آج کل کی نئی نسل کے مشاہدے میں یہ چیزیں نہیں آ سکیں، مگر ہم نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں والدہ محترمہ اور دیگر بزرگ خواتین کو بچوں کے لئے سوئیٹر وغیرہ بنتے دیکھا۔ اس زمانے میں ریڈی میڈ گارمنٹس زیادہ عام نہیں تھے۔نوزائیدہ اور ننھے بچو ں کے لئے موزے، سوئیٹر وغیرہ بنانے کا رواج آج بھی کسی حد تک ہے، مگر بڑے لڑکوں اور مردوں کے لئے گھر میں سوئیٹر کوئی نہیں بناتا اور نہ ہی اون کے گولے عام نظر آتے ہیں۔ ہمارے بچپن میں سردیوں کی دھوپ سینکتے ہوئے خواتین اکثر ہاتھ میں سلائیاں پکڑے نٹنگ (Knitting) کرتے نظر آتیں۔ اون کے گولے جن سے یہ سوئیٹر بُنے جاتے ، اکثر الجھ جاتے۔ پالتوبلیاں اکثر یہ کام کرتیں، گولے سے کھیلتے ہوئے وہ اسے بری طرح الجھا دیتیں، ایسے میں بزرگ خواتین کی طرف سے بچوں کو حکم ملتا کہ اس گولے کو سلجھائو۔ بچے گولے کا ایک سرا پکڑ کر صحن میں دور والی دیوار تک جاتے اور یوں اسے دوبارہ سے لپیٹ کر قابل استعمال بنایا جاتا۔ پتنگ کی ڈور کا بھی یہی حشر ہوتا۔ مجھے پتنگ اڑانے اور ڈوروں وغیرہ سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں تھی، بڑے بھائی کو البتہ اس کا جنون تھا۔والد مرحوم اس بارے میں سخت تھے، بہت بارموصوف کی پٹائی ہوئی، مگر پتنگ اڑانے سے کبھی باز نہیںآئے ۔برسوں بعد میں جب لاہور آنا ہوا تو معلوم ہوا کہ یہاں بسنت فروری میں ہوتی ہے اور پتنگیں اڑانے کا موسم سردیوں میں ہے۔ ہمارے ہاں(ملتان ، بہاولپور) گرمیوں کی دوپہریں اس مقصد کے لئے صرف کی جاتیں۔ لڑکے والدین کی ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود آنکھ بچا کر کسی نہ کسی طرح چھت پر چڑھ جاتے اور گرمی سے بے نیاز پتنگیں اڑاتے۔مئی جون میں ہوائیں اور کبھی آندھی چلتی،یہ گرم ہوائیں پتنگ اڑانے میں مددگار ثابت ہوتیں۔ پتنگ کی ڈور جسے مانجھا کہتے تھے، بنانے کا بھی ان دنوں بڑا رواج تھا۔ لڑکے زبیدہ آپا کی کسی خاص ریسیپی کی طرح اپنے اپنے نسخوں کو پوشدہ رکھتے اور بڑی محنت سے مانجھا لگاتے ، بعد میںڈور کی کاٹ پر فخر کیا جاتا۔ ان مانجھوں کو بڑے سلیقے اور قرینے کے ساتھ ڈور کی چرخیوں پر لپیٹا جاتا ۔ ان تمام ’’دھندوں‘‘ میںالجھی ڈور کو سلجھانا ایک فن کی حیثیت رکھتا تھا، ماہرین فن یوں سلیقے سے اسے سیدھا کرتے کہ کہیں سے ٹوٹتی نہ گرہ پڑتی۔ آج کل ہماری سیاست بھی یوں الجھی نظر آ رہی ہے کہ مجھے اپنے بچپن کے یہ تمام واقعات یاد آرہے ہیں۔ بری طرح الجھی ہوئی اون کا گولہ یا بے ترتیب انداز میں لپیٹی ڈور کی چرخی۔ مصیبت یہ ہے کہ اس الجھی سیاست کی گرہیں کھولنا کوئی نہیں چاہتا، ہر ایک کی یہی خواہش ہے کہ یہ مزید الجھ جائے۔ ہمارا میڈیا خبر اور گرما گرمی کا بھوکا ہے، وہ نان ایشوز کو ایشو بنا دینے کا ماہر ہے جبکہ سوشل میڈیا کے حوالے سے اب یہ طے ہوچکا کہ وہاں کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہوسکتی اور گفتگو جیسے بھی کی جائے، اس میں ایک خاص انداز کی سطحیت لازمی ہے۔ لائیکس اور کمنٹس کی خواہش یار لوگوں کو متنازع ایشوز پر تحریریں لکھنے پر اکساتی ہے ۔ بعض اوقات تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ لکھنے والے کو اپنی تحریر کے کچے پن اور ناپختگی کا اندازہ ہے ، مگر جوش جذبات میں وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اسی طرح فیک نیوز اور ویڈیوز کو دھڑادھڑ شیئر کر دیا جائے گا۔ اس میں کسی سیاسی جماعت کی تفریق نہیں۔ ہر طرف کے لوگ یہی کر رہے ہیں۔ نقصان یہ ہو رہا ہے کہ ہر طرف ڈس انفارمیشن کا گردوغبار پھیلا ہے۔ سیاسی ماحول مزید مکدر اور پریشان کن بن گیا۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ ہر الیکشن میں کچھ لوگ نااہل ہوجاتے ہیں، ان میں مرکزی قائدین شامل ہیں ، مزے کی بات ہے کہ مختلف لیڈروں کے کاغذات نامزدگی کو مختلف حلقوں میں الگ الگ انداز سے لیا جاتا ہے۔ شاید اس معاملے میں ریٹرننگ آفیسر کے صوابدیدی اختیارات زیادہ ہیں یا کوئی اور قانونی نکتہ کہ ایک جگہ پر کسی کے کاغذ منظور ہوجاتے تو کسی دوسرے ضلع میں مسترد کر دئیے جاتے ہیں۔ چیلنج کر نے سے بیشتر بلکہ تقریباً پچانوے، ستانوے فیصد کیسز میں الیکشن لڑنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ کیس اعلیٰ عدالتوں میں چلتا رہتا ہے اور بعد میں فیصلہ خلاف آ گیا تو ضمنی انتخابات ہوگئے۔ اسی روٹین میں شاہد خاقان عباسی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے تو گویا ملک میں طوفان آ گیا۔ ن لیگی کارکنوں کے ساتھ ان کے حامی لکھاری تلملا اٹھے، مریم نواز نے ٹویٹ کیا کہ ایک ہی بار پوری ن لیگ کو نااہل کر دیا جائے ۔ بہت سے سنجیدہ مسلم لیگ حامیوںنے بھی اسی انداز کو فالو کیا۔حیرت سے یہ سب ہم دیکھتے رہے کہ بھائی نااہل تو پی ٹی آئی کے بھی بہت سے لوگ ہو رہے ہیں،صرف ن لیگ کے حق میں یہ مہم کیوں؟وہی ہوا کہ دو دن بعد شاہد خاقان عباسی عدالت سے مسکراتے ہوئے الیکشن لڑنے کا اجازت نامہ لئے باہر نکل رہے تھے۔ یہ ویسے عجب تماشا ہے کہ کوئی عدالتی فیصلہ ن لیگ کے حق میں جائے تو وہ میرٹ پر ہے، خلاف ہو تو سازش ہے۔عمران خان اہل تو سازش ہے، جہانگیر ترین نااہل تو یہ میرٹ پر فیصلہ ہوا۔ شیخ رشید اہل تو سازش ہوئی، خواجہ آصف کی نااہلی ختم تو میرٹ پر فیصلہ ہوا۔فواد چودھری نااہل تو اچھا فیصلہ ہوا، شاہد خاقان عباسی نااہل تو ظلم ہوگیا، سازش ہوگئی۔ فواد چودھری کو اجازت مل گئی تو زیادتی ہوئی، ظلم ہوا، شاہد خاقان عباسی اورکسی دوسرے ن لیگ والے کی نااہلی ختم ہوئی تو یہ میرٹ پر فیصلہ، ان کا حق بنتا تھا…۔ میٹھا میٹھا ہپ ، کڑوا کڑوا تھو والا محاورہ فٹ آتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے خلائی مخلوق کے قصے سن رہے تھے۔ میاں نواز شریف نے یہ اصطلاح استعمال کی، سوچے سمجھے بغیر کہ خلائی مخلوق کا تصور ہی من گھڑت اور جھوٹا ثابت ہوچکا ہے۔ غیبی مخلوق اگر کہتے تو کچھ منطق تھی کہ بھلے سے سائنس ابھی تسلیم کر رہی ہے یا نہیں، مگر ہم مسلمان تو غیبی مخلوق کے قائل ہیں۔اب تین دن سے’’ محکمہ زراعت ‘‘کی بھد اڑائی جا رہی ہے۔ بھیا سچی بات ہے ،اپنے صحافتی سفر میں یہ سب باتیں ہر بار سنتے رہے ہیں، سائیڈز بدل جاتی ہیں۔نوے کے عشرے میں پیپلزپارٹی والے جب ہارنے لگتے تو ہمیشہ عدالتی چمک، اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ اور اسی قسم کی غیبی مخلوق کی طرف اشارہ کرتے۔ اس وقت ن لیگ والے جیالوں کی باتوں کا مذاق اڑاتے اور انہیں اپنی شکست تسلیم کرنے کا مشورہ دیتے۔ مشرف دور میں جب ن لیگ تتر بتر ہوگئی تھی، یہ باتیں ن لیگ کہا کرتی۔ پیپلزپارٹی نے تو دو ہزار دو کے الیکشن میں بھی ن لیگ سے زیادہ نشستیں چھین لیں اور پرویز مشرف کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔ اس پر تو خلائی، غیبی مخلوق کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح پچھلے الیکشن میں عمران خان نے ہارنے کے بعد واویلا کیااور کبھی جنرل کیانی کی طرف اشارہ کیا، کبھی کسی اور کی طرف اشارہ کیا، کبھی سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کو صلواتیں سنائیں۔ سچ تو یہ ہے کہ خان صاحب کی اپنی تیاری ہی پوری نہیں تھی، کم وبیش وہی نتیجہ نکلنا تھا۔ اگر اس وقت عمران خان سچے ہوتے تو آج اپنے پرانے امیدواروں کومحروم کر کے بقول ان کے ’’الیکشن سائنس ‘‘سے واقف لوگوں کو ٹکٹ کیوں دیتے ؟ن لیگ والوں کو سمجھنا چاہیے کہ تھوڑا بہت ہر الیکشن میں ہوتا ہی ہے، پاکستانی سٹائل کی سیاست میں یہ روٹین ہے۔ عوامی قوت رکھنے والے جماعت کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اگر حلقے میں پوزیشن مضبوط ہو تو کوئی امیدوار نہیں بیٹھتا اور نہ ہی گھوڑا تبدیل کرتا ہے۔ غور سے حلقوں کا جائزہ لیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ جہاں ن لیگ کا ووٹ بینک مضبوط اور جڑا ہوا تھا، وہاں ان کے امیدوار نہیں ٹوٹے۔ لاہور میں ڈینٹ نہیں پڑا، گوجرانوالہ میں ٹھیس نہیں پہنچی، شیخوپورہ اور کئی دیگر شہروں میں پوزیشن اچھی رہی۔ لوگ وہاں ٹوٹے جہاں ن کا ووٹ بینک کمزور تھا،ارکان اسمبلی اپنے زور سے جیتے تھے یا پھر ان چند حلقوں میں ایسا ہواجہاں ن کی پوزیشن بہت کمزور تھی اور امیدواروں کو پی ٹی آئی کی لہر درکار تھی۔ یہی حال خیبر پختون خوا میں ہوا۔ جہاں جہاں کوئی پارٹی مضبوط تھی، اس کے امیدوار اس سے جڑے رہے ۔ رہی بات جیپ کے نشان کی تو اس کے قوی امکانات ہیں کہ جیپ کا نشان لے کر خوش فہمی میں مبتلا ہونے والے پچیس جولائی کی شام منہ لٹکائے نظر آئیں۔ اکثر ایسی نشستوں پر پی ٹی آئی کے امیدوار مضبوط پوزیشن میں ہیں، اگر واقعی نادیدہ قوتیں پی ٹی آئی کے حق میں ہیں تو وہاں پھر جیپ والوں کو کامیابی کیسے ملے گی؟کل سے ایک اور خبر اڑائی گئی کہ نئے صدر آصف زرداری ہوں گے۔ا س کا مقصد بھی عمران کونقصان پہنچانا ہے۔ پہلی بات ہے کہ قبلہ ممنون حسین نے صدر کا عہدہ اتنا بے اعتبار، کمزور اورغیر اہم بنا دیا ہے کہ کوئی بھی بڑا لیڈر اب صدر بن کرجگتوں کا نشانہ نہیں بننا چاہے گا۔ دوسری بات کہ عمران خان جس نے زرداری کو مسلسل ہدف بنائے رکھا، وہ انہیں صدارت تک کیوں پہنچائے گا؟یہ وہ ڈس انفارمیشن کی لہریں ہیں جو مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں۔ سیاست کی اون والا گولہ انہوں نے اس قدر الجھا دیا ہے کہ سامنے کی باتیں سمجھ نہیں آ رہیں۔ شائدڈس انفارمیشن مہم کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے۔