خواجہ غلام قطب الدین فریدی عہدِحاضر میں قافلۂ تصوّف و طریقت کے سُرخیل اور کاروان ِ محبت و اخوّت کے علمبردار ہیں ، حالیہ ایّام میں ملک کی مجموعی صور تحال پر فکر مند ہو کر ، انہوں نے اپنے آستاں، واقعِ خدا بخش کالونی نزد لاہور ایئرپورٹ پر ، دردِ دل رکھنے والے مشائخ و سجادگان کو یکجاکرکے، زعمأ سیاست و ریاست اور اعیانِ معاشرت و حکومت سے اپیل کی کہ ملک دھرنوں اور پکڑ دھکڑ کا متحمل نہیں ہوسکتا، ملکی استحکام اور قومی یکجہتی کے تقاضوں کے پیش نظر افہا م وتفہیم اور مکالمے و مذاکرے کا راستہ اختیار کیا جائے ، مشائخ و سجادگان و سادات کرام نے اس موقع پر بڑی دلسوزی سے یہ اپیل کی کہ ملک کو درپیش معاشی چیلنجز انتہائی سنگین ہیں، ایسی صورتحال میں، باہم یکجا ہوکر اقتصادی ترقی اور دفاع وطن کے تقاضوں سے عہدہ برأ ہونا ، وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ، دریں اثنا مفتی اعظم ِ پاکستان مفتی منیب الرحمن نے بھی تمام اہل پاکستان سے اپنے ایک پیغام کے ذریعے درد مندانہ اپیل کی کہ پاکستان میں امن، سلامتی اور عافیت کے لیے دعا کریں ، یہ پیارا وطن قائم و دائم رہے ، سلامت رہے اور ترقی کی منزلیں طے کرتا رہے ، یہ سیاستدانوں کی اَنا کی بھینٹ نہ چڑھے۔ متقدر ہ سے اپیل ہے :ـ’’ پاکستان کے امن کو سب پر مقدم رکھیں‘‘، اعلیٰ عدلیہ سے اپیل ہے :’’جوڈیشل ایکٹیوازم اور آئیڈیل ازم پر پاکستان کے امن اور آئینی تسلسل کو ترجیح دیں، سب کے مناصبِ عالیہ اسی وطنِ عزیزی کی مرہوںِ منّت ہیں‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ اپیل ، اعلان اور اعلامیہ محض خانقاہ نشینوں اور مزارات کے متولیوں کا ہی نہیں اور نہ ہی صرف کسی مسند دعوت و ارشاد کے وارث کا ہے ، بلکہ ہر دردِ دل رکھنے والے پاکستا نی کا ہے ، گذشتہ دو روز سے ، ارضِ پاک میں جس طرح کے جنگی مناظر دیکھنے میں آر ہے ہیں ، اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی سیاسی احتجاج نہیں بلکہ جنگی نوعیت کی یلغار ہے ۔ نظام ِ زندگی مفلوج، کاروبار حیات معطل ، سرکاری دفاتر میں حاضری معدوم اور تعلیمی اداروں میں تعطیلات کا راج ہے ۔ وفاقی کابینہ نے عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تحریکِ انصاف کے اس لانگ مارچ کو بہر صورت روکنے یا محدود رکھنے اور عمران خان حقیقی آزادی کے نعرے کے ساتھ ، اپنے کاررواں کا بہر طور ڈی چوک تک لیجانے کے لیے پرُ عزم رہے تاہم گذشتہ روز چھ یوم کے الٹی میٹم کے ساتھ ،اس کو موخر کر گئے۔ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں یہ تاریخ ہر چند سال یا کچھ ماہ کے بعد دھرائی جاتی بلکہ کچھ آگے بڑھائی جاتی ہے ، اے کاش ! کبھی کوئی ایسا لانگ مارچ بھی ہو، جس میں شہریوں کے جان و مال کی حفاظت یقینی رہے، آئین و قانون کی بالا دستی کا پرچم سر بلندہو ۔ روک ٹوک اور تصادم و تحارب کے بغیر ، مظاہر ین آگے بڑھیں اور روز مرہ کی زندگی اور معمولات حیات، منفی اثرات سے محفوظ رہے ، لیکن اس مرتبہ تو صورتحال اس قدر سنگین ، تلخ اور پُر خطر ہوئی کہ ایسے موقعوں پر ہونے والے رسمی رابطے، جس سے انتظامیہ اور منتظمین جلوس و مارچ ، جس کے درمیان رابطے کے نتیجے میں کچھ ضروری امور طے ہوجاتے تھے ، وہ بھی نہ ہوسکے ۔ اور تو اور سپریم کورٹ کے احکام کے باوجود فریقین کے درمیان مذاکرات نہ ہوسکے ۔ جب پی ٹی آئی کی ٹیم چیف کمشنر اسلام آباد کے آفس پہنچی تو ابھی حکومتی ٹیم راستے میں تھی ، جب حکومتی ٹیم پہنچی تو پی ٹی آئی ٹیم مختصر انتظار کے بعد ، وہاں سے روانہ ہوچکی تھی ، حالانکہ ایسے موقعوں پر ، ہر نوع کی قیادت سے وسعت ، حوصلہ اور اعلیٰ ظرفی کی توقع ہوتی ہے ، سوسائٹی میں تقسیم در تقسیم کا عمل جاری ہے ، ایک گھر اور خاندان کے اندر کئی دھڑے اور گروہ جنم لے رہے ہیں ، انارکی ، انتشار ، فساد فتنہ گری ، فاشزم-نہ جانے کیا کیا الزامات والقابات ایک دوسرے پر دھرے جارہے ہیں۔ ان حالات میں صوفیاء کی فکر کے امین ، اولیاء کی میراث کے وارث اور علومِ قرآن و سنت کے مدعی، ایسے انتہا پسندانہ روّیوں کی بیخ کنی کے لیے صدائے امن و محبت کو بلند کرنے کے درپے ہو ئے ہیں اور انہیں یقینا ایسا کرنا بھی چاہیے کہ وہ ان عظیم ہستیوں کے جانشین اور ان اہم دینی اور روحانی مراکز کے امین ہیں ، جہاں سے ہمیشہ امن، محبت ، رواداری ، انسان دوستی ، اخوت و بھائی چارے کی صدا بلند ہوئی۔ جنہوں نے ملکی دفاع اور قومی استحکام کے تقاضون کو خون کے نذرانے دے کر نبھایا ۔ اس بر صغیر میں اسلام جن کے بزرگوں کی طفیل پہنچا اور جنہوں نے اپنی زندگیوںکو اس کی ترویج اور تبلیغ کے لیے وقف کیا ۔ جس کے سبب دنیا کا ایک عظیم سماجی انقلاب اس خطے میں برپا ہوا اور ظلمت و کفر کی اس آما جگاہ میں اسلام اور قرآن کا بول بالا ہوا، اور بالآخراللہ تعالیٰ نے پاکستان جیسی دولت اور نعمت سے مسلمانوں کو سرفراز کیا۔ قائداعظم کا یہ فرمان کس قدر بلیغ اور حکمت آمیز تھا ، جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان تو اس دن ہی معرض ِ وجود میں آگیا تھا جس دن اس خطے کا کوئی پہلا فرد کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوا، انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ جس دن کوئی پہلا کلمہ گو اس خطے میں وارد ہوا، بلکہ اصل تبدیلی کا عمل مقامی باشندے کے کلمے پڑھنے سے شروع ہوا ، اور یہ بھی بہت بڑی تاریخی حقیقت ہے کہ یہاں کے مقامی باشندے اپنے دین ، دھرم ، عقیدے اور رواج میں ا س قدر پختہ اور پکے تھے کہ ان کے ہاں عقیدے اور مذہب کی تبدیلی ایک ناممکن ساعمل تھی، صدیاں بیت گئیں، ایک خاص ڈگر پر انہیں چلتے ہوئے۔ یہ تو عظیم کارنامہ ہے، ان صوفیأ کا ، جن کے طرزِ زیست اور اسلوب حیات کو دیکھ کر ہی یہ لوگ ان کے گرویدہ ہوگئے -اور صوفیأ نے رواداری اور امن و محبت کے ذریعے مقامی سوسائٹی کو متاثر کیا ۔ حضرت داتا گنج بخشؒ نے آج سے ایک ہزار سال قبل ، جب بھاٹی دروازے کے باہر ، دریا ئے راوی کے کنارے اپنا ڈیرہ جمایا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کا ہجوم آپؒ کے گرد اکٹھا ہوگیا۔ یہیں پر آپؒ نے مسجد تعمیر کی ، اپنی خانقاہ و درسگاہ کی بنیادرکھی ، تو آپؒ کے معتقدین اور متوسلین کی خواہش ہوئی کہ اب ’’بھاٹی دروازے‘‘کا نام تبدیل کر کے ، اس کو آپؒ کے نام ِ نامی سے منسوب کرتے ہوئے اس کا نام "ہجویری دروازہ" رکھ دینا چاہیے ۔ لوگ یہ درخواست اور تجویز لے کر آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ لیکن آپؒ نے اس امر سے اتفاق نہ فرمایا کہ بھاٹی دروازہ کی وجہ تسمیہ مقامی بھٹی قوم کا، اس قریے میں صدیوں کا قیام تھا ، آپؒ نے فرمایا ، نام کی اس تبدیلی سے لوکل کمیونٹی کی دل آزاری ہوگی اور پھر وہ پہلے سے مقیم ہیں ، اور اس نسبت کا ان کی طرف برقرار رہنا ان کے لیے اطمینان کا باعث ہے ۔ یہ ہے وہ ظرف اور وسعت ، جو اس خطے میں اسلام کی ترویج کا ذریعہ بنا۔ دوسروں کو برداشت کرنا ، ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا ، ان کی خودمختار ی کا احترام کرنا ، ان کے وجود کو تسلیم کرنا ، ان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دینا ۔ اسی سے سوسائٹی اور معاشرہ جنت نظیر بنتا، قومیں ترقی کرتیں ، ملک مضبوط ہوتے ہیں۔ آج وطن ِ عزیز کو بھی ایسے ہی مزاج اور انداز اپنانے اور اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔