بلاول بھٹو جب ٹرین مارچ پر نکلے تو میرے جیسے بہت سے تجزیہ نگار اسکو حکومت کے خلاف ایک بڑی سیاسی تحریک کا آغاز قرار دینے لگے لیکن لاڑکانہ پہنچنے سے پہلے ہی انہوں نے سیاسی تحریک کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ میاں نواز شریف کی ضمانت اور میاں شہباز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کے عدالتی احکامات کی خبر ملتے ہی انہوں نے کارکنوں کو خطاب کرتے ہوئے دونوں بھائیوں کو مبارکباددی لیکن ساتھ ہی عمران خان کو طعنہ دیا کہ آپ تو کہتے تھے کوئی این آر او نہیں ہوگا لیکن یہ آپ کا ایک اور یو ٹر ن سامنے آگیا ہے۔ اس طنز سے صاف ظاہر تھا کہ وہ شریفوں کی سیاست سے ایک بار پھر مایوس تھے۔اس صورتحال میں اپوزیشن کا اکٹھا ہو کر کوئی تحریک چلانا کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔ اسکے بعد انکے ٹرین مارچ کی سندھ کے ایک وزیر صاحب نے توضیح یہ پیش کی کہ ٹرین سے جانے کی وجہ پاکستان اور بھارت کشیدگی کی وجہ سے اندرن ملک پروازوں کا بند ہوناتھا کہ بلاول یا تو کار سے لاڑکانہ جاتے یا پھر ٹرین سے ،جس مقصد کے لئے انہوں نے لاڑکانہ جانا تھا اس میں ابھی بھی پانچ دن باقی ہیں تو ایسی بھی کیا جلدی تھی کہ ٹرین کر کے چل پڑے۔مولانا فضل الرحمٰن تو پہلے ہی اس بارے میں تیاری پکڑے ہوئے ہیں ۔ کوئی دن جاتا ہے کہ وہ لانگ مارچ کا اعلان کر دیں گے لیکن آصف زرداری سے لیکر میاں شہباز شریف تک کوئی پکڑائی ہی نہیں دے رہا اور وہ اپنے لانگ مارچ کی تاریخ پہ تاریخ بڑھائے چلے جا رہے ہیں۔سیاسی تحریک کے امکانات کا اندازہ اس صورتحال سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی اسلام آباد میں بہت سی سرگوشیوں ہو رہی ہیں بہت سی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں جن میں ایک دو ماہ میں حکومت کے خلاف اپوزیشن کی بھرپور سیاسی تحریک کی توقعات سر فہرست ہیں۔ پھر کچھ لوگ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان گڑ بڑ کی دبی دبی سی خواہش کو خبر بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اختلاف کی وجہ میاں نواز شریف کی ضمانت بتائی جاتی ہے جو کہ سپریم کورٹ نے لی ہے اور وہ بھی صرف چھ ہفتے کے لئے۔اس ساری تھیوری کی تان ملک میں جلد پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام پر ٹوٹ رہی ہے۔یہی وہ چورن ہے جو بیچنے کی کوشش ہو رہی ہے اور جس کی آڑ میں وزیر اعظم عمران خان کو قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اپوزیشن متحد ہو رہی ہے اور کسی بڑی تحریک کے امکانات بڑھ رہے ہیں ایسی صورتحال میں بہتر ہے کہ جیل میں موجود یا جلد جیل یاترا کرنے والے راہنمائوں کو کچھ نہ کچھ ریلیف دے دیں بھلے وہ ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ کم از کم ملک کے اندر سیاسی افراتفری نہیں ہو گی اور جس نئے پاکستان کے لئے ہم سب مل کر کوشش کر رہے ہیں اسکی تکمیل میں آسانیاں پیدا ہونگی۔یہ چورن پہلی دفعہ نہیں بیچا جا رہا۔ مارچ 2000 ء میں امریکی صدر بل کلنٹن کے پاکستان کے دورے کے موقعہ پر جب یہ طے ہو گیا تھا کہ میاں نواز شریف کو طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں نہ تو سزائے موت ہو گی اور انہیں جلد یا بدیر ملک سے باہر اہل و عیال سمیت بحفاظت بھیج دیا جائے گا تو اس کے پہلے سزا والے مرحلے پر من و عن عمل ہو گیا لیکن ملک سے باہر بھیجنے کے بارے میں جنرل مشرف راضی نہیں تھے۔ اس وقت لبنان کے وزیر اعظم رفیق حریری نے جون 2000 ء میںجنرل مشرف کو سعودی عرب کے حکمرانوں کا پیغام پہنچایا کہ نواز شریف کو بحفاظت باہر نہ بھیجنے پر وہ ناراض ہیں۔ جنرل مشرف پھر بھی بہت زیادہ مائل نہیں ہوئے۔ جولائی کے پہلے ہفتے ایک ڈرامہ رچایا گیا جب بیگم کلثوم نواز گھر سے احتجاج کے لئے نکلیں تو انکی گاڑی کو کرین سے اٹھا کر ہوا میں معلق کر دیا گیا اور یہ منظر پوری دنیا میں دیکھا گیا۔ اسی رات کو مسلم لیگ (ن) کے ورکرز کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور سینکڑوں کی تعداد میں گرفتار کر لیا گیا حالانکہ ان میں سے اکثریت کسی احتجاج کے بارے میں علم بھی نہیں رکھتی تھی۔ تا ہم جنرل مشرف کو یہ تاثر دیا گیا کہ بہت بڑی سیاسی تحریک جنم لینے والی تھی جس کو فی الحال روک لیا گیا ہے بہتر ہو گا شریف خاندان اگر ملک سے باہر رہنے کو تیار ہے تو اسے جانے دیا جائے تا کہ آپ اپنے انقلابی ایجنڈے پر پر سکون انداز میں کام کر سکیں۔ اسکے بعد مذاکرات شروع ہوئے۔ شرائط طے پائیں اور شریف خاندان کی دس سالہ ملک بدری کا معاہدہ طے پا گیا۔ان ساری تفصیلات سے آپ واقف ہونگے۔اس بارے میں صدر بل کلنٹن کے خصوصی معاون بروس ریڈل کارگل کے بارے میں اپنے خصوصی طویل مضمون میں لکھ چکے ہیں جبکہ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز بھی2016ء میں ایک نجی ٹی وی چینل کو دئے گئے انٹر ویو اور اپنی کتاب میں اس کا تفصیلی ذکر کر چکے ہیں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر اس ملک میں کوئی سیاسی عدم استحکام اس وقت پیدا کیا جاتا ہے تو اسکا مقصدیہ تو ہو سکتا ہے کہ ان با اثر سابق حکمرانوں کو ملک سے بحفاظت باہر بھیجا جائے لیکن کسی حقیقی تحریک یا حکومت کی اتھل پتھل کا کوئی امکان نہیں۔کیونکہ ملک امن اور ترقی کے حوالے سے جس دور میں داخل ہونے جا رہا ہے وہ طاقتیں اسکو کبھی عدم استحکام کا شکار نہیں ہونے دیں گی جو اس مقام تک لانے اور استحکام بحال کرنے میںدو دہائیوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ہاتھوں کی دی ہوئی گانٹھیں وہ دانتوں سے کھول چکے ہیں اور اس عمل کو ریورس نہیں ہونے دیں گے۔ اگر کوئی چھوٹی موٹی سیاسی ہلچل دیکھیں تو بہت پریشان نہیں ہونا بس اتنا سمجھ لیجئے گا کہ قومی مفاہمت ہو چکی ہے اور بہت جلد کچھ چہرے بصورت خورشید ادھر ڈوبیں گے اور لندن ، ابو ظہبی ، امریکہ وغیرہ میں طلوع ہوجائیں گے۔