ہم ایک خاص مزاج کے لوگ بن چکے ہیں۔ ہر بات پر پھبتی کسنا،مذاق اڑانا، اپنے مقصد اور فائدے کے لئے رنگ بازی کرنا بھلے ملک اور قوم کسی بھی صورتحال سے دو چار ہوں ہمیںنتائج سے بے پرواہ ہو کر اپنے فائدے کی بات کرنی ہے، اسکی بنیاد حقیقت پر ہو یا نہ ہو۔چند روز قبل ایک ٹی وی پرگرام میں پیپلز پارٹی کے سب سے معقول لیڈر قمر زمان کائرہ نے فرمایا کہ میں سیاستدان ہوں اور سیاست کرونگا۔ انکا حق ہے ضرور سیاست کریں لیکن عوام کے لئے کریں ایسا نہ ہو کہ انہیں وقتی سیا سی فائدہ ضرور ہو لیکن عوام جنکے ووٹ کے لئے انہیں کل کو در در جانا ہے انکی سیاست سے بیزار ہو چکی ہو۔ پیپلز پارٹی کو تو اب تک سبق سیکھ لینا چاہئے تھا کہ پنجاب میں انہوں نے میاں نواز شریف کے ساتھ ملکر اقتدار میں باریاں لینے کے لئے جو مک مکا کی سیاست کی تھی اسکے نتائج کیا نکلے ہیں۔ اب پنجاب کے کسی حلقے میں ہی ہزار یا اس سے اوپر ووٹ ملتے ہیں زیادہ تر تو پانچ سات سو ووٹ تک محدود ہو چکے ہیں۔ویسے کائرہ صاحب کے لیڈر بلاول بھٹو زرداری تو اس موقع پر کوئی سیاست نہیں کر رہے۔اس پورے کرونا وائرس کے مشکل وقت میں سندھ حکومت اور بلاول بھٹو زرداری کا رویہ سب سے قابل تحسین ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے اس مشکل اور اسکے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا بر وقت اندازہ لگایا اور انکا رسپانس بہت ہی بہترین رہا ہے۔یہ بھی سیاست ہے، اصلی سیاست کہ آپ لوگوں کی تکلیف کا احساس کریں اور انکی مدد کے لئے اپنے رویوں میں ضروری تبدیلی لائیں۔یہ زلزلہ یا سیلاب نہیں ہے کہ آیا اور تباہی پھیلا کر چلا گیا۔ آپ کے پاس پھر وقت ہوتا ہے کہ اس کے نقصانات کا ازالہ کر سکیں اپنی حکمت عملی بنا سکیں۔ لیکن کرونا ایک ایسی وباء ہے جسکے بارے میں مسلسل کوشش اور ہمہ وقت تیاری کی ضرورت ہے۔ اسکے مستقبل کے بارے میںکوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ کب اس سے چھٹکارا حاصل ہو گا۔ دوسری طرف شہباز شریف ہیں جو ایک خاص صورتحال میں بھاگے بھاگے وطن واپس پہنچے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت ہاتھوں سے جاتے دیکھ کر انکے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ پاکستان واپس آتے اور انکا ایجنڈا بھی یہی ہے۔ اس لئے وہ کرونا کے بارے میں کوئی حکمت عملی تیار نہیں کر پائے۔انکے خیال میں کرونا جیسی وباء کے نتیجے میں حکومت کے ہاتھ پائوں پھول چکے ہیں اور وہ کسی بھی وقت ہتھیار ڈال سکتی ہے۔ اس لئے انکے حواری وزیر اعظم کی رخصتی کی افواہیں اڑا رہے ہیں جو کہ کچھ عرصے کے لئے رک گئی تھیں جب شہباز شریف لندن میں تھے۔لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت پاکستان کے عسکری اداروں اور حکومتی اداروں کے ساتھ ملکر جس تدبر اور ہوشمندی سے اس وباء کا سامنا کر رہی ہے جس میں بین الاقوامی اداروں کی مدد بھی شامل ہے۔ دکھائی یوں دیتا ہے کہ انشاء اللہ ہم اس وباء کو پھیلنے سے روکنے میں کامیاب ہونگے اور مکمل خاتمے کی صورت بھی نکل آئے گی۔یہ سب اپوزیشن کے لئے جو اس بیماری پر سیاست کرنے کی خواہش لئے ہوئے ہے بہت جھنجلاہٹ کا باعث بن رہا ہے اس لئے انکی فرسٹریشن بڑھنے کے بہت امکانات پائے جاتے ہیں۔اس فرسٹریشن میں وہ جو حرکتیں کرینگے اس سے انکا تو کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہو گا لیکن سیاست زدہ کرونا بہت بڑے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے جسکی ایک جھلک ہم اس دنیا کے 192 ممالک میں پھیلی بیماری کوتفتان اور رائیونڈمیں تقسیم کر کے الزام تراشی کا ایک انتہائی قابل مذمت سلسلہ شروع کر نے کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔جس وقت قوم کو متحد ہو کر اس آفت کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جب بیک آواز ہو کر اپنے مالک سے عافیت مانگنے کا وقت ہے ہم مسلکی اور سیاسی تقسیم کے درپے ہیں۔ قطع نظر اسکے کہ یہ ساری بحث اس صورتحال میں کس قدر نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ہماری دیکھا دیکھی بھارت کے بڑے نیوز چینل نے بھی وہاں پر پھیلنے والی وباء کو تبلیغی جماعت کے کھاتے ڈالنا شروع کر دیا ہے۔جس کسی نے بھی تفتان کی سازش گھڑی اس کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ اسکا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔مجھے اس صدی کے آغاز پر جان ڈی کیری کا لکھا ناول ـ ’’ٹیلر آف پناما‘‘ یاد آ رہا ہے جس پر ہالی ووڈ فلم بنا چکا ہے جس میں مشہور جیمز بانڈ سیریز کے ایک ہیرو پیرز برائونسن نے مرکزی کردار کیا ہے۔اس فلم میں پیرز برائونسن ایک برطانوی جاسو س بنے ہوئے ہیں جنکے رابطے میں پناما کا ایک درزی ہیری ہوتا ہے جو اسکو خفیہ معلومات فراہم کرتا ہے۔ برطانوی جاسوس (پیرز برائونسن) کا کام پناما نہر کے ذریعے برطانوی مفادات کا تحفظ تھا لیکن وہاں پہنچ کر اسے احساس ہوا کہ وہ اس درزی ہیری، جو کہ ایک سزا یافتہ مجرم ہے، کے ذریعے غلط اطلاعات فراہم کر کے بہت مال بنا سکتا ہے۔ وہ یہ کام شروع کر دیتا ہے۔ پناما کا درزی اسکا ساتھ اس لئے دیتا ہے کہ اسے بھی رقم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ہیری چاولوں کا فارم خریدتا ہے جس میں اسکو گھاٹا پڑ جاتا ہے اور وہ قرض میں ڈوب جاتا ہے۔ دونوں اپنی غرض کے اسیر ہو کر جعلی خبروں کا کام شروع کرتے ہیں ۔ انکی آمدن میں تو اضافہ ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں لیکن اسکے نقصانات کتنے ہونگے وہ اپنے لالچ میں یہ اندازہ نہیں کر پاتے۔ سب سے پہلے د رزی کی بیوی کواسکے پیرز برائونسن کے ساتھ مراسم پر شک گزرتا ہے اور وہ اسکے سارے جھوٹ پکڑ لیتی ہے اور اسے چھوڑ دیتی ہے، پھر ٹیلر کا ایک دوست Mickie خود کشی کر لیتا ہے، جس کو برطانوی جاسوس نے حکومت کی خاموش اپوزیشن کے طور پر پیش کیا ہوتا ہے۔ Mickie کی خود کشی کی وجہ یہ ڈر ہوتا ہے اگر رازافشاء ہوئے تو اسے دوبارہ جیل جانا پڑیگا۔اسکی خود کشی کو ہلاکت دکھایا جاتا ہے جسکی آڑ میں امریکہ اور برطانیہ کی فوجیں پنامہ پر حملہ کر کے قبضہ کر لیتی ہیں۔اس سب کی بنیاد وہ جعلی خبریں ہوتی ہیں جو برطانوی جاسوس اور پنامہ کے درزی نے اپنے مالی فائدے کے لئے گھڑی ہوتی ہیں۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کبھی کبھی انفرادی فائدے کے لئے کیا جانے والا عمل ایک بہت بڑی اجتماعی بربادی کا سبب بن جاتا ہے۔ اس لئے سیاست ضرور کیجیے عوام کے حق میں ،نہ کہ اپنے کسی فائدے کے لئے، کرونا کو سیاست زدہ نہ کریں۔ ٭٭٭٭٭