سندھ کی سیاست پہاڑ پر پڑے ہوئے پانی کے پیالے کی طرح جم گئی ہے۔ حالانکہ سیاست کا موسم سے الٹا تعلق ہوتا ہے۔ جب موسم گرم ہوتا ہے تب سیاست سردہوجاتی ہے اور جب موسم سرد ہوجاتا ہے تب سیاست کو گرم ہوجاتی ہے۔ مگر اس بار نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان کی سیاست موسم کے ساتھ مل گئی ہے۔ سیاست ملکی اور معاشرے کو مضبوط کرنے کی سائنس ہے مگر جب اقتدار کی لالچ سیاسی سوچ کے ساتھ لپٹ جاتی ہے تب سیاست وہ کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتی جس کے لیے اس نے جنم لیا ہے۔ حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو حکومت سندھ بہت خوش نصیب ہے۔ حکومت سندھ کو پنجاب کی طرح مضبوط حزب مخالف کا سامنا نہیں ہے۔ مگر سندھ حکومت گذشتہ گیارہ برس سے کوئی ایسا کردارا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی جس کی وجہ سے وہ اپنے صوبے کے عوام کے دل میں مضبوط جگہ بنا سکے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی سیاسی دوکان تب تک چل سکتی ہے جب تک کوئی اور بڑی جماعت سندھ کے سیاسی مارکیٹ میں اپنا قدم نہیں رکھتی۔ اس سلسلے میں جہاں تک متحدہ کا تعلق ہے تو وہ پہلے سے سندھ کے مخصوص شہروں تک محدود رہی ہے اور اب ٹوٹ پھوٹ کے بعد تو وہ کوئی مناسب کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی۔ مذہبی جماعتوں کے بھی مخصوص ووٹ پاکٹس ہیں۔ وہ بھی سندھ جیسا وسیع نیٹ ورک نہیں رکھتیں۔ اس لیے لے دے کے ہماری نظر پھر اس جی ڈی اے کی طرف لوٹ آتی ہے جس میں کچھ کرنے کا جذبہ تو ہے مگر وہ طاقت اور صلاحیت کہاں سے لائیں؟ جو سیاسی فضا پر چھا جانے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔جی ڈی اے تو روز اول سے ا انتظار میں بیٹھی تھی کہ وفاقی حکومت آئے اور اسے سندھ میں اقتدار دلوائے۔ جب کہ وفاقی حکومت اس بات کی منتظر تھی کہ کسی طرح سے جی ڈی اے اپنا پلیٹ فارم مضبوط کرے تو وفاقی حکومت ا س کے لیے ماحول سازگار بنانے کی کوشش کرے۔ یہ باہمی انتظار بالآخر اس رنجش کی صورت اختیار کرگیا جس کو ختم کرنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان کو اس بار کراچی میں پیر پگارا کے رہائش گاہ پر آنا پڑا اور جی ڈی اے کی شکایات سننے کا فرض پورا کرنا پڑا۔ جی ڈی اے نے وزیر اعظم کو دو ٹوک الفاظ میں بتایا کہ وہ کسی شہرت کے شوق کی خاطر سیاست نہیں کر رہے۔ ویسے بھی جس اتحاد میں سابق وزراء اعلی کی اچھی خاصی تعداد ہو وہ اتحاد اگر اقتداری طاقت نہیں چاہے گا تو اور کیا چاہے گا؟ایک وقت ایسا تھا جب جی ڈے اے کے ممبران نے اپنی اپنی وازارتیں بانٹ لیں تھیں اور صرف وزیر اعلی کے عہدے پر اختلافات تھے وہ اپنی حکومت کے خواب دیکھتے رہے اور ان خوابوں کو تعبیر میں تبدیل ہونے کا انتظار کرتے رہے مگر ہر خواب حقیقت نہیں بنتا۔جی ڈی اے کا اقتدار میں آنے کا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں بنا اور شاید اب جی ڈی اے کو یہ محسوس بھی ہونے لگا ہے کہ یہ خواب ان کی آنکھوں سے بہت بڑا ہے۔ اس لیے وہ تھوڑا سا اقتدار چاہتے ہیں۔ اتنا تھوڑا سا جتنا تھوڑا سا سندھ کے گورنر ان کو فراہم کر سکتے ہیں۔ اس بار وزیر اعظم عمران خان کو جو پیغام ملا وہ پیغام گورنر سندھ سے ناراضگی کا تھا۔ اس لیے وزیر اعظم پیر پگارا سے ملنے کے لیے ان کی رہائش گاہ پر گئے اس ملاقات میں رنجشیں تو ختم ہوگئیں مگر جی ڈ ی اے والوں نے گورنر سندھ کے بجائے وزیر اعظم اور خود میں موثر رابطے کا سوال اٹھایا تو جواب میں اسد عمر کا نام آیا۔اسد عمر کے نام پر اتفاق ہوا۔ کیا وفاقی حکومت اور جی ڈی اے کے درمیان صرف رابطے کی کمی ہے؟ اصل بات تو اس کردار کی ہے جس کردار کے بارے میں کوئی کھل کر بات نہیں کرتا مگر اس بار جی ڈی اے نے وزیر اعظم عمران خان سے کھل پر پوچھا کہ کیا آپ سندھ میں سیاست کرنا نہیں چاہتے؟ اگر نہیں چاہتے تو ہمیں بتائیں کہ ہم خواہ مخواہ انتظار کی اذیت سے بچ جائیں۔ وزیر اعظم نے جواب دیا کہ وہ سندھ کو ٹائم دینا چاہتے ہیں ۔ مگر وزیر اعظم نے جی ڈی اے والوں سے وہ بات نہیں کی جو بات بنیادی ہے۔ یہ سوال پوچھنے کا پہلا حق تو وزیر اعظم کا تھا۔ وہ پوچھ سکتے تھے کہ آپ سندھ میں سیاست کیوں نہیں کرتے؟مگر وہ وزیر اعظم نے یہ سوال نہ اٹھایا۔ کیوں کہ بقول غالب: ’’میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں‘‘ پیپلز پارٹی نے عرصہ دراز سے عملی سیاست کا انداز تبدیل کردیا ہے۔ اب وہ عوامی مسائل کو حل کرنے کی سیاست نہیں کرتی۔ اب وہ اقتداری سیاست کرتی ہے۔ کبھی وہ سیاست میں پرچون کی دوکان چلاتی تھی۔ اس دوکان پر ایک روپے یا دو روپے کی چیز بھی مل جاتی تھی مگر بینظیر بھٹو کے دور میں ہی پیپلز پارٹی نے یہ کام ترک کرکے ہول سیل کی سیاست کا آغاز کیا۔ اس میں جنجھٹ کم اور آمدنی زیادہ تھی۔ اس لیے یہ کام پیپلز پارٹی کو پسند آگیا۔ اس وقت پیپلز پارٹی ہول سیل سیاست کرتی ہے اور بہت خوش رہتی ہے۔پیپلز پارٹی کی طرف سے عوام میں نہ جانے اورعوامی مسائل کو حل نہ کرنے والی سیاست نہ کرنے کی وجہ سے مخالف پارٹیوں نے بھی ان گلیوں میں جانا چھوڑ دیا ہے جہاں عوام بستا ہے۔ اب غیر عوامی سیاست کا ایک مضبوط سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اس سیاست میںمحنت کے بغیر اور عوامی قربت کے سوا اقتدار حاصل کرنے کے طریقے بیان کیے جاتے ہیں۔ اس لیے متحرک ؛ عوامی اور عملی سیاست اس سندھ میں بھی زوال کا شکار ہوچکی ہے جو سندھ کبھی سیاسی شعور میں بہت بڑا بلند مقام رکھتا تھا۔ وہ وہ دور تھا جب سندھ میں سیاسی کتابیں بڑی شوق سے پڑھی جاتی تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب سیاسی موضوعات پر اردو کتابیں لاہور میں شائع ہوتی تھیں مگر ان کی بڑی مارکیٹ کراچی سمیت سندھ کے چھوٹے چھوٹے شہر تھے۔ یہ دور سندھ میں سیاسی عروج کا دور تھا۔ اب سندھ سیاسی زوال کا شکار ہے۔ عوام کا سیاست میں کردار ختم ہونے کے قریب ہے۔ کیوں کہ عوام سے سیاسی طور پر جماعتیں اور ان کے کارکنان نہیں ملتے۔ اب عوام سے صرف این جی اوز والے رابطے میں رہتے ہیں۔ سیاسی ماحول میں بے کار قسم کا ٹھیکیدارانہ نظام آگیا ہے۔ اب سیاسی پارٹیوں کو ان کارکنان کی کوئی ضرورت نہیں جو کارکنان اپنی پارٹی کے پرچم لگاتے تھے۔ جلسے منعقد کرتے تھے۔ یہ ایونٹ مینجمنٹ کا دور ہے۔ اس دور میں سب کام پیسے سے ہوتا ہے۔ مگر پیسے سے وہ جذبہ پیدا نہیں ہوتا جو محبت سے جنم لیتا ہے۔ اس لیے یہ دور سندھ میں سیاسی زوال کا ہے؛ اس دور سے نکل کر نئے دور میں کس طرح داخل ہونا ہے؟ اس سوال کے جواب میں کسی کو کوئی دلچسبی نہیں۔ سندھ سیاسی طور پر ایک سوکھے ہوئے درخت کا منظر پیش کر رہا ہے۔ سندھ اپنے موجودہ سیاسی زوال کے بارے میں سوچے اور وہ اس سوال کا جواب تلاش کرے؛ جس جواب کا ضرورت صرف اس کو نہیں بلکہ پورے ملک کو ہے۔ کیوں کہ نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک میں سیاست جم گئی ہے۔ حالانکہ اس کا سبب یہ موسم نہیں۔ کیوں کہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب موسم سرما گذر جائے گا اور پانی کے دریاؤں اور پہاڑوں کے آبشاروں میں روانی پیدا ہوجائے گی اس وقت بھی سیاست کے سرچشمے جمے رہیں گے۔ سیاست کا موسم الگ ہوتا ہے۔ سیاست کے موسم میں صرف خزاں نہیں آتی۔ سیاست کے موسم میں بہار بھی آتا ہے۔ مگر سیاسی موسموں کی تبدیلیوں کا سلسلہ رک گیا ہے۔ اس کا سبب اگر سیاسی جماعتوں کا کردار نہیں تو پھر اور کیا ہے؟