مناہل کو عمران خان اور مریم نواز پسند ہیں۔ وہ ابھی سیاسی حوالے سے لوگوں کو نہیں دیکھ سکتی بس شخصیت کا کوئی ایک حصہ بچوں کو متاثر کرتا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ جب آپ بڑی ہو جائو گی تو ان انتخابات کو سیاسی تاریخ کے طور پر پڑھو گی۔ اسی لیے وہ پولنگ سٹیشن ہمارے ساتھ گئی۔ انتخابی نتائج پر درجنوں مبصرین کے تبصرے سامنے آ چکے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ کچھ بڑی واضح اور نمایاں چیزوں کو تبصرہ نگار حسب معمول نظر انداز کر گئے ہیں۔ مثال کے طور پر اس بات پر توجہ ہی نہیں دی گئی کہ پیپلزپارٹی نے بڑی سمجھداری کے ساتھ اگلے الیکشن کے لیے خود کو ایک بہتر انتخاب بنا کر پیش کیا ہے جس کا کریڈٹ اس کے نوجوان چیئرمین کے شائستہ سیاسی اطوار کو دیا جانا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ کے پی کے میں تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی اور اے این پی جیسی سیکولر جماعتوں کا ووٹ ہی نہیں کاٹا بلکہ جمعیت علمائے اسلام کے ووٹروں کی بہت بڑی تعداد بھی تحریک انصاف کو ووٹ دے رہی ہے۔ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے نتائج اس کا ثبوت ہیں۔ تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ بلوچستان میں پہلی بار ایسی سیاسی جماعت نے اکثریت حاصل کی ہے جو کھل کر پاکستان سے محبت کی بات کرتی ہے اور پاکستان کی خاطر لڑنے مرنے پر آمادہ ہے۔ ایک اور قابل توجہ امر پنجاب میں طویل عرصے کے بعد ایک جمہوری عمل کے ذریعے شریف خاندان کی حکمرانی کا خاتمہ ہے۔ پانچواں نکتہ سندھ کے شہری علاقوں میں تحریک انصاف کا دوسری بڑی جماعت بن کر ابھرنا اور زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ حالیہ انتخابات کے دوران جن سیاسی جماعتوں کے امیدوار دہشت گردوں کا ہدف بنے ان میں اے این پی، جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف شامل ہیں۔ فوجی جوانوں نے بھی متعدد شہادتیں دیں لیکن کچھ سیاستدان پھر بھی ان کو گالیاں دیتے رہے۔ فوجیوں کی شہادت، پولنگ سٹیشن پر فوجی اہلکاروں کا حسن انتظام و حسن سلوک ایک الگ موضوع رہا۔ ایک سیاستدان کچھ عرصے سے سر پر بیانیہ نامی گندگی کا ٹوکرا اٹھائے پھر رہا تھا۔ وہ بیانیہ عوام کی عدالت میں پہنچا اور بری طرح دھتکار دیا گیا۔ فوج اور دوسرے سکیورٹی اداروں کو اب نئی سویلین حکومت کے ساتھ چلنا ہے لہٰذا سول ملٹری تعلقات کی پہلے والی شکل منہدم ہو چکی ہے۔ نئے سول ملٹری تعلقات کی صورت گری تحریک انصاف کرے گی۔ تحریک انصاف کے داخلی حلقے اس بات پر خاصے فکر مند ہیں کہ کراچی نے جس طرح توقعات سے بڑھ کر عمران خان کو پذیرائی بخشی ہے اس کا جواب اہل کراچی کے دکھوں میں کس طرح کمی کی صورت میں دیا جائے۔ کراچی کے دائمی امراض میں صاف پانی کی عدم دستیابی، لوڈ شیڈنگ، کچرے کے ڈھیر، سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کے نظام کی تباہ حالی، شہری ماحولیات کا بگاڑ اورسٹریٹ کرائم ہیں۔ یہاں ایسے جرائم پیشہ گروہ ہیں جو ہر اچھے کام میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں، یہاں ایسے سیاسی گروپ ہیں جو کسی دوسرے کو کسی منصوبے کا اعزاز لیتا نہیں دیکھ سکتے۔ یہاں بلدیہ، واٹر بورڈ، پورٹ اینڈ شپنگ، کسٹمز میں ایسے اہلکار موجود ہیں جنہیں ہڈحرامی کی عادت پڑ چکی ہے۔ کراچی فلم اور ڈرامہ کا مرکز بن چکا ہے مگر نوجوانوں کے لیے کھیلوں کے میدان نہیں۔ یہاں مقامی درختوں کی شجرکاری نہ ہونے کے باعث حالیہ موسم گرما میں ہیٹ سٹروک نے زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ تعلیم، صحت اور روزگاری کی سہولتوں میں کئی برسوں سے اضافہ نہیں ہوا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اپنی ناسمجھی کے باعث خود کو علاقائی حدود میں پابند کر لیا ہے۔ ایم کیو ایم اچھے دنوں میں ایسا ایجنڈہ تیار نہ کرسکی جو کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ کسی شہر کے لوگوں کی توجہ حاصل کرسکتا۔ لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، کوئٹہ، پشاور والوں کو ایم کیو ایم کے کسی منصوبے نے متاثر نہیں کیا بلکہ ان کی بابت منفی اطلاعات نے ایم کیو ایم سے بیزاری پیدا کی۔ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اور سیاستدان ملک کے دیگر علاقوں میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ان جماعتوں کی کارکردگی اور پیغام صوبے سے باہر نہیں جا سکا۔ قومی ذرائع ابلاغ نے بھی مجرمانہ حد تک بلوچستان کو نظر انداز کیا ہے۔ سندھ میں بھٹو کا جادو تاحال موجود ہے۔ کسی زمانے میں جماعت اسلامی کو یہاں مقبول بنانے کی مہم شروع کی گئی، پھر شہری و دیہی سندھ کی سیاست کو دو الگ مزاج میں کاٹ دیا گیا۔ جی ڈی اے نے ایک نیا تجربہ کیا لیکن یہ زیادہ کامیاب نہ رہا۔ اے این پی کے لیے پنجاب میں بڑا احترام پیدا ہوا ہے لیکن کالا باغ ڈیم کے خلاف موقف اختیار کر کے اس جماعت نے خود اپنا راستہ مسدود کرلیا ہے۔ بلوچستان کی بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کو دوسرے صوبوں سے مکالمہ کرنا چاہیے۔ تحریک انصاف نے پنجاب میں حکومت بنانے کا تہیہ کر لیا ہے۔ ممکن ہے یہ کالم جب قارئین تک پہنچے جہانگیر ترین مطلوبہ ووٹ جمع کر چکے ہوں۔ حمزہ شہبازاور شہبازشریف نے پرویزالٰہی اور خورشید شاہ سے رابطے کئے۔ دونوں باپ بیٹے کی کوششیں اپنی جگہ مگر وقت ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ طلوع ہوتے اقتدار کو عالمی طاقتوں نے قبول کرلیا ہے۔ چین، سعودی عرب اور امریکہ نے تحریک انصاف سے رابطے کئے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ عمران خان کو بھارت امریکہ اتحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے بڑھایا گیا ہے تو شاید کم لوگ ہوں گے جو اس بات کے تمام پہلوئوں کا ادراک کرسکتے ہوں، لیکن حقیقت یہی ہے۔ عمران خان نے مرکزی حکومت کی ترجیحات کے ساتھ پنجاب کے لیے خصوصی پالیسیاںلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پنجاب میں ان کی ترجیح صحت اور تعلیم کے شعبے میں اصلاحات لانا ہے۔ اس کے لیے وہ اپنے انتہائی قابل اعتماد ساتھیوں کو ذمہ داری سونپنا چاہتے ہیں۔گورنر تبدیل ہونے والے ہیں، اٹارنی جنرل، ڈپٹی اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل بدلیں گے۔ کئی خود مختار، نیم خودمختار اداروں کے سربراہ تبدیل ہوں گے۔ سپیکر، ڈپٹی سپیکر کے عہدے صاف ستھرے اراکین کو دیئے جائیں گے اور چند ماہ بعد صدر مملکت کا انتخاب ہونا ہے۔ عمران خان کی جیت کا اعلان ہوتے ہی ڈالر نیچے آنے لگا ہے۔ تارکین وطن اربوں ڈالر بھیجنے کوتیار بیٹھے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ عمران خان 11 اگست کو حلف اٹھائیں گے۔ پڑھے لکھے لوگ آئیں گے تو منظر بھی بدلے گا۔ انتخابی نتائج والی نشریات سے بیزار مناہل کو میں نے کارٹون دیکھنے سے یہ کہہ کر روکے رکھا کہ اب آپ کو گھر سے باہر میدان میں کھیلنے کا موقع ملے گا۔