زرداری صاحب بڑے مزے کے آدمی ہیں۔ میرا ان سے پہلا رابطہ اس وقت ہوا جب ان کے خلاف آخری مقدمہ بھی ختم ہوتا دکھائی دیتا تھا۔ بارہ تیرہ مقدمات تھے جو آہستہ آہستہ آہستہ نپٹتے جا رہے ہیں۔ میں نے اس پر کالم لکھا کہ ہم خوامخواہ اس شخص کے خلاف ہو گئے تھے۔ اسے تو اب مجید نظامی بھی مرد حر کہہ رہے ہیں۔ تو کیوں نہ میں بھی ہتھیار ڈال دوں۔ سو اعلان کرتا ہوں کہ اب کی بار عید پر زرداری صاحب کراچی جیل میں ہوئے تو ان سے ملنے ضرور جائوں گا۔ اگلے ہی روز ان کا ایک نمائندہ میرے دفتر میں پھولوں کا گلدستہ اور غالباً کیک لے کر موجود تھا کہ سائیں نے آپ کو سلام بھیجا ہے‘ پھر اس سے پہلے کہ عید آتی وہ جیل سے باہر تھے۔ ان کا پیام آیا ہم نے آپ کو زحمت ہی نہیں دی۔ اب آپ عید کے اگلے روز ہمارے ساتھ کھانے کے لئے تشریف لائیں تو عزت افزائی ہو گی۔ پھر ان سے ایک طرح کا رابطہ قائم ہوا تو ان کے ایوان صدر تک پہنچنے کے بعد بھی قائم رہا۔ کبھی ملاقات ہوتی تیس چالیس افراد بھی موجود ہوتے اور سارے ایک سے ایک اہم ہوتا۔ وہ سب سے ہاتھ ملاتے‘ میرے سامنے آتے تو بے ساختہ گلے لگا لیتے ۔ آدمی بڑے مزے کے ہیں۔ انہوں نے ملک میں واپس آنے کا فیصلہ کیا تو بی بی نے آنے دیا۔ ہم بھی دوبئی سے ہمراہ تھے۔ کیسے تھے یہ ایک الگ کہانی ہے۔ لاہور کے ہوائی اڈے پر دھر لئے گئے۔ پھر چھوڑ دیے گئے۔ کیا اسیری تھی کیا رہائی تھی۔ چند دن بعد واپس جانے کا فیصلہ کیا تو یاد فرمایا۔ باہر ایک ہجوم تھا۔ اندر ان کے کمرے میں ہم تنہا بیٹھے تھے۔ درمیان میں ایک رازدار بھی آتا جاتا تھا۔ایجنسیوں کا ذکر آیا تو میں نے ایسے ہی بے ساختگی میں پوچھ لیا کہ ایجنسیاں آپ سے کیا چاہتی ہیں۔ کہنے لگے کہتی ہیں بی بی کو چھوڑ دو۔ میں نے فوراً پوچھا تو کیا ارادے ہیں۔ میرا اس سوال سے کوئی مقصد نہ تھا۔ یہ سوال ان افواہوں کے پس منظر میں بھی نہ تھا جن میں بتایا جاتا تھا کہ زرداری صاحب اور بی بی کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور علیحدگی کے نقطے پر پہنچے ہوئے ہیں۔ بس ایسے ہی پوچھ لیا ہنس کر کہنے لگے‘ چھوڑ تو دوں‘ مگر کیا کروں میرے بچے اس کے قابو میں ہیں۔ یہ بات تو مجھے خواجہ آصف کی گرفتاری کے بعد کے بیان سے یاد آئی جس میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ انہیں ہی نہیں سارے مسلم لیگی لیڈروں کو نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے بعد یہی کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کو چھوڑ دو۔ خواجہ صاحب کا جواب مختلف ہے کہ میرے بال سفید ہو چکے ہیں اب بے وفائی نہیں ہوتی۔ زرداری صاحب کا جواب ذرا شرارتی نوعیت کا تھا۔ زرداری صاحب کی ساری سیاست ایسی ہی ’’شرارتوں‘‘ سے پر ہے۔ ایسے کسی واقعے کا تذکرہ نہیں کروں گا کہ ڈر ہے موجودہ سیاسی پس منظر میں یہ بات کہیں اور طرح نہ لی جائے۔ ایک بات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جس نے میرے ہی نہیں پوری قوم کے کان کھڑے کر دیے تھے۔ غالباً مری میں نواز زرداری معاہدہ طے پایا کہ چودھری افتخار کی عدلیہ کو بحال کر دیا جائے گا۔ مسلم لیگ بے چاری شریک اقتدار ہو گئی۔ ایک ماہ تک ساتھ رہے اور زرداری صاحب کو یاد دلاتے رہے کہ بھئی عدلیہ کو بحال کرنا ہے مگر وہ پروں پر پانی ہی نہ پڑنے دیتے تھے۔ آخر کسی نے پوچھ لیا تو ان کا وہ شہرہ آفاق تبصرہ سامنے آیا جس کی ہمارے سیاسی ادب میں دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔ کہنے لگے معاہدے کوئی حدیث تو نہیں ہوتے کہ ان سے انکار نہ کیا جا سکے۔ یہ ان کے سیاسی انداز کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ جس طرح ایوان صدر تک پہنچے یہ بھی ان کی اسی شرارتی ذہانت کا کرشمہ ہے۔ وہ اپنی پارٹی سے کہتے تھے‘ تمہیں اور کیا چاہیے‘ اتنی نشستوں پر میں نے تمہیں وزارت عظمیٰ ہی نہیں صدارت بھی لے کر دی ہے آگے تم کام کر کے دکھائو۔ میمو گیٹ سے لے کر آج تک جو جو سیاسی اقدامات ان کے نام سے منسوب ہیں‘ لگتا ہے ایک کھلنڈرے بچے کی طرح وہ بڑے بڑے مشکل مرحلوں کو چٹکی بجاتے ہی طے کرتے جاتے ہیں۔ انہوں نے مشہور تقریر کی کہ یہ تو تین تین سال کے ملازم ہیں۔ ہم نے مستقل رہنا ہے۔ صاف اشارہ فوج کی طرف تھا۔ اگلے روز ان کا وزیر اعظم نواز شریف کھانا طے تھا۔ نواز شریف نے ازراہ احتیاط اسے منسوخ کر دیا۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں نواز شریف تعاون نہیں کرتے‘ ان کے لئے یہی ایک واقعہ معقول جواب فراہم کرتا ہے۔ زرداری صاحب نے اڑان بھری اور ملک سے باہر چلے گئے۔ پھر برسوں بعد لوٹے اور اس طرح آئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اب بھی وہ کہتے ہیں ہم سے سیکھو‘ ہم سے سمجھو۔یہ نہیں کہ وہ ہماری سیاست میں کسی نئی روش کے بانی ہیں‘ ماضی میں بھی بڑے بڑے لوگ ہوئے ہیں۔ ایک واقعہ تو مشہور ہے کہ پنجاب کے اس زمانے کے زرخیز دماغ ممتاز دولتانہ نے کسی سے قرآن پر معاہدہ کیا۔ دستخط کر دیے۔ بعد میں اس سے ہٹ کر مقابلہ کرنا پڑا تو معاہدہ یاد دلایا گیا۔ دولتانہ صاحب نے یہ تو نہیں کہا کہ معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے بلکہ دلیل دی کہ دستخط تو حاشیے پر ہیں‘ قرآن پر تھوڑے ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ ایسے ہی زرخیز دنیائوں کی داستانیں سناتی ہیں۔ یہ میں اس پس منظر میں نہیں لکھ رہا کہ پیپلز پارٹی اب بھی پی ڈی ایم کی سیاست میں کام دکھا سکتی ہے‘ صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ زرداری صاحب سیاست گری کی سائنس میں پی ایچ ڈی ہیں یہ جو کہا جا رہا ہے کہ وہ خسارے کا سودا نہیں کریں گے تو اس میں زرداری صاحب کی کیا تخصیص کسی سیاست دان کو بھی خسارے کا سودا نہیں کرنا چاہیے۔ فضل الرحمن بھی نہیں کریں گے۔ مسلم لیگ کو بھی اپنا برا بھلا سوچ لینا چاہیے۔ سیاسی فضا پیدا کرنے کے لئے جس طرح کی شعلہ بیانی کی ضرورت تھی وہ کر لی گئی اور کی جاتی رہے گی۔ مگر زمینی حقائق ذرا مختلف ہوتے ہیں۔ کیا خیال ہے اس بنا پر استعفیٰ دینا کہ پھر سینٹ کے انتخابات ممکن نہ رہیں گے‘کسی طور بھی قابل عمل ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنی مہم شروع کر دی ہے۔ انہوں نے اپنا الگ اور منفرد تشخص قائم رکھنے کے لئے نہ صرف ان انتخابات کے لئے رابطے شروع کر دیے ہیں بلکہ اپنے جماعتی ایجنڈے میں ایک نئی جہت لگا لی ہے۔ وہ یہ کہ انتخابات سے پہلے مردم شماری کا ایشو اٹھایا جائے۔ اسے پارٹی کا مطمع نظر بنا دیا جائے اور یہ کیا جائے کہ سابقہ انتخاب اس لئیبھی شفاف نہ تھے کہ یہ درست مردم شماری پر مبنی نہ تھے ان کا سندھ کارڈ تو پہلے بھی چلتا رہا ہے۔ اب یہ مردم شماری کا کارڈ یا سمندری جزیروں کی ملکیت کا مسئلہ انہیں پی ڈی ایم کے اجتماعی ایجنڈے سے الگ ایک منفرد حیثیت دیتا ہے جس کے لئے وہ ایم کیو ایم سے ملنے بھی چل دیے ہیں اور ان تمام جماعتوں سے بھی رابطے کر رہے ہیں جو حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔ مگر اس معاملے میں وہ بھی ہم خیال نکلیں گی۔ وہ جو کہتے ہیں کہ زرداری صاحب اپنے پتے سینے کے ساتھ لگا کر رکھتے ہیں‘ کسی کو خبر نہیں ہونے دیتے تو یہ کوئی سیاست میں ایسی غلط بات بھی نہیں۔ ادھر مسلم لیگ میں کون ہے جو یہ کام کر سکے۔ اس حوالے سے ان کی سیاست کا معاملہ ذرا نرم ہے۔یا جتنا پہلے تھا‘ اب اس سے بھی زیادہ نرم ہے۔ پیپلز پارٹی جو بھی کرے گی یہ اس کی سیاست کا حصہ ہے۔ وہ یہی بتائے گی یہ اس کی سوچی سمجھی رائے ہے۔ مشرف کے آخری دنوں میں بھی استعفوں کا سوال پیدا ہوا تھا۔ فضل الرحمن نے مشرف کو منتخب کر کے استعفیٰ دیا۔ پیپلز پارٹی نے اسمبلی کا بائیکاٹ کر کے مشرف کو فائدہ پہنچایا۔چلئے یوں کہہ لیجیے سٹیٹ کو کو فائدہ پہنچایا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اب کریڈٹ بھی لیتے ہیں کہ ہم نے مشرف کو نکالا ہے۔اس ساری گفتگو کو پیپلز پارٹی کے خلاف نہ سمجھا جائے‘ بلکہ اس تشویش کا اظہار سمجھا جائے کہ مسلم لیگ کے پاس کون ہے جو سیاست کر سکے۔ مطلب کہ اس وقت کون ہے ہجوم اکٹھے کرنے کا مرحلہ تو طے ہوا۔ اب اندرون خانہ جوڑ توڑ اور اونچ نیچ کا وقت ہے۔