈا اٹھائیں اور ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے عوام میں اپنی جڑی مضبوط کریں۔ اب یہ ممکن نہیں کہ جمہوریت ہو اور اپوزیشن نہ ہو۔ میثاقی پارٹیوں نے اپوزیشن دیکھی بھی اور پھر اس کا ساڑھے تین سالہ اقتدار بھی بھگتا۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا، یہ اہم نہیں ہے کیونکہ یہ سب ہونا تھا۔ تحریک انصاف کو ان طاقتوں نے سپورٹ کیا جو صوبوں کے اندر وسائل اور اختیار کی منصفانہ تقسیم کی حامی تھیں۔ لاہور، پشاور، کوئٹہ اور کراچی کے درمیان ایک وسیع اور زرخیز خطہ واقع ہے جو طاقت اور وسائل سے محروم ہے۔ ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ ملک میں جمہوریت بھی ہو لیکن طاقت اور وسائل وفاق سے منتقل ہوکر چند شہروں تک محدود کردیے جائیں۔عوام کی فطری آزادیوں پر قدغن ہو اور جمہوریت کا بول بالا ہو، نظام احتساب منجمد ہواور ملکی معیشت ترقی کرے۔ ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر اور مراعات امیر طبقہ تک محدود ہوجائیں تو جمہوریت بارِ گراں بن جاتی ہے۔ اگرچہ میثاق جمہوریت، جسکی ڈوری سے نوے کی دہائی میں دست وگریبان، پیپلز پارٹی اور ن لیگ بندھے ہیں، امریکہ نے کرایا تھا لیکن اس کے نتیجے میں جو بگاڑ ہوا وہ اشرافیہ کا اپنا کیا دھرا ہے کہ اسے اپنی ناک سے آگے کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ وہی موقع پرستی جو اسکا خاصہ ہے۔ امریکہ کا واضح مقصد افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا تھا۔ اس وقت اس کی سوچ یہ تھی کہ جنگ جیت کر نکلا جائے۔ پاکستان کو ساڑھے سات ارب ڈالر کی امداد بھی دی اور اسے سویلین بالا دستی کے ساتھ بھی مشروط کیا۔ اشرافیہ نے اس احسان کو اسے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملو ںکی اجازت اور سی آئی اے کے ایبٹ آباد آپریشن پر خاموشی سے چکا دیا تھا۔ لیکن ردعمل تو ہونا تھا اور وہ سلالہ حادثے کے بعد رونما ہوا۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں ایسی دراڑ پڑی کہ اب تک نہیں بھری جاسکی۔ تیسری پارٹی کو میدان میں لانے کا اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ بھی سلالہ حادثے کا نتیجہ تھا۔ شاید امریکہ ہمارا بازو مروڑ لیتا لیکن اب چین کی صورت میں متبادل اپنی پوری طاقت کے ساتھ ہمارے سامنے موجود تھا۔شنگھائی تعاون تنظیم ، جسکے چین، وسط ایشیائی ممالک، روس اور بھارت بھی ممبر تھے، میں شمولیت نے پاکستان کے آزاد خارجہ پالیسی کی راہیں کھول دی تھیں۔ وقت کے ساتھ مزید آسانیاں پیدا ہورہی ہیں۔ اگر ضرورت ہے تو جذبہ حب الوطنی جگانے کی جو دہائیوں کی دست نگری کی وجہ سے مردہ ہوچکا ہے۔ اسکے لیے لازم ہے کہ شہریت کے آفاقی تصور کو اپنایا جائے جو قائد اعظم کی گیارہ اگست کے پہلی آئین ساز اسمبلی سے خطاب میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ آئین کی روح کے مطابق سیاسی ، انتظامی اور مالی طور پر خود مختار مقامی حکومتوں کا قیام حب الوطنی کے احیا کے لیے لازم ہے۔ ان دو اقدامات سے مساوات اور عدل کی بنیادی شرائط پوری ہوجائینگی۔ آئین و قانون کی حکمرانی معیشت اور جمہوریت دونوں کے استحکام کا سبب بنیں گی۔ بنیادی حقوق ملیں گے اور فطری آزادیاں بحال ہونگی تو ملک کو نئی طاقت ملے گی جو معاشی خود مختاری کا راستہ ہموار کریگی۔ رہا یہ سوال کہ کیا حکومت اشیائے خورد ونوش اور پٹرولیم مصنوعات کو ٹیکسوں سے چھوٹ دے سکتی ہے؟ اشیا ئے ضروریہ پر ٹیکس ظلم ہے کہ یہ ان لوگوں پر لگائے جارہے ہیں جنہیں کفالت کی ضرورت ہے۔ ایمرجنسی ٹیکس لگائے جاسکتے ہیں ، کفایت شعاری اپنائی جاسکتی ہے اور کرپشن کا راستہ احتساب سے بند کیا جاسکتا ہے۔جمہوریت کے تسلسل اور معیشت کی بحالی کیلئے آئین و قانون کی حکمرانی لازم ہے۔ دوسرا راستہ انتقام کا ہے، جو حکومت ہی نہیں ریاست کو بھی بند گلی تک لے جاسکتا ہے۔