مولانا فضل الرحمن اس بار ایک عجیب مشکل سے دوچار ہیں۔وہ اپنی سیاسی زندگی کی سب سے مشکل جنگ کے چیلنج سے نبردآزما ہیں۔ ایسی لڑائی جس میں جیت شکست کے مترادف ہے اور شکست تو خیر تباہ کن ہو گی ہی۔ ستم ظریفی یہ کہ ان کے لئے اب اسی جگہ پر رکے رہنا بھی مشکل ہے ۔انہوں نے ایسی لہر پیدا کی ہے جو بتدریج آگے کی طرف ہی بڑھے گی، اسے جامد کر دینا آسان نہیں رہا۔ مولانا فضل الرحمن کے بارے میں جس کسی سے بات کی جائے ، ان کی سمجھداری، دانشمندی اورذہانت کی تعریف کرتا ہے۔ میڈیا میں ان کے کئی ایسے مداحین موجود ہیں جو انہیں زیرک اور غیر معمولی ذہین سیاستدان قرار دیتے ہیں۔ مولانا کے مخالفین کی بھی کمی نہیں،وہ ان کے حوالے سے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر تند وتیز تبصرہ کر ڈالتے ہیں،ایسے گستاخوں میں تحریک انصاف والے سرفہرست ہیں۔ہمارے ایک صحافی دوست بھی مولانا کے حوالے سے کچھ زیادہ حسن ظن نہیں رکھتے۔ انہیں یہ اعتراض ہے کہ لوگ موقعہ پرستی، ہوشیاری اور چالاکی کوذہانت اور دانشمندی کیوں قرار دیتے ہیں؟ مولانا کی صلاحیتوں کے موصوف قائل ہیں، مگر وہ اسے موقعہ پرستی، حب جاہ اور کہہ مکرنی کا کمال تصورکرتے ہیں ، یعنی ایسا سیاستدان جو ہر حال میں اپنا مفاد اور فائدہ دیکھے، موقعہ کی مناسبت سے اپنا بیان تبدیل کر لے اور جس سیاسی کیمپ میں سہولت دیکھے، وہاںڈیرے ڈال دے۔ خیر یہ تو ایک ناقدانہ رائے ہے،ایسے ناہنجار ، تلخ ناقدہر جگہ پائے جاتے ہیں، جلی کٹی سنانے سے باز نہیں آتے۔ مولانا کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ راستے بند نہیں کرتے، کوئی نہ کوئی دروازہ کھلا رکھتے ہیں۔ پاکستان میں پاور پالیٹیکس کرنا آسان نہیں ،کئی بار تنے رسے پر چل کر دوسری طرف جانا پڑتا ہے۔ ایسے میں وہی کامیاب ہوپاتے ہیں جوہر ایک سے بنا کر رکھیں، کسی کے ساتھ تعلق نہ توڑیں اور جوڑتوڑ کی سیاست میں اپنے لئے راستہ نکال لیں۔ مولاناطویل عرصے سے اہم سیاسی پلیئر رہے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی نوے کی عشرے میں ہونے والی لڑائیوں میں بھی وہ اہم کھلاڑی رہے ۔ پرویز مشرف آئے ، نائن الیون کے بعد مذہبی قوتوں پر انہوں نے کریک ڈائون کیا تو معاملات خاصے کشیدہ ہوگئے۔ مولانا فضل الرحمن نے جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کو ساتھ ملا کر ایم ایم اے بنائی اور 2002ء کے انتخابات میں حیران کن کامیابی حاصل کی۔ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں مذہبی جماعتوں کے لوگ اسمبلیوںمیں پہنچے۔ پیپلزپارٹی چاہتی تھی کہ جنرل مشرف پر دبائو ڈال کر محترمہ بے نظیر بھٹو کی واپسی کی راہ ہموار کی جائے۔ وہ ٹف بارگین کرنا چاہ رہے تھے، مگر انہیں ایم ایم اے نے سرپرائز دیا اور مشرف حکومت کے ساتھ کامیاب مذاکرات کر کے انہیں سیف ایگزٹ دے دیا۔ اگلے پانچ سال بڑی کامیابی کے ساتھ ڈکٹیٹر کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ رکھی۔ ان کے نقاد ایم ایم اے کو’’ ملا ملٹری الائنس ‘‘کہتے رہے ،مگر مولانا فضل الرحمن کی پیشانی پر کوئی شکن نہ پڑی۔جنرل مشرف کے صدارتی الیکشن میں ایک تکنیکی رکاوٹ یہ ڈالی جا سکتی تھی کہ سرحد اسمبلی توڑ دی جاتی تاکہ الیکٹوریل کالج ادھورا رہ جائے۔ قاضی حسین احمد ایسا چاہتے تھے، مولانا فضل الرحمن نے مختلف حربوں سے ایسا نہ ہونے دیا۔بعد میں ایم ایم اے ٹوٹ گئی، اسکی کئی وجوہات تھیں، ایک فیکٹر یہ بھی تھا۔ سید منور حسن اسی لئے ایم ایم اے کی بحالی کی مخالفت کرتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے یہ طے ہو کہ اتحاد ٹوٹا کیوں تھا؟ پھر جس کی غلطی ہو، وہ اسے قبول کر کے معذرت کرے ، اس کے بعد آگے کا سوچا جائے۔ سید صاحب نے اپنے دورامارت میں ایسا نہ ہونے دیا، پچھلے سال الیکشن کے موقعہ پر جماعت اسلامی کے اندر ایک طاقتور لابی کے دبائو پر ایم ایم اے بن گئی اور پھر الیکشن میں جماعت کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، اس کے بعد عجلت میں اسے یکطرفہ طور پر ختم کرنا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے آصف زرداری اور میاں نواز شریف دونوں کے ساتھ کمال ہوشیاری کے ساتھ تعلق برقرار رکھا۔ پہلے پانچ سال پیپلزپارٹی مرکزی حکومت میں اور ن لیگ اپوزیشن میں جبکہ اس کے بعدپانچ سال ن لیگ مرکز میں حکمران جبکہ پیپلزپارٹی اپوزیشن میں تھی۔دونوں ادوار میں مولانا مرکزی حکومتوں کے ساتھ رہے اور اپوزیشن کے ساتھ بھی ان کا فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ انگریزی کا محاورہ Run with the hare and hunt with the hounds کو مولانا سے زیادہ کم ہی کسی نے سمجھا ہوگا۔ وہ مظلوم خرگوشوں کے ساتھی بھی رہے اورظالم شکاریوں کے ساتھ مل کرہنستے مسکراتے شکار بھی خوب کھیلا۔ میڈیا کے ساتھ ان کے تعلقات خوشگوار رہے۔ کئی ممتاز کالم نگاروں، اینکر حضرات کے ساتھ ذاتی تعلق ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ زیادہ بگاڑ بھی پیدا نہیں کیااور دوسری طرف نواز شریف صاحب کی قیادت میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ اتحاد کا بھی اہم حصہ رہے ۔ افغان طالبان کے حامی رہے اور دوسری طرف مغربی سفارت کاروں کے ساتھ بھی رابطے ختم نہیں کئے۔ وکی لیکس کے طفیل مولانا کی امریکی سفیر سے ملاقات اور حسن طلب کے قصے شائع ہوچکے ہیں۔ مولاناٹی ٹی پی کے ساتھ براہ راست ٹکرائو سے بھی بچے اور اپنے لوگوں ، خاص کر نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف جانے سے بھی روکا۔ کہا جاتا ہے کہ مولانا کی سیاست ہی نے دینی مدارس کے ایک بڑے حلقے کو مین سٹریم کے ساتھ جوڑے رکھا۔ شائد یہی نکتہ ان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے اشتراک کار کا بھی ہے۔ مولانا کو یہ کریڈٹ تو بہرحال جاتا ہے کہ قاضی حسین احمد کے ساتھ مل کر انہوں نے ایک دوسرے کی جانوں کے دشمن مذہبی نوجوانوں کو ملی یکجہتی کونسل میں اکٹھا بٹھا دیا۔ شیعہ ، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث علما کو ایک ساتھ بٹھانا کسی کرشمے سے کم نہیں تھا۔ یہ کرشمہ ہم سب نے دیکھا اور اس سے فرقہ ورانہ جنگ میں بہت کمی آئی۔ یہ بھی حیران کن بات ہے کہ مولانا دینی مدارس کے تحفظ کے لئے ہمیشہ مضبوطی سے کھڑے ہوتے ہیں، وہ سیکولروں کو للکارتے اور لعن طن کرتے رہتے ہیں، مگر اس کے باوجود مدارس مخالف، دین بیزار سیکولر، لبرل، الٹر ا سیکولر حلقے ان کے مخالف نہیں۔ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر مولانا کو سیکولر حلقے کبھی ہدف نہیں بناتے ۔یعنی بیک وقت انہوں نے اسلامسٹوں، رائٹسٹوں اور سیکولروں کے ساتھ معاملات چلائے ہیں۔ سیاست میں مولانا کو سب سے زیادہ نقصان عمران خان اور تحریک انصاف ن پہنچایا۔ مولانا کی سیاست کا ’’واٹر لو‘‘ یہی بنا۔ یاد رہے کہ’’ واٹر لو‘‘کے میدان میں لیجنڈری فرانسیسی جرنیل نیپولین کو انگریزوں سے شکست ہوئی تھی۔مولانا ہر ایک کے ساتھ سلیقے کے ساتھ تعلقات قائم کر لیتے ہیں۔عمران خان کے معاملے میں ایسا نہ کر پائے۔ اس کی وجہ شائد عمران خان کی سیمابی طبیعت اور شعلے برساتی زبان ہے۔ یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ عمران خان نے مولانا کو سب سے زیادہ سخت اور شدید زبانی حملوں کا نشانہ بنایا۔مولانا نے بھی ترنت انہیں یہودی ایجنٹ کا خطاب دے ڈالا اور ابھی تک اس پر قائم ہیں۔ جولائی 2018ء کے الیکشن میں مولانا فضل الرحمن اپنی دونوں آبائی نشستوں سے الیکشن ہار گئے ۔ ڈیرہ شہر سے انہیں علی امین گنڈاپور نے پچیس تیس ہزار ووٹوں سے ہرایا جبکہ ساتھ والی سیٹ سے تحریک انصاف کے یعقوب شیخ نے اس سے بھی زیادہ مارجن سے ہرایا۔ طویل عرصے بعد مولانا اسمبلیوں سے باہر ہوئے، وجہ تحریک انصاف ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کا غیظ وغضب دیدنی ہے۔ الیکشن کے اگلے ہی روز انہوں نے اپنے معمول سے ہٹ کر نہایت جذباتی انداز میں اسمبلیوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور دعویٰ کیا کہ ہم یہ حکومت نہیں بننے دیں گے۔ یہ اور بات کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں نے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا ۔ مولانا کا موڈ مگر تب ہی سے خراب ہے ۔ ایسا پہلی بار دیکھا گیا۔ مولانا ہمیشہ اپنی سیاست میں راستے کھلے رکھتے ہیں، کبھی پوائنٹ آف نوریٹرن تک نہیں جاتے ۔ اکیلے ہی میدان میں گھس کر خود کش حملہ کرنا تو ان کی سرشت ہی میں نہیں۔حیرت اس پر ہے کہ اس بار وہ ایسے جارحانہ، غصیلے موڈ میں کیوں ہیں؟ زمینی حقائق اور معروضی حالات دیکھ کر بھی اپنے تجزیے پر وہ نظر ثانی کرنے کو تیار نہیں۔ انہیں اندازہ ہوچکا ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں پیپلزپارٹی اور ن لیگ ان کے ساتھ چلنے اور لاک ڈائون جیسا جوا کھیلنے کو تیار نہیں۔ یہ دونوں جماعتیں حکومت کو ٹف ٹائم تو دینا چاہتی ہیں۔ سیاسی دبائو بڑھانا ان کی مجبوری ہے کہ دونوں کی صف اول کی قیادت جیلوں میں جا چکی ہے اور مزید گرفتاریوں کا اندیشہ ہے۔ ان کی خواہش یہی ہے کہ ایسا پریشر ڈالا جائے کہ حکومت مزید رہنما گرفتار نہ کر ے اور جو اسیر ہیں، ان کی رہائی کاامکان بھی پیدا ہو۔ اس مقصد کے لئے مگر ن لیگ اور پیپلزپارٹی آل آئوٹ وار کے لئے ابھی تیار نہیں۔دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوںکو اچھی طرح معلوم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کے بغیر ایسی کوئی تحریک کبھی کامیاب نہیں ہوئی ۔ وہ نہیں چاہتے کہ تحریک کی کامیابی کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کو مزید طاقتور بنا دیا جائے اور ناکامی کی صورت میں حکومت زیادہ مضبوط اور بے خطر ہو کر سامنے آئے۔ مولانا اپنے تمام تر تجربے اور سیاسی دانش کے باوجود ایسا رسک لینے پر تیار ہیں۔ وہ یہ ہاری ہوئی جنگ کیوں لڑ رہے ہیں ؟ اس پر گفتگو جاری رہے گی۔