انسان کو بیک وقت، کئی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ وہ بیماریاں نہیں کہ جن کا علاج ڈاکٹر اور طبیب کرتے ہیں۔ بلکہ وہ امراض، جن کی کچھ نہ کچھ جھپٹ سے، بظاہر بھلے چنگے لوگ نہیں بچ پاتے! مثلا، حسد بیماری ہے دل کی۔ اس کا علاج، جو اردو کے شاعر نے تجویز کیا ہے، وہ بھی سْن لیجیے۔ حسد سے دِل اگر افسردہ ہے گرم ِتماشا ہو کہ چشم ِتنگ شاید کثرت ِنظارہ سے وا ہو یعنی دنیا کے احوال پر نظر کرنے سے، یا تو یہ کھْل جائے گا کہ محْسود کو ملی ہوئی نعمتیں یا اْس کا کمال بے وجہ نہیں۔ یا پھر یہ کہ ان بظاہر نعمتوں کے ساتھ بہت سے آزار بھی لگے دیکھ لو گے۔ لیکن مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ علاج ناقص ہی نہیں اکثر مرض کو بڑھا دینے والا ہے۔ حسد کا مبتلا صرف وہ کچھ دیکھتا ہے، جو حسد دکھاتا ہے! شیخ ِشیراز بجا کہتے ہیں کہ الا تا نخواہی، بلا بر حسود کہ آن بخت ِبرگشتہ، خود در بلا ست مطلب یہ کہ حاسد کا بْرا بھی ہرگز نہ چاہو۔ اس لیے کہ وہ بدبخت، پہلے ہی دم بدم حسد کی آگ میں جَل رہا ہے! اسی طرح، نفس کا بگاڑ، انا یا کِبر ہے۔ غرور، چادر ہے خْدا کی، سو اس کا انجام بھی معلوم! دماغ کا عارضہ، عقل پرستی ہے۔ اس کے مظاہر سے، فلسفے کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ عقل کو جس مقام پر اپنے عَجز اور حیرت کا اعتراف کرنا تھا، اسے "بعید از عقل" کہہ کر رد کرتی رہی۔ زیادہ تفصیل میں کیا پڑیے۔ مختصراًفلسفے کی تاریخ متاثر کرنے سے زیادہ ہنسنے اور اس سے زیادہ افسوس کا محل ہے! آج کا مْسلّمہ کَل مردود ٹھہرتا ہے اور کَل کا نکتہ، پرسوں بیکار نکلتا ہے۔ بقول ِاکبر فلسفی تجربہ کرتا تھا ہوا میں رخصت مجھ سے کہنے لگا کہ آپ کدھر جاتے ہیں؟ کہہ دیا میں نے "ہوا تجربہ مجھ کو تو یہی" تجربہ ہو نہیں پاتا ہے کہ مر جاتے ہیں یہ سارے امراض اور روگ، آپ نے سْن لیے؟ سوال یہ ہے کہ سیاست کے وبال میں، آدمی پڑتا کیوں ہے اور اس کی کوئی، دوا بھی ہے؟ یہ بیماری، بیک وقت، دِل اور دماغ پر چھاپا مارتی، اور نفس اور ضمیر کو مار رہتی ہے۔ جس شکل میں سیاست آج، دنیا بھر میں مروج ہے، اسے بے ضمیری کا مرادف ہی کہنا چاہیے! جب بھی کسی شخص کے بارے میں سنا کہ وہ بہت اچھا سیاست دان ہے، اپنی نظر سے اس کی قدر اَور گھٹ گئی! یہ کہنا تو درست نہ ہو گا کہ اس میدان میں ایماندار اور با ضمیر انسان قدم دھرتا ہی نہیں۔ مگر ایسوں کا انجام، عبرت ناک ہوا۔ یہاں کامیاب وہی ہوتا ہے، جو، یا اسی سانچے کا ڈھالا ہوا ہو یا خود کو اس کے عین موافق اور مطابق کر لے ع پای ِکج را موزہ ای باییست کج! آخر اچھے بھلے آدمی کویہ سودا ہوتا کیوں ہے؟ کسی کو کیا پڑی ہے کہ زندگی کے ہزار جھمیلوں کو چھوڑ کر، اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے، "قوم کا خادم" بنے؟ اس راہ میں ہزار گالیاں سنے اور بقول ِیوسفی "بے عزتی" خراب کرائے؟ یہ تو ہر اعتبار سے گھاٹے کا سودا ہوا! پچھلے کالم میں، ایک حضرت کا ذکر آیا تھا۔ یہ حقیقت معلوم اور مصدقہ ہے کہ وہ امریکن سفیر کے در ِدولت پر وزارت ِعظمٰی کی درخواست لے کر پہنچے تھے۔ میر کی طرح نہیں کہ صرف ع مجبور ہو کے ناں کا طلبگارواں گیا بلکہ اقتدار کی طلب میں اور اس طور کہ ع جو ایک انچ کا مطلب تو ہاتھ بھر کی دعا اور ایک گز کی تمنائے دولت ِدیدار! مگر صرف انہیں کیوں پْنیے؟ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ مقصد برآری کے لیے، کینیڈی، کلنٹن اور اوباما جیسے، "کامیاب" اور ہر دلعزیز امریکن صدور بھی، اقتدار پانے کے لیے، ہر دروازے پر دستک دیتے رہے اور دیتے رہتے۔ آپ شوق سے اختلاف کیجیے۔ مگر امریکن سیاست کا قبلہ، ہم سے کم ٹیڑھا نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہاں مصلح ہونا، یا عوام کی اصلاح کا دعوٰی کرنا، سب سے بڑا جْرم ہے۔ اس کے برعکس "عوام کی آواز" بننا، سب سے بڑا افتخار اور اعزاز۔ یعنی، کل کو عوام میں تخریب کے آثار، اگر آسمان کو چھْونے لگیں، تو اس تخریب کو روکنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ (حوالے کے لیے دیکھیے "گَن کنٹرول" اور "گَن لابی") بیشتر امریکن، فرینکلن ڈیلانو روزاویلٹ کو، جنہیں ایف ڈی آر کہا جاتا ہے، ابراہام لنکن کے بعد، اپنی تاریخ کا سب سے بہتر صدر گردانتے ہیں۔ دوسری جنگ ِعظیم کے دوران، جب برطانیہ کی حالت پتلی تھی اور چرچل، ایف ڈی آر کو جنگ میں کْودنے پر آمادہ کرنے کے لیے امریکا آئے تھے۔ مرے کو مارے شاہ مدار، ایف ڈی آر نے چرچل پر دباؤ ڈال کر، ایسی شرائط طے کیں کہ عالمی افق پر، برطانیہ غروب ہو گیا اور امریکہ نے اس کی جگہ لے لی۔ انہی دنوں، ایف ڈی آر نے ایک بڑا معرکتہ الآرا خطاب کیا تھا، جس میں دنیا کے ہر انسان کا چار چیزوں پر حق تسلیم کیا گیا تھا۔ اظہار و افکار کی آزادی، اپنے اپنے مذہب پر کاربند رہنے کی سہولت، بھوک سے نجات اور خوف سے چھْٹکارا! یہ جنگ ِعظیم دوم میں شمولیت سے چند روز پہلے کا واقعہ ہے۔ اور کہنا چاہیے کہ عالمی سطح کی یہ آخری معقول بات تھی، جو کسی امریکن صدر نے کہی! اس کے بعد ان چار نکات کی دنیا بھر میں عجیب دْرگت بنا دی گئی۔ آزادی ِاظہار، صرف بدگفتاری اور اور دوسروں کی دل آزاری ہو کر رہ گئی۔ اپنے مذہب پر کاربندی کی سہولت تو کجا، عبادت گاہیں تک محفوظ نہیں رہیں۔ نیوزی لینڈ میں پچاس شہادتوں کا جواب، اب سری لنکا میں دہشت گردی کر کے دیا گیا ہے۔ بھوک پہلے کے مقابلے میں دہ چند ہے اور استحصالی قوتیں مال مست۔ خوف کا عالَم یہ ہے کہ آدمی اپنے سائے سے بھی بھڑک جاتا ہے۔ سیاستدانوں کی نہیں، دنیا کو مصلحین کی ضرورت ہے! یہ الگ بات کہ رنگ ِمحفل دیکھ کر وہ خود اپنی عزت بچاتے پھرتے ہیں۔ اور حال ان کا یہ ہے کہ ع چپ لگی ایسی کہ خود ہو گئے زنداں اپنا