دسمبر کامہینہ پاکستانیوں کے لیے کچھ ناخوشگوار یادیں لے کر آتا ہے۔ سولہ دسمبرسنہ انیس سو اکہتر کوپاکستان دو لخت ہوا۔ اسکا مشرقی حصّہ بہت خون خرابہ کے بعد بنگلہ دیش کے نام سے علیحدہ ملک بن گیا۔ اسی تاریخ کوسنہ دو ہزار چودہ میںپشاور میں آرمی پبلک سکول کا المناک سانحہ پیش آیا جس میںسوا سو بچوں سمیت ڈیڑھ سو معصوم افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیے گئے۔ دونوں بڑے قومی سانحات ہیں۔ان دونوں واقعات میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں واقعات میںایک ہی معاشرہ اور قوم کے باشندوں نے ایک دوسرے کا خون بہایا۔ مشرقی پاکستان میں لوگ نسلی بنیادوں پر اپنی ہی فوج کے خلاف نبرد آزما تھے۔ پشاور میں دہشت گردوں نے اپنے ہی ملک کے ‘ اپنے ہم نسل ‘ ہم مذہب لوگوں کے معصوم بچوں کا خو ن اسلیے بہایا کہ انکے نظریات مختلف تھے ۔ دونوں صورتوں میں ایک ملک ‘ ایک قوم کے لوگوں میں نسلی اور نظریاتی اختلافات کا کوئی پُر امن حل نہیں نکالا جاسکا۔ کوئی مفاہمت ‘سمجھوتہ نہیں ہوسکا۔عقل‘ دلیل اور انسانی ہمدردی کی بجائے طاقت اور بربریت کا سہارا لیا گیا۔ قوموں کی زندگی میں سیاسی سمجھوتہ کی از حد اہمیت ہے۔ جن معاشروں میں طاقت کے خواہاں مخالف و متحارب گروہوں میں سیاسی اقتدار کی تقسیم اور اشتراک پر اتفاق ہوگیا وہاں امن قائم ہوا ‘ قانون کی حکمرانی قائم ہوگئی‘ ملک معاشی ترقی کے راستے پر چل نکلا ۔جن ملکوں میں مخالف سیاسی قوتیں ‘ نسلی دھڑے یا نظریاتی گروہ پُرامن طور پر کسی سمجھوتہ پر نہ پہنچ سکے وہاں شدید خون خرابہ ہوا۔ بدامنی کے طویل ادوار نے معاشروں کو اُدھیڑ کر رکھ دیا اور انکی معیشت تباہ و برباد ہوگئی۔دنیا بھر کے متعدد ملکوں کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی مفاہمت اور استحکام ایک محفوظ‘ خوشحال سماج کی اہم ترین شرط ہے۔ برصغیر پاک و ہند ‘ پاکستان اور افغانستان کی تورایخ واضح مثالیں ہیں۔برصغیر میں ہزاروں میل دُور سے آئے مٹھی بھر انگریز اقتدار پر قابض ہونے میں کامیاب ہوئے کیونکہ اس خطّہ کے باشندے آپس میںدست و گریبان تھے۔ ان کے مابین مغل بادشاہت کے دور میں ہونے والا سیاسی‘ عمرانی معاہدہ ٹوٹ چکا تھا۔ مختلف علاقوں کے گورنر اپنے اپنے علاقوں میں خود مختار ہوچکے تھے۔ دلّی دربار محلاتی سازشوں کا مرکز بن چکا تھا۔برصغیر انگریزوں کی ڈیڑھ سو سالہ غلامی میں چلا گیا۔ دنیاکا خوشحال ترین خطہ غریب ترین سرزمین میں تبدیل ہوگیا۔ دوسری جنگ عظیم نے برطانوی سامراج کو مضمحل کردیا۔ برطانوی راج نے ہندوستان کو آزادی دینے کی ٹھانی۔ مسلمان اور ہندو سیاسی سمجھوتہ پر نہیں پہنچ سکے۔ کیبنٹ مشن پلان کے تحت ہندوستان کو تین نیم خود مختار خطوں لیکن ایک ملک کے طور پر قائم رکھنے کی آخری کوشش کی گئی۔ مسلمانوں کے رہنما قائداعظم نے اتفاق کیا لیکن کانگریس کے رہنما بلا شرکت غیرے حکومت کرنا چاہتے تھے۔ جواہر لال نہرو نے کیبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کردیا ۔ ہندوستان تقسیم ہوا۔ فسادات ہوئے۔ لاکھوں مسلمان ،سکھ اور ہندو ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ اس انسانی المیہ کے گہرے اثرات ابھی تک پاکستان اور انڈیا پر موجود ہیں۔ دونوں ممالک آج تک ایک دوسرے سے جنگ کی تیاریوں میں مصروف رہتے ہیں۔ علاقائی تنازعے ختم نہیںہوسکے۔ کھربوں روپے سالانہ ایک دوسرے سے جنگ کی تیاریوں پر خرچ کرتے ہیںجبکہ خطّہ کی نصف آبادی شدید غربت میں مبتلا ہے۔ ساری دنیا معاشی ترقی کرگئی لیکن جنوبی ایشیا پستی اور بدحالی کا شکار ہے۔ سیاسی سمجھوتہ نہ کرنے کی جو غلطی متحدہ ہندوستان میں کانگریس نے کی وہی غلطی موجودہ پاکستان کے حکمرانوں نے مشرقی پاکستان کی بنگالی آبادی کے ساتھ دہرائی۔ بنگالی رہنما سیاسی سمجھوتہ چاہتے تھے ۔ ایک کنفیڈریشن نما وفاقی ریاست میںزیادہ سے زیادہ خود مختاری کے خواہاں تھے۔ ہوسکتا ہے کہ انکے کچھ مطالبات حقیقت پر مبنی نہ ہوں لیکن اس وقت جب پورا مشرقی پاکستان مجیب الرحمن کے پیچھے متحد تھا وقتی طور پر انکی بات مانی جاسکتی تھی۔جوں جوں وقت گزرتا انکا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا۔ ان کا مغربی پاکستان پر اعتمادبڑھنے لگتا۔ مشرقی اور مغربی حصے مل جل کر دستورمیں از سرِ نو ترامیم کرلیتے۔ مجیب الرحمن صاف شفاف‘ منصفانہ جنرل الیکشن میںواضح اکثریت حاصل کرچکے تھے۔ لیکن مغربی پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے دور اندیشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو اپنے لیے اقتدار چاہتے تھے۔ یہ جانتے ہوئے کہ ایک ہزار میل دور واقع مشرقی پاکستان کی ساری آبادی مغربی پاکستان کی فوج کے حق میں نہیں وہاں ایک چھوٹی سی فوجی جمعیت کے ساتھ آپریشن شروع کردیا۔ بری فوج کو ائیر فورس کی چھتری بھی میسر نہیں تھی۔ سیاسی‘ عمرانی معاہدہ نہ کرنے کا نتیجہ نکلا کہ لاکھوں لوگ ہلاک ہوگئے۔ ملک عالمی برادری میں بدنام ہوا۔ حتیٰ کہ چین ایسے دوست ممالک ہماری مدد کے لیے آگے نہیں آئے کیونکہ وہ بار بار اسلام آباد کے حکمرانوں کو بنگالیوں سے سیاسی تصفیہ کرنے کی تلقین کررہے تھے۔ بالآخر ملک تقسیم ہوگیا۔ سیاسی مفاہمت نہ کرنے اور مخالفین کو طاقت کے زور پر کچلنے کا یہی عمل بیالیس برسوں سے افغانستان میںجاری ہے۔انیس سو اُناسی میںافغان فوج کے کمیونسٹ افسروں نے بزور طاقت حکومت پر قبضہ کیا۔ دہائیوں سے قائم عمرانی معاہدہ کو توڑا ۔ رُوسی فوج کی مدد سے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کی۔ لیکن ناکام ہوئے۔ طویل خانہ جنگی کے بعد مجاہدین فتح مند ہوئے لیکن وہ خود ایک دوسرے سے کسی سیاسی مفاہمت پرنہیں پہنچ سکے ۔آپس میں لڑناشروع کردیا۔قدامت پسند پشتون نوجوانوں پر مشتمل طالبان نے انہیں شکست دی ۔ طالبان نے غیر پشتون نسلی آبادیوں(تاجک‘ ہزارہ‘ ازبک‘ نورستانی) اور معتدل ‘ جدیدیت پسند پشتونوں سے اشتراک نہیںکیا۔ ان پر ظلم و ستم ڈھائے۔ دو ہزار ایک میں امریکہ نے طالبان کو شکست دیکر اپنے جدیدیت پسند کابل پر مسلط کردیے جو اسلام پسند طالبان سے جنگ کرتے رہے۔ بیس سال تک ان سے کسی مفاہمت پر نہیں پہنچ سکے۔ امریکی بھاگ گئے۔ طالبان دوبارہ کابل پر قابض ہیں لیکن ملک تباہ و برباد ہے جہاں ایک کروڑ لوگ انسانی المیہ کا شکار ہیں۔ بھوک اور قحط ہے۔ کسی ملک میں مختلف نسلی‘ لسانی یا نظریاتی گروہوں کے درمیان سیاسی سمجھوتہ نہ ہونے سے مچنے والی تباہی و بربادی کی بڑی مثال افغانستان ہے۔ شام اور لیبیا میں بھی یہی معاملہ درپیش ہے۔ پاکستان کے لیے تاریخ میں سبق ہے۔ آئین ‘قانون کے تحت چلنے ولا نظام سیاسی سمجھوتہ پر مبنی ہوتا ہے ۔ وہ جتنابُرا ہو ماورائے آئین اقدامات سے بہرحال بہتر ثابت ہوا ہے۔ جو تبدیلی آئین کے تحت بتدریج آتی ہے وہ پُر امن اور پائیدار ہوتی ہے۔