الیکشن کا موسم آتے ہی سیاستدان گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں ایک اقتدار سے دوسرے اقتدار کے حصول کے درمیان یہ مرحلہ رہ گزر سیاستدانوں پر کڑا آتا ہے اور بقول امید فاضلی ؎ اک ایسا مرحلہ رہ گزر بھی آتا ہے کوئی فصیل انا سے اتر بھی آتا ہے اور یہ کڑا مرحلہ رہ گزر الیکشن کی مہم ہے جس کے دوران برانڈڈ سوٹ پہننے والے امریکہ لندن کی علاج گاہوں سے اپنی بیماریوں کا علاج کروانے والے پاکستان کو اپنے مفاد کی چراہ گاہ سمجھنے والے اربوں کھربوں کے اثاثوں کے مالک یہ امیر زادے عرصہ اقتدار کے دوران ایسے غریب غربا کو اپنے قریب پھٹکنے کی اجازت نہ دینے والے یہ اداکار لجاجت کا چولا پہن کر ووٹروں کی مسائل سے اٹی بستیوں میں جاتے ہیں اور ایک بار پھر ووٹروں کو یقین دہانی کرواتے ہیں کہ بس اس بار اقتدار کے محلات میں بھیج دیں تو آپ کی ٹوٹی سڑکیں بند سیوریج اور صاف پانی کے مسائل حل کر دیں گے۔ برسوں سے یہی ڈرامہ ہم دیکھتے آئے ہیں۔ ووٹرز بوجوہ انہی سیاسی اداروں کو پھر سے ووٹ دے کر اقتدار کے تاج و تخت پر بٹھاتے ہیں اور پھر اگلے پانچ سال تک ان کی راہ تکتے رہتے ہیں۔ لیکن اس بار منظر کچھ تبدیل شدہ ہے۔منظر میں تبدیلی ووٹر کے ردعمل کی وجہ سے ہے۔ اداکار مفاد پرست سیاستدان تو ووٹ لینے کے لیے وہی پرانے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ لجاجت کے لبادے خدمت کے جھوٹے دعوے ووٹروں کے ساتھ ہمدردی اور درد مندی کے اظہار کی پرانی گھسی پٹی اداکاری لیکن شاید ووٹر اب کئی بار کے دیکھے ہوئے اس فلاپ ڈرامے سے اکتا چکے ہیں۔ ووٹ مانگنے کے لیے اور ایک نئے عرصہ اقتدار کے حصول کیلئے ان کی ٹوٹی پھوٹی گلیوں کا چکر لگانے والے سیاستدانوں کو ووٹرز آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ یہ منظر ۔ یہ تبدیل شدہ منظر اس الیکشن مہم میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ معاشرے میں دولت ‘سٹیٹس‘اثرورسوخ اور اختیار و اقتدار کی طاقت رکھنے والے مفاد پرستوں کے سامنے جس طرح تہی کسیہ ‘کم وسیلہ بے نام بے اختیار عام لوگ بول رہے ہیں۔! سوال اٹھا رہے ہیں۔ کھری کھری سنا رہے ہیں۔ بے اختیار منیر نیازی کا یہ باکمال شعر یاد آتا ہے ؎ ادب کی بات ہے ورنہ منیر سوچو تو جو شخص سنتا ہے وہ بول بھی تو سکتا ہے اور اس تعفن زدہ سیاسی منظر میں یہ منظر امید کی ایک کرن ہے۔ تبدیلی کی طرف پہلا قدم ہے۔ کہ جھوٹے خوابوں اور کبھی نہ وفا ہونے والے وعدوں سے لبریز لمبی لمبی تقریریں خاموشی سے سننے والے اب بول رہے ہیں یعنی جو شخص سنتا ہے وہ بول بھی تو سکتا ہے۔اسی لیے جب فاروق ستار شلوار قمیض پہنے‘ سر پر ٹوپی جمائے کھارادر میں اپنے حلقے کا دورہ کرتے ہیں تو انہیں مزاحمت اور ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ منظر سب نے دیکھا کہ میمن مسجد میں نماز پڑھنے کے بعدفاروق ستار جب اپنے مخصوص لجاجت بھرے لہجے میں سر ہلاتے ہوئے ووٹروں سے ایک بار پھر ووٹوں کے طلب گار نظر آتے ہیں تو ایک باریش بہادر ووٹر باآواز بلند وہ کھری کھری سناتا ہے کہ فاروق ستار کو کوئی جواب نہیں بن پڑتا ہے سوائے اس کے کہ اس بار آپ ہم پر اعتبار کریں ہم اپنی غلطیوں کا ازالہ کریں گے۔ ووٹر برہم ہے اور کہتا ہے جائو خدا سے معافی مانگو! توبہ کرو۔ تمہارا بہت برا حشر ہونے والا ہے تم لوگ اسلحے کے زور پر بیس سال سے کھالیں چھین رہے ہو خود مجھ سے بہادر آباد میں بندوق کی نوک پر کھال چھینی گئی۔‘‘ فاروق ستار جس جماعت کے نمائندے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے کراچی کے سیاہ و سفید کی مالک رہی ہے۔ اس جماعت نے کراچی جیسے میٹرو پولیٹن شہر پر خوف سہم‘ موت اور وحشت اس طرح طاری کیے رکھی کہ گھروں سے باہر جانے والوں کو یقین نہ ہوتا کہ وہ گھر واپس آئیں گے کہ کسی نامعلوم کی اندھی گولی کا نشانہ بن کر لاوارث لاش کی صورت شہر کی کسی گلی میں پڑے ہوں گے۔ روشنیوں کے شہر میں وحشت کے اندھیرے چھائے رہے پاکستان کا یہ سب سے بڑا شہر اب اس حال میں ہے کہ لوگ پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ ووٹر کی جانب سے سوال کرنے اور مزاحمت کا یہ ردعمل بہت پہلے آتا تو شاید حالات یہاں تک نہ پہنچتے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی جب اپنے آبائی شہر مری میں جاتے ہیں تو لوگ گو نواز گو اور گو شاہد خاقان گو کے نعرے لگاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے خرم شیر زمان اپنے حلقے کا دورہ کرتے ہیں تو انہیں آپ جناب کہنے والے ووٹروں کی بجائے سخت سوال کرنے والے باشعور ووٹروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ خرم مہتاب عباسی اپنے حلقے کا دورہ کرتے ہیں تو ووٹروں کی صورت بپھرے ہوئے ایک ہجوم کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ گاڑی سے باہر نکلنے کی جرات نہیں کر پاتے۔ اس ساری صورت پر معروف شاعر عرفان صادق کے یہ اشعار کس قدر صادق آتے ہیں جو کل ہی فیس بک پر میری نظر سے گزرے تو خیال آیا کہ یہ تازہ اشعار شاید عرفان صادق نے اسی پس منظر میں کہے ہیں۔ ؎ غلام ذہنوں کی نیت بدلنے والی ہے ہر ایک اب تو روایت بدلنے والی ہے امیر شہر بھی محبوس ہونے والا ہے غریب شہر کی قسمت بدلنے والی ہے ہوا کے شور میں چلنا ہے ان چراغوں کو شب سیاہ کی صورت بدلنے والی ہے شاعر اور لکھاری انصاف اور مساوات پر مبنی ایک خوب صورت معاشرے کے خواب دیکھتا ہے اور اپنے اسی تصور کو شعروں میں بنتا ہے۔ لیکن ایک سیاسی تجزیہ کار کا سوال یہ ہے کہ کیا ووٹر کا یہ بدلا ہوا ردعمل الیکشن 2018ء کے نتائج پر بھی اثر ڈالے گا؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ سیاستدانوں کی بری کارکردگی پر سوال اٹھانے والے یہ ووٹرز پاکستان کے شہری علاقوں سے ہیں۔ جہاں تعلیم اور شعور کی سطح نسبتاً بہتر ہوتی ہے۔ کیا پاکستان کے دور دراز قصبوں‘ گوٹھوں ‘ گائوں دیہاتوں اور بستیوں میں رہنے والے ووٹرز جو نسل در نسل مسائل کی آماجگاہ میں اپنی زندگیاں بسر کرتے رہتے ہیں۔ کیا وہ بھی ان عوامی نمائندوں کے سامنے ایسا ہی ردعمل ظاہر کریں گے۔ کیا یہ ووٹرز بھی سوال اٹھائیں گے کہ تم نے ہمارے لیے کیا کیا۔؟ اور آخری بات یہ کہ ہم جس تبدیلی کے مدت سے منتظر ہیں وہ اپنے قدم اس سماج میں تبھی رکھے گی جب ووٹر اپنے ووٹ کی قدر کو پہچانے گا۔ وہ سوال کرے گا ان سیاسی اداکاروں سے اپنے اقتدار و اختیار کی خاطر برسوں اس کا استحصال کرتے رہے ہیں۔