16نومبر کو دنیا بھر میں برداشت اور رواداری کا دن منایا گیا۔ دن منانے کا شوق ہمیں بھی بہت ہے۔ کتاب کا دن‘ استاد کا دن‘ ذہنی صحت کا دن‘ برداشت اور رواداری کا دن۔ ہم برسوں کے طے کئے ہوئے گھسے پٹے طریقوں سے ایسے دن مناتے ہیں اور اگلے روز بھول بھال کر دوبارہ سے اپنی پرانی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ویسے دن اسی چیز کا منایا جاتا ہے جس کو عام زندگی میں ہم فراموش کئے بیٹھے ہوں۔ مثلاً یہی دیکھ لیں کہ ہم سلام استاد ڈے بڑے ذوق و شوق سے مناتے ہیں۔ مگر حقیقت میں استاد کے ساتھ اس نظام اور سماج کا رویہ کیسا ہے کسی سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ دوسرے تمام پرکشش شعبوں میں جب قسمت یاوری نہ کرے تو ہمارے ہاں نوکری کرنے کا صرف ایک ہی آپشن بچتا ہے اور وہ ہے ٹیچنگ ۔ پڑھانا۔ اگرچہ استثنیٰ بھی موجود ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو معروف معنوں میں پرکشش شعبے چھوڑ کر استاد بننا پسند کرتے ہیں، ایسے عظیم اساتذہ کی خدمت میں ہمارا بھی سلام پہنچے۔ بات تو برداشت اور رواداری کے عالمی دن سے شروع ہوئی تھی، واپس اسی پر آتے ہیں۔ ای ایم فاسٹرجس نے passage to indiaلکھی۔ اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ دنیا میں ہمیں سب سے زیادہ ضرورت محبت کی نہیں بلکہ برداشت کی ہے۔ اس لئے کہ محبت ہم صرف اپنے پسندیدہ لوگوں سے ہی کر سکتے ہیں۔ سب سے محبت نہیں کی جا سکتی لیکن ہاں ہم ناپسندیدہ لوگوں، مخالف نظریات والے افراد کو برداشت تو کر سکتے ہیں۔ تعلیم اگر برداشت نہیں سکھاتی تو اس کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ The highest result of education is tolerance. ہر سماج برداشت اور رواداری کے رویوں سے ہی خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں سیاسی اور سماجی نظریات سے لے کر مذہبی عقائد اور رسم و رواج تک بے حد تنوع پایا جاتا ہے۔ اس تنوع کو دل سے قبول کرنا ہی رواداری ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ انسانوں میں فطری طور پر ایک دوسرے کے خلاف عدم برداشت کے رویے موجود ہوتے یں۔ ہم اپنی بات، اپنے نظریے، اپنے طور طریقوں کو صحیح اور دوسرے کو غلط سمجھتے ہیں پہلے شاید اظہار کے ذرائع نہیں ہوتے تھے اور اظہار کرنے کا طریقہ بھی سب کو نہیں آتا تھا، سوشل میڈیا کی صورت اب سب کے ہاتھ میں ڈگڈگی آ چکی ہے اور ہر شخص اپنی جگہ یہ ڈگڈگی بجا رہا ہے۔ فیس بک ‘ وٹس ایپ ٹوئٹر تک ہر شخص کی رسائی ہے اور ہر صارف اب اپنے نظریات کا ڈھول بجا رہا ہے۔سوشل میڈیا پر جو تصویر ہمارے سماج کی بنتی ہے اس سے یہ معاشرہ منہ پھٹ‘ بدتہذیب‘ بے حس‘ بدتمیز گالی گلوچ کرنے والے افراد کا معاشرہ دکھائی دیتا ہے۔ حالیہ چند برسوں میں ہونے والی پولیٹیکل پولرائزیشن نے معاشرے کو بدترین طریقے سے تقسیم کر دیا ہے۔ عام افراد جن کا ووٹ ڈالنے کے علاوہ سیاسی عمل میں اور کچھ لینا دینا نہیں‘ اپنے اپنے سیاسی خدائوں کے تلوے چاٹتے ہوئے دوسرے کے سیاسی خدا کو عدم برداشت سے لبریز سوشل میڈیا پوسٹوں کے ذریعے واصل جہنم کرنا چاہتے ہیں۔ عدم برداشت اور سیاست میں اس قدر گالم گلوچ کے کلچر کوایک سیاسی جماعت نے پروان چڑھایا۔ ہمارے حکمرانوں نے نوجوانوں کو برداشت عقل و ہوش اور تہذیب کا درس دینے کی بجائے جنون اور سونامی جیسے منفی الفاظ استعمال کر کے انہیں بدتمیز اورمنہ پھٹ بنا دیا۔ عدم برداشت کا کلچر یہ ہے کہ جو ہم کریں وہ ہمیں جائز ہے جو آپ کریں وہ جمہوریت تو کیا انسانیت کے لئے بھی ایک خطرہ ہے۔ پہلے سیاسی جماعتیں ہوا کرتی تھیں، ایک دوسرے کے نظریات کا احترام تھا لیکن عدم برداشت کے کلچر نے ان سیاسی جماعتوں کو سیاسی قبیلوں میں بدل دیا ہے۔ زمانہ جاہلیت کی طرح اب ان سیاسی قبائل کے مدح خواں اپنے اپنے سیاسی سردار کے قصیدے پڑھتے ہیں مگر صرف اس پرہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ مخالف سیاسی سردار کی ’’ہجو‘‘ پڑھنا تضحیک کرنا۔ اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ نہایت افسوس ہوتا ہے جب میں بظاہر مہذب نظر آنے والے دوست احباب کو میاں نواز شریف کی بیماری کا ٹھٹھہ اڑانے‘ مذاق کرتے طنز اور طعنوں کے تیر برساتی۔ پوسٹیں سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے دیکھتی ہوں۔خدا کے لئے سیاسی نفرت اور سیاسی تعصب کی عینک اتار کر کبھی انسانیت کی عینک پہن کر بھی حالات و واقعات کو دیکھیں۔ نواز شریف کی بیماری کا مذاق اڑانے میں خود حکمران پارٹی بھی پیش پیش نظر آتی ہے۔ ٹھیک کہا تھا کپتان نے حکومت کا سربراہ جو کچھ کرتا ہے اس کے نیچے فالورز وہی رویے‘ وہی طور طریقے اپنا لیتے ہیں۔ عجب بدصورت مشکل میں ڈھلتا ہوا معاشرہ ہے۔ جھوٹ، سیاسی تعصبات ‘ نفرت‘ عدم برداشت کو فروغ دیتا ہوا سچائی‘ رواداری اور برداشت کو اپنے اپنے نظریات اور سیاسی تعصبات کے قبرستان میں دفن کرتاہوا معاشرہ!