پیپلزپارٹی نے حالیہ ماہ میںاسلام آباد کی طرف احتجاجی مارچ کا اعلان کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے دی گئی اس احتجاجی کال میں روایتی طور پر وہی ایم این ایز، ایم پی ایز،سینیٹرز اور سندھ میں حکمران جماعت سے فائدہ حاصل کرنے والے وڈیرے شامل ہونگے جو اپنی کرپشن سے کچھ حصہ نکال کر پارٹی کے لیے خرچ کرتے ہیں۔اس احتجاج میں سندھ کے عام لوگ شامل نہ ہونگے۔ کیوں کہ جس طرح این جی اوز نے سیاست کی راہ چند پیسوں کی وجہ سے مشکل بنا دی تھی، ویسے ہی پیپلزپارٹی کے وڈیروں نے پیسوں پر لوگوںکو جمع کرنے والی روایت کو پکڑ کر عوامی سیاست کے جذبے کو تباہ کردیا ہے۔ اب سندھ میں صورتحال ایسی بن گئی ہے کہ جب بھی کسی جماعت کی طرف سے احتجاج کی کال دی جاتی ہے اور عوام کو شامل ہونے کے لیے کہاجاتا ہے تو لوگ صاف الفاظ میں پوچھتے ہیں کہ’’کیاپیکیج ہے؟‘‘اب تو لوگ بڑے جلسوں میں جانے کے لیے بارگین کرنے لگے ہیں۔ ایسی باتیںکرنے میںوہ کوئی شرمساری محسوس نہیں کرتے کہ ’’اب ہم صرف پانچ سو روپے اور بریانی کی ایک تھیلی کے لیے احتجاج میں شرکت نہیں کریں گے‘‘ اب سیاست کوبزنس بنا کر لوگوں کو سیاسی عمل سے کاٹ دیا گیاہے۔ لوگ کھلے عام کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کو تو اقتدار ملے گا۔ آپ وزارتیں حاصل کریں گے۔ہم کو کیاملے گا؟ صرف نعرے ؛ تالیاں اور بریانی کی تھیلی؟ اب سیاسی عمل پیکیجز میں بٹتا جا رہا ہے۔ اگر کسی نے صرف چند گھنٹوںکے لیے سیاسی پروگرام میں شرکت کرنی ہے تو پانچ سو سے ایک ہزار تک اور اگر دوسرے شہر جانا ہے تو پھر وقت کے حساب سے الگ معاوضہ لیا اور دیا جاتا ہے۔ پرچم لہرانے اور بینر اٹھانے کے لیے الگ چارجز ہیں۔ سندھ جو کبھی جمہوری اور مزاحمتی سیاست کی رہنماقوت تھی اس کاحال کبھی ایسا ہوگا؟ یہ کسی نے نہیں سوچا تھا۔ مگر اب زمانے نے سندھ کے ذہن کو بری طرح سے تبدیل کردیا ہے۔ اس لیے سندھ میں صرف موسمی نہیں بلکہ سیاسی سردی بھی اپنے عروج پر ہے۔ سندھ کو سیاسی عمل سے کاٹنے کے سلسلے میں سوشل میڈیا کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا پرجوکچھ لکھ رہے ہیں اس سے ملک کے سیاسی حالات تبدیل ہوسکتے ہیں۔حالانکہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ سیاسی حالات صرف سیاسی عمل سے تبدیل ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا اگر سیاسی عمل ہے بھی تو اس کا اثر ایک محدود حلقے پر ہوتا ہے اور ا اثر سے حالات تبدیل ہونا ناممکن حد تک مشکل ہیں۔ سوشل میڈیا پر کوئی اپنے آپ کو تو مطمئن کرسکتا ہے مگر حکومت اور نظام سیاست کو متاثر نہیں کرسکتا۔ سندھ میں موسم سرما سماجی طور پر شادیوں کا موسم بھی سمجھا جاتا ہے۔ مگر صرف شادیوں تک عوام کی سرگرمی کامحدود ہونا ایک طرح کا جذباتی خلا پیدا کرتا ہے۔ انسان سماجی طور پر سرگرم رہنے والا عنصر ہے۔ اس لیے اگر سندھ میں سیاسی عمل مجموعی حالات کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے تو لوگ ادبی محفلوں کو سجا کر کسی نہ کسی طور پر اپنے احساس امنگ اور شعور کو سرگرم عمل رکھتے ہیں۔ سندھ میں پچھلے چند سالوں سے ادبی میلوں کی روایت بہت مضبوط ہوگئی ہے۔ سندھ کے اکثر شہروں میں ادبی میلے منعقد ہوتے ہیں۔ یہ ایک اچھی روایت ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت سندھ کے کلچر ڈیپارٹمنٹ نے ایسے میلوں کو سرکاری مدد سے لوٹنا شروع کیا ہے۔ وہ کسی نہ کسی طور پر منائے جانے والے میلے کی مدد کرتے ہوئے پانچ دس لاکھ روپیے دیتے ہیں مگر اتنی سی رقم دے کر وہ ادبی میلے کی آزاد روح کوقتل کردیتے ہیں۔ سرکاری مدد کے صلہ میں سندھ کے وزیر ثقافت اور سیکریٹری کلچر ادبی میلوں کا افتتاح بھی کرتے ہیں اور مہمان خاص کی کرسی پر بھی براجمان ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں میلہ منعقد کرنے والوں کے لیے مشکل ہوجاتی ہے کہ وہ کس طرح توازن قائم کریں؟ ایسے حالات میں ان کے میلوں کے ماحول کومتوازن کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔سرکاری فنڈز کی وجہ سے میلوں میںرنگینیاں تو بھرجاتی ہیں مگر ادب کی آزاد روح بری طرح سے متاثر ہوتی ہے۔ سندھ کے بڑے شہروں یعنی کراچی اور حیدرآباد میں بھرپور طرح سے منائے جانے والے ادبی پروگرامز میں ادبی آزادی دیکھنے کو آنکھیں ترس جاتی ہیں۔ کیوں کہ حکومت سندھ کے تعاون کی وجہ سے ادبی پروگرام منعقد کرنے والوں کو ہر ایک چیز اور ہر ایک مہمان و مقرر کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے کہ یہ کچھ کرنے یا فلاں کے آنے یا فلاں کے نہ آنے کی وجہ سے حکومت سندھ کے مددگار ادارے ناراض تو نہیں ہونگے؟ ادب کی دنیا میں جب بھی اس قسم کی سوچ کا داخلہ ہوتا ہے تب ادب کی آزاد روح پرواز کر جاتی ہے۔ کیوں کہ یہ ادب ہی ہے جو ہمیں بغاوت اور سرکشی کا سبق دیتا ہے۔ یہ ادب ہی ہے جو ہمیں کھرے کھوٹے کی پرکھ دیتا ہے۔ یہ ادب ہی ہے جس کے اسٹیج پر کھڑے ہوکر ہم مکمل سچ بول سکتے ہیں۔اگر ادب میں بھی حکومت کی وجہ سے احتیاط کی جائے تو پھر ہمارے دامن میں باقی کیا بچتا ہے؟ ہم آخر اس بات کو کب سمجھیں گے کہ آزادی کے بغیر حقیقی ادب کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ سیاست میں سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔ ادب میں سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ سیاست سمجھوتے کے بغیر نہیں ہوسکتی اور ادب آزادی کے بغیرممکن نہیں۔وہ ادب جو سمجھوتے کرتا ہے اور جو حکومت وقت کی جنبش ابرو کو دیکھ کر ایک ایک لفظ لکھتا ہے وہ ادب ،ادب نہیں ہوتا۔ وہ ادب کے نام پر اور ادب کے انداز پر کی جانے والی وہ سیاست ہے جو سمجھوتے کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتی۔ سندھ میں سرکاری گماشتے ادبی میلوں کو لوٹنے کے لیے سرگرم ہیں۔ اس طرح یہ رویہ اب عام ہوتا جا رہا ہے کہ کرپٹ سیاست نے پہلے تو اصولوںکے سیاست کو ختم کیا اور اب وہ سرکاری امداد کے معرفت ادب کی آزادی کو ختم کرنے کے پیچھے ہے۔ اس صورتحال میں کوئی کیا کرسکتا ہے؟افسوس کرنا بہت آسان ہے مگر افسوس کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ادب میں افسوس کا لفظ بہت کم اثر رکھتا ہے۔ ادب تو بغاوت کی آگ ہوا کرتا ہے۔ادب تو چڑھتا اور جلتا ہوا سورج ہوا کرتا ہے۔ اس لیے سندھ کے موسم سرما میں ادبی میلوں کو انعقاد ہواکرتا ہے مگر حکومتی مدد سے ہونے والے میلوں کا سورج بادلوں کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ اس لیے اس میں اتنی گرمی اور اتنی روشنی نہیں ہوتی جو برفاب جذبوں کو پگھلانے میںمددگار ہوپائے۔ سندھ میںآج کل ادبی میلے ہو رہے ہیںمگر ان ادبی میلوں میں وہ جذبہ بہت کم نظر آتا ہے جو کبھی سیاست کو نئی زندگی عطا کرتا تھا۔ وہ ادب کہا ں ہے جو سیاست میں انقلاب کی آگ جلاتا تھا۔ سمجھوتے باز سرکاری سیاست تو اس پانی کے مانند ہے جو آگ کو بجھا دیتا ہے۔ہم کو ان حالات کی سردیوںمیں آتش دان جیسا ادب چاہیے۔ وہ ادب جوہمارے ماضی کی پہچان تھا۔وہ ادب جس نے ہماری رہنمائی کی۔وہ ادب جس نے سیاست کی دھار کو تیز کیا اور ہم کو یہ تمیز بھی عطاکی کہ کس پر کتنا حملہ کرنا جائزہے؟ موجودہ سیاست زدہ ادب تو اس غلام کی مانند ہے جو آقاکا غصہ دیکھ کر سہم جاتا ہے۔