آٹا چینی بحران پر بات کرنے سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وزیر اعظم کے اقدام کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ لوگوں کی تھوڑی سی توجہ کورونا وائرس اور لاک ڈائون سے ہٹ کر آٹا چینی بحران کے حوالے سے تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ پر آئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پوری دنیا کورونا سے بھی پریشان ہے اور میڈیا پر کورونا کے حوالے سے ہونیوالے تبصروں سے بھی، یہ رپورٹ پریشان حال پاکستانی قوم کیلئے ہو اکا تازہ جھونکا ثابت ہوئی ہے۔ آج وزیر اعظم کا اخبارات میں یہ بیان شائع ہوا ہے کہ عمران خان نے تحقیقاتی کمیشن کو ملنے والی دھمکیوں پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ دھمکیوں جیسا عمل دھرایا گیا تو ایکشن ہو گا، لیکن یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ دھمکیاں کون دے رہا ہے۔ بہتر ہو گا کہ اس بارے بھی بتا دیا جائے تاکہ دھمکیوں کے جرم کا ارتکاب کرنے والے سامنے آسکیں۔ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کے بعد وزیر اعظم کے ایکشن کو سراہا جا رہا ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مخدوم خسرو بختیار اور عبدالرزاق دائود کی محض وزارت تبدیل کر دینا کوئی سزا نہیں یہ ٹھیک ہے کہ اصل صورتحال 25اپریل کے بعد واضح ہو گی اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کیس نیب کو جا سکتا ہے مقدمات اور گرفتاریاں بھی ہو سکتی ہیں۔ (ن) لیگ کی طرف سے سابق وزیر اعظم خاقان عباسی اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں شہباز شریف نے الزام عائد کیا ہے کہ تحریک انصاف میں سب چور اور لٹیرے بیٹھے ہیں اور حکومت ان کو تحفظ دے رہی ہے۔ جبکہ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ جہانگیر ترین اور دیگر پر سبسڈی کا جو الزام ہے اس کا بیشتر حصہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے دور میں حاصل کیا اور اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مسلم لیگ دور میں نہ صرف چینی بلکہ کھاد سمیت کسانوں کو ملنے والی تمام سبسڈیوں پر خوفناک گھپلے ہوئے اور جن کے نام پر سبسڈیاں دی گئیں وہ آج بھی مفلوک الحال ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ پر عجیب و غریب تبصرے پڑھنے اور سننے کو مل رہے ہیں۔ پیر آف کوٹ مٹھن خواجہ عامر فرید کوریجہ کی طرف سے اخبارات میں یہ بیان شائع ہوا ہے کہ جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کو صوبے کی سزا دی جا رہی ہے کہ وہ صوبے کیلئے لڑ رہے تھے۔ جب قارئین نے یہ بیان پڑھا تو وسیب کے کچھ لوگ حیران ہو گئے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ صوبے کیلئے لڑ نہیں رہے تھے بلکہ صوبے میں رکاوٹ تھے۔ ان لوگوں نے وسیب کے سیدھے سادھے لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا ڈھونگ رچایا اور سرائیکی اجرکیں پہن کر الیکشن کے میدان میں کود پڑے۔ الیکشن جیتنے کے بعد مخدوم خسرو بختیار و دیگر کو صوبے کا وعدہ یاد ہی نہ رہا۔ جب وسیب کی طرف سے دبائو بڑھا اور ان پر سوالات ہونے لگے تو تحریک انصاف کی حکومت نے سب سول سیکرٹریٹ کا ڈھونگ رچایا۔ بجٹ میں 3 ارب روپے مختص کئے گئے اور یکم جولائی 2019ء کی تاریخ کا اعلان ہو گیا کہ سب سول سیکرٹریٹ فنگشنل ہو جائے گا۔ اس میں بھی جہانگیر ترین رکاوٹ بن گئے اور حکومت کی طرف سے تفریق پیدا کر دی گئی کہ پہلے فیصلہ کیا جائے کہ سب سول سیکرٹریٹ ملتان، بہاولپور اور لودھراں میں سے کس جگہ قائم ہونا ہے۔ پیر آف کوٹ مٹھن کو سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہئے کہ بعض لوگوں کو معصوم بنانے کی کوشش سے عوام کی دل آزاری ہوتی ہے۔ آٹا چینی بحران میں دوسروں کے بھی نام آئے ہیں۔ جن میں بیورو کریسی کے کچھ طاقتور لوگ بھی شامل ہیں اور اُن کا سرائیکی صوبہ تحریک سے دور دور کا بھی واستہ نہیں۔ ایک نام سابق سیکرٹری خوراک جن کی موجودہ پوسٹنگ ڈیرہ غازی خان میں کمشنر کی حیثیت سے تھی، کو بھی سزا کے طور پر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ نسیم صادق اپنی صفائی دیں گے اور اپنے آپ کو کلیئر کریں گے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈی جی خان سے ٹرانسفر پر وہاں کے باسیوں کو افسوس ہوا ہے ۔ عوامی سرائیکی پارٹی پاکستان کے چیئرمین اکبر خان ملکانی، معروف شاعر عاشق صدقانی ، ڈاکٹر احسان چنگوانی اور معروف سماجی رہنما ابو الحسن لغاری نے کہا کہ چودھری نسیم صادق سے ہماری کوئی رشتہ داری نہیں مگر وہ پہلے کمشنر تھے جو ڈی جی خان کو خوبصورت بنانے کیلئے دن رات کام کر رہے تھے اسی طرح اُن کی پوسٹنگ ملتان تھی تو انہوں نے ملتان میں بہت کام کیا مگر قبضہ مافیا نے اُن کا ملتان سے ٹرانسفر کروا دیا جس کا اہل ملتان کو بہت افسوس ہوا۔ تحقیقاتی رپورٹ میں مخدوم خسرو بختیار کے بھائی شہریار کا نام بھی آیا ہے۔ مخدوم خسرو بختیار کے پارٹنر چودھری منیر ہدایت اللہ ہیں اور چودھری منیر ہدایت اللہ کا اثر ورسوخ ابو ظہبی کے شیوخ تک چلا جاتا ہے۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے اس کہانی کا ہر ورق اپنی جگہ ایک الگ کہانی بیان کرتا ہے۔ تین صوبوں کے سنگم رحیم یار خان جسے مقامی طور پر کچھ لوگ ’’ارائیں یار خان‘‘ کے نام سے بھی پکارتے ہیں، وہاں مخدوموں اور آبادکاروں نے مل کر وسیب کے لوگوں کا اتنا استحصال کیا کہ تاریخ میں اُس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ جب بھی ڈاکوئوں کا کھوج لگایا جائے گا تو وسیب کے مظلوم عوام پر لگنے والے ہر ڈاکے کا ’’کُھرا‘‘ انہیں با اثر افراد کے گھروں تک پہنچے گا۔ رحیم یار خان میں یہ بھی ہوا کہ اپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت رحیم یار خان کے مخدوموں اور آبادکاروں نے ہمایوں اختر کو وہاں سے الیکشن لڑایا گویا یہ حلقے اُن کو ٹھیکے پر دیئے گئے عرب شیوخ کو بھی رحیم یار خان لانے والے یہی لوگ ہیں اسی طرح جہانگیر ترین کو بھی مخدوم احمد محمود رحیم یار خان لے آئے، قومی اسمبلی کا حلقہ ٹھیکے پر دیا گیا اور دونوں نے مل کر جمال دین والی شوگر مل قائم کی۔ جہانگیر ترین نے پہلی مرتبہ رحیم یار خان میں ترقیاتی کام کرائے اور سڑکیں بنوائیں۔ مختصر یہ کہ آٹا چینی کے موجودہ بحران کے پیچھے بہت سے قصے کہانیاں اور رنجشیں ہیں اور بہت سے سیاسی زخم، دیکھنا یہ ہے کہ آگے چل کر تحریک انصاف کے طبیب زخموں کا علاج مرہم سے کرتے ہیں یا نمک سے۔