ملکی تاریخ میں پہلے انتخابات اُنیس سوستر میں ہوتے ہیں، دوہزار اَٹھارہ میں ان انتخابات کی مجموعی تعداد گیارہ بنتی ہے۔ان گیارہ انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے حکمران ،پاکستانی سماج او ر اس سماج میں بسنے والوں لوگوں کو کتنا جانتے اور سمجھتے ہیں؟کبھی کبھی یہ سوال مجھے بہت پریشان کردیتا ہے۔ مَیں مختلف ادوار کے مختلف حکمرانوں سے یہ سنتا آیا ہوں ’’ پاکستانی قوم ہر مشکل وقت میں متحد ہوجاتی ہے‘‘ سیاسی حکمران واقعتا ، دل و دماغ اور شعور کی تمام جہتوں سے ایساسوچتے اور سمجھتے ہیں؟میرا ذاتی طورپر خیال ہے کہ حکمرانوں نے دیگر جملوں جیسا کہ ’’ہماری حکومت آئی توہم سڑکوں کا جال بچھا دیں گے‘‘وغیرہ کی طرح یہ جملہ بھی رَٹا ہوا ہے اور اس جملے کو وہ ہمیشہ بھولے ر ہتے ہیں ،مگر پھرجیسے ہی ملکی سطح پر کوئی بحران ،المیہ ،حادثہ جنم لیتا ہے ،یا وبا پھوٹتی ہے یا پھر ہر صاحبِ اقتدار حکمران کو عوام کی ضرورت پیش آتی ہے تو یہ اُن کے ذہنوں کی خالی سلیٹ پر اُبھرکر آجاتا ہے۔’’پاکستان کے حکمران ہر مشکل وقت میں متحد ہوجاتے ہیں‘‘یہ جملہ یہاں کے عوام کی زبانوں پر آتا ہے؟ہرگز نہیں۔کیوں؟کیونکہ پاکستان کے عوام ،اس جملے سے واقف ہی نہیں ہیں۔پاکستانی سیاست مذکورہ جملوں کے بیچوں بیچ کہیں سانس لیتی پائی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کی سانسیں ٹوٹتی رہتی ہیں۔ خیر!یہاں بات ہورہی ہے ’’ پاکستانی قوم ہر مشکل وقت میں متحد ہوجاتی ہے‘‘سیاسی حکمران واقعتا ، دل و دماغ اور شعور کی تمام جہتوں سے ایساسوچتے اور سمجھتے ہیں؟جس کا جواب’’ نہیں‘‘میں اُوپر کی سطروں میں دیا جاچکا ہے۔یہاں یہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ خود کو سیاسی و جمہوری رہنما کہنے والے ،پاکستانی سماج اور سماج میں بسنے والے لوگوں کو کتناجانتے اور سمجھتے ہیں اور نہ جاننے نہ سمجھنے کے نقصانات ،پاکستانی سماج پر کس طرح کے اثرات ڈالتے ہیںاور یہ اثرات سماج میں بسنے والے لوگوں کے روّیوں میں کس طرح کی تبدیلی لاتے ہیں؟یہاں ہم صرف پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کا ایک جملہ بطور تجزیہ پیش کرتے ہیں۔پاکستانی وزیرِ اعظم کے مطابق’’ہمارے ہاں چھابڑی والے، چھوٹے دکان دار اور روزانہ کی بنیاد پر کمانے والے ،دیہاڑی دار مزدور،بیلچہ چلانے والے ،جو انتظار کر تے رہتے ہیں کہ ہمیں کام ملے، تو اگر ہم مکمل لاک ڈاؤن کر دیتے ہیں تو خوف ہے کہ اِن کو کرونا سے بچاتے ہوئے ،بھوک سے نہ مروادیں‘‘یعنی وزیرِ اعظم یہ سمجھتے ہیں کہ اگرحکومت مکمل لاک ڈائون کردیتی ہے تو وہ طبقہ جوروزانہ اُجرت کی بنیاد پر مزدوری کرتا ہے ، بری طرح متاثر ہو گا اور کرونا سے بڑا ڈیزاسٹر پیدا ہو گا۔ یہاں دوہزار دس ،سیلاب کے دِنوں کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں،نظر ڈالنے کے بعد موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔دوہزار دس میںجنم لینے والی اس آفت نے وسیع پیمانے پر پاکستانیوںکا جانی و مالی نقصان کیا تھا۔اس آفت نے تمام سیلاب زَدہ علاقوں کی طرزِ معاشرت تک بدل ڈالی تھی۔گھروں سے بے گھرہونے والوں میں ہزاروں لوگ ایسے تھے،جو سیلاب اُترجانے کے بعد اپنے علاقوں کو لوٹ کر نہ گئے،نئی جگہ ،جہاں وہ عارضی پڑائو کے لیے آئے تھے ،رہائش پذیر ہوگئے ،یا پھر بیرونی امداد سے بننے والی بستیوں میںالاٹ ہونے والے گھروں میں رہ گئے تھے۔مطلب یہ کہ دوہزار دس کا سیلاب کوئی معمولی آفت نہیں تھا۔یہاں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اُس وقت کتنے لوگ تھے ،جو بھوک سے مرگئے تھے؟یا اُن کے ڈھورڈنگر چارہ نہ ملنے پر مرے تھے ؟کوئی بتاسکتا ہے؟یہ قوی اِمکان ہے کہ بے گھرہونے والے لوگوں کو پہلے کی نسبت بہتر کھانا میسر آیا تھااور اُن کے مویشیوں کو وافر چارہ ۔مگر اُن کے بھوک سے مرنے کا امکان بہت معدوم ہے۔مَیں نے اُس آفت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا،جو لوگ گھروں سے بے گھر ہو کر آئے تھے ،خشکی پر رہنے والے لوگوں نے اُن کو بھرپورسہارادیا تھا،رہائش ،کھانا،کپڑے اور اُن کے مویشیوں کے لیے چارہ تک میسر کیا ۔مَیں نے یہ دیکھا تھا کہ اگر کوئی گھرانہ سیلاب سے اپنی اور مویشیوں کی جان بچا کر خشکی پر پہنچا تو اُن کو سہارا دینے کے لیے پہلے سے لوگ موجود تھے۔یہ مصیبت کئی ماہ رہی تھی ،مگر مصیبت زدگان کی مدد کرنے والوں کا جذبہ ٔ انسانی کمزور نہیں پڑا تھا۔اُس وقت کی حکومت نے متاثرین کی امداد ’’وطن کارڈ‘‘کے ذریعہ کی تھی۔لیکن حکومت کی جانب سے کی جانے والی اس امداد سے ایک کمرہ تک تعمیر نہیں ہوسکتا تھا۔پھر متاثرین کیسے سروائیو کرگئے؟اس پہلو سے ہمارے حکمران مکمل طورپر لاعلم ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ حکمران اپنے عوام کی دُرست نمائندگی نہیں کرپاتے اور بعض مواقعوں پرایسے فیصلے کرتے ہیں جو عوام پر مثبت اثرات مرتب کرنے کے بجائے ،اُن کی مشکلات میں مزید اضافہ کرجاتے ہیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان پاکستانی سماج اور سماج میں بسنے والوں کے طرزِ تمدن سے واقف ہوتے تو ہرگزیہ نہ کہتے کہ لوگ کرونا سے زیادہ بھوک سے مرجائیں گے اور ہمارے پاس ایسا کوئی نظام نہیں کہ اُن کو بھوک سے مرتے ہوئے بچاسکیں۔ہر غریب سے غریب آدمی کے گھر میں چند دِن کا راشن موجود ہوتا ہے۔اُس کو راشن سے زیادہ ،بجلی کے بل اور اگر گھر کرایہ پر ہے تو کرائے کی پریشانی ہوتی ہے۔اگر وہ ایک آدھ ماہ گھر بیٹھ جائے ،بجلی و دیگر بلز اور گھرکے کرائے کی پریشانی نہ ہواور یہ یقین ہو کہ ایک آدھ ماہ کے بعد جب حالات بدلیں گے دوبارہ کام مل جائے گا تو وہ سروائیو کرسکتا ہے۔کیسے سروائیو کرسکتا ہے؟سماج کے طرزِ تمدن کی بدولت۔جس طرح دوہزار دس میںسیلاب متاثرین سروائیو کرگئے تھے۔وزیرِ اعظم کو جن لوگوں کے بھوک سے مرنے کا خدشہ ہے ،اُن کو ایک ماہ گھر رہنے کے لیے کتنا راشن درکار ہوتا ہے؟ تاریخ کے جس حصے میں ،جب کوئی حکمران نیچے سے اُٹھ کر اُوپر آئے گا،وہ اپنے سماج، اپنے لوگوں کو مکمل طورپر جانتا اور سمجھتا ہو گا،تاریخ کے اُ س حصے میں پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی ۔اگر ایسا نہ ہواتو وباکے دِنوں میں ہزاروں لوگوں کو ایک وینٹی لیٹر میسر آتارہے گااور المیوں کی فصلیں کاشت ہوتی رہیں گی۔