ہم بطور قوم اس خبط میں مبتلا ہیں کہ ہم اچھے نظر آئیں‘ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم زیادہ دیر اچھے نہیں رہتے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے گزشتہ تین انتخابات دہشت گردی سے جنگ کرتے ہوئے بھگتائے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی جاری ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز میں جو انتخابات کرائے ان میں ایم ایم اے ایک اہم سیاسی طاقت بن کر ابھری۔ ایم ایم اے میں جمعیت علمائے اسلام‘ف اور س ‘ جماعت اسلامی‘ مسالک کی بنیاد پر قائم سیاسی جماعتیں اور گروہ شامل تھے۔ ایم ایم اے میں ایک دوسرے کی جان کی پیاسی مسلکی جماعتیں بھی متحد تھیں۔ امریکہ چاہتا تھا کہ افغانستان میں شروع کی گئی جنگ کو اپنے حق میں محفوظ اور نتیجہ خیز بنائے۔ امریکہ کو گالی دینے والی اور امریکی جھنڈے نذر آتش کرنے والی یہ جماعتیں جانے نہ جانے میں امریکہ کے مقاصد پورے کر رہی تھیں۔ اس پارلیمنٹ نے ایسے کئی فیصلے کیے جنہوں نے امریکہ کو سہولیات فراہم کیں۔ بے نظیر بھٹو واحد سیاستدان تھیں جو امریکی جنگ کو اس موڑ پر دیکھنے کی صلاحیت رکھتی تھیں جہاں یہ جنگ پاکستان سے تصادم کی شکل لیتی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان میں امریکہ کا اثرورسوخ کم نہ کیا گیا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا جائے گا۔ لیاقت باغ میں ان کے آخری خطاب کو ایک بار پھر سنیے آپ جان لیں گے کہ وہ پاکستان میں مذہب کے نام پر فساد برپا کرنے والوں کو مفاہمت کے اشارے دے رہی تھیں۔ وہ طالبان اور دوسرے تشدد پسند گروہوں کو جمہوری عمل میں شریک ہو کر بین الاقوامی سازشوں میں قومی اتحاد کی طرف بلا رہی تھیں۔ ان کی موت کے بعد پاکستان میں قیادت کا بحران پیدا ہوا۔ اس بحران نے پہلے پیپلز پارٹی کے لیے ہمدردی کی لہر پیدا کی‘ پھر یہ لہر سمندر کی طرف واپس پلٹی تو ساری پارٹی کو بہا کر لے گئی۔ اس بحران نے سیاسی سطح پر انتہا پسندوں سے بات چیت کی صلاحیت رکھنے والوں کو کمزور اور پسپا کر دیا۔ قومی مفادات کو سمجھنے والے مذاکرات کار نہ رہے تو سارا معاملہ ان لوگوں کے ہاتھ میں آ گیا جو پاکستان میں خانہ جنگی کی خواہش رکھتے تھے۔ پھر ہم نے بس سٹاپوں‘ بازاروں‘ سکولوں اور عبادت گاہوں پر حملوں کی صورت میں اس خانہ جنگی کو بھگتایا۔ جو تنظیمیں مسلکی تشدد پسندی میں ملوث تھیں ان میں توڑ پھوڑ شروع ہوئی۔ جو زیادہ انتہا پسند تھے وہ سپاہ صحابہ‘ جیش محمد اور ایسے دوسرے گرہوں سے الگ ہو کر تحریک طالبان پاکستان کا حصہ بن گئے۔ سوات کی تحریک نفاذ شریعت محمدی کے بہت سے لوگ بھی طالبان سے جا ملے جو لوگ پاکستان کی سالمیت کو لاحق خطرات سے واقف تھے یا ان کی ذاتی مجبوریاں تھیں انہوں نے عسکریت پسندی ترک کر کے سیاسی عمل کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ یوں کئی کالعدم تنظیموں نے اپنی سیاسی جماعتیں بنا لیں۔ 2008ء کے انتخابات میں ایسی تنظیموں نے مسلم لیگ ن سے کہیں درپردہ اور کہیں کھلم کھلا اتحاد کیا۔ پیپلز پارٹی ان لوگوں کو بی بی کے قاتل کے طور پر دیکھتی رہی ہے اس لیے ان کے درمیان رابطے کسی عملی تعاون کی صورت میں نہ ڈھل سکے۔ اس سارے عرصہ میں ریاست نے انتہا پسندی اور تشدد پسندی کو ملک دشمن ایجنڈے کے طور پر اجاگر کرنے کا کام جاری رکھا۔ چوتھے انتخابات سر پر ہیں دو انتخابات میں منتشر اور بکھری رہنے والی ایم ایم اے پھر جمع ہو گئی ہے۔ پی پی پی‘ ن لیگ‘ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کی طرح کچھ داخلی تنازعات ایم ایم اے میں بھی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن ہمیشہ کی طرح ٹکٹوں کا بڑا حصہ لے اڑے ہیں۔ جماعت اسلامی شکائت کرتی رہ گئی۔ جناب ساجد میر کو اس بار مسلم لیگ ن نے کوئی ٹکٹ نہیں دی مجبوراً ان کی آئندہ پارلیمانی طاقت کا کلی انحصار ایم ایم اے کی انتخابی کارکردگی پر ہے۔ مولانا محمد احمدلدھیانوی ‘ مولانا ساجد نقوی کے حالات بھی پتلے ہیں مگر یہ مثبت علامت نہیں۔ سیاسی نظام اگر تشدد پسندی ترک کر کے سیاسی عمل میں شرکت کی خواہش رکھنے والوں کو قبول نہیں کرے گا تو معاشرے کو لاحق خطرات الگ تھلگ فکری گوشوں میں پرورش پاتے رہیں گے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو نائن الیون کے بعد ہونے والے تین انتخابات میں کسی نہ کسی طرح شریک رہے ہیں۔ پھر اب ایسا کیا بدلا کہ ان کے سیاسی کردار کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادی نہیں رہے تو ان تنظیموں اور گروہوں کی افادیت بھی ختم ہو گئی ہے۔ہم امریکہ سے الگ ہو کر دہشت گردی کے خلاف ایک اپنی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ یہ جنگ ہماری پارلیمنٹ کی شکل پر اثر انداز ہوتی رہی ہے۔ اس بار بھی ضرور تشدد پسندی کا ماضی رکھنے والوں کا مخصوص کردار متعین کیا جا سکے گا۔ ہمارے ہاں عموماً کہانی کو پڑھتے ہوئے صرف ہیرو اور ولن کے کرداروں پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس وقت تحریک انصاف‘ پی پی پی اور ن لیگ طے کر رہی ہیں کہ ان میں ہیرو کون ہے ولن کون اور کون ریلو کٹا ہے۔ لیکن معاون کرداروں کے بغیر فلم آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ماضی کی کالعدم تنظیموں نے کچھ ماہ قبل ایک قومی دستاویز ’’پیغام ‘‘پر دستخط کیے ہیں۔ یہ خلافت‘ اسلامی امارت اور جہاد کے تصورات کی اس تشریح سے تائب ہو چکے ہیں جو بھائی کو بھائی کا قاتل بناتی ہے‘ ایک دوسرے کو کافر کہنے میں بیباک کرتی ہے۔ ہماری پارلیمنٹ کو 2018ء کے انتخابات کے بعد بڑے بڑے فیصلے کرنے ہیں۔ ان فیصلوں پر قوم کا اعتماد بحال رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ قومی دھارے میں شامل ہونے والی ہر تنظیم اور گروہ کو خوش آمدید کہا جائے۔ استاد مکرم اطہر ندیم بائیں بازو کے دانشور تھے۔ ایک روز جمعیت طلبہ عربیہ کا ایک وفد ان سے ملنے آیا۔ استقبالیہ سٹاف نے وفد کو اندر بلانے کی اجازت چاہی تو اطہر صاحب نے منع کر دیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ مولویوں نے طلبہ کو گمراہ کر رکھا ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ طلبہ کو بلائیے‘ ان سے بات کیجیے۔ اگر آپ ان سے بات نہیں کریں گے تو ان تک جدید سوچ کیسے پہنچے گی۔ اس روز انہوں نے وفد کو بلایا‘ چائے کے ساتھ بسکٹ بھی کھلائے۔ یہ نوجوان بعد میں بھی کئی بار اطہر صاحب کی دانشمندانہ گفتگو سننے آتے رہے۔ کیا ہم مکالمہ اور گفتگو کے حق میں جو دلائل دیتے رہے ہیں وہ سماج میں مفاہمت اور یکجہتی پیدا کرنے کے لیے آزما نہیں سکتے؟