گورنر ہائوس کوئٹہ میں اعلیٰ سطحی سکیورٹی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم جسٹس(ر) ناصرالملک نے ملک میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے پیش نظر انتخابی ریلیوں‘ امیدواروں اور کارنر میٹنگز میں شرکت کرنے والے افراد کی حفاظت یقینی بنانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ نگران وزیر اعظم نے سلامتی سے متعلق انتظامات کے بارے میں سیاسی قیادت سے مشاورت اور حفاظتی تدابیر کے متعلق سیاسی قائدین کا تعاون حاصل کرنے پر بھی زور دیا ہے۔ بلا شبہ پاکستان میں سکیورٹی کے حوالے سے صورت حال میں یکایک جو خرابی بڑھی ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سانحہ مستونگ میں زخمی افراد میں سے چند اور خالق حقیقی سے جا ملے جس سے شہید ہونے والوں کی تعداد 149تک جا پہنچی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ریلیوں اور امیدواروں پر فائرنگ کے واقعات جاری ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک دشمن طاقتیں پاکستان میں بدامنی پیدا کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ دہشت گردی کے تازہ واقعات کا ہدف انتخابی سرگرمیاں ہیں۔ اب تک خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گرد گروہوں نے کارروائیاں کی ہیں۔ یہ دونوں صوبے افغان سرحد سے ملحق ہونے کی وجہ سے ملک دشمن عناصر کا پہلا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ ایک مدت تک ان دونوں صوبوں میں سکیورٹی فورسز اور پولیس پر سب سے زیادہ حملے ہوتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے لڑکیوں کے سکول نشانہ بنے رہے اور مسلکی بنیاد پر دہشت گردی نے سینکڑوں لوگوں کی جان لی۔ بلوچستان میں بیرونی دشمنوں کو بعض مقامی گروہوں کا تعاون حاصل رہا ہے اس لیے وہاں اساتذہ اور ڈاکٹر حضرات کا اغوا بھی دہشت گردوں کی من پسند کارروائیاں رہے ہیں۔ وقت اور حالات کے ساتھ امن دشمن طاقتیں اپنی ترجیحات تبدیل کرتی رہی ہیں۔ جو طبقہ ان کے مقاصد کے سامنے دیوار بنتا ہے یہ اسے نشانے پر رکھ لیتے ہیں۔ قومی سطح پر یہ بات آج تک کسی تجزیے کا حصہ نہیں بنی کہ چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان قومی سلامتی اور یکجہتی کے لیے کس نوع کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ پاکستان نے جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک مخصوص کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ‘اس کی سکیورٹی ضروریات کی نوعیت بدل گئی۔ قبل ازیں فوج اور سویلین سکیورٹی اداروں کی توجہ سرحدوں اور سرحدی علاقوں میں امن قائم کرنے پر رہی مگر دہشت گرد اپنے نظریات کو ہتھیار بنا کر ملک بھر میں پھیل گئے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی اور چشم پوشی کے باعث ملک میں ناجائز اسلحہ کا کاروبار آسانی سے جاری تھا۔ دھماکہ خیز مواد اور اشیا کی نقل و حمل میں بھی زیادہ مشکل نہیں تھی۔ اس لیے کسی بھی فرد کا دماغ پرتشدد نظریات کے بارود سے بھر کر اسے چلتا پھرتا ہتھیار بنا دینا کاردشوار نہ رہا۔ دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں اسی لیے آج تک سوفیصد ختم نہیں کی جا سکیں کہ جو قاتل ہیں ان کی شکل وصورت اور حلیہ بھی ویسا ہے جیسا مقتولوں کا ۔ اس بار انتخابی مہم کی مثبت خاصیت یہ ہے کہ کئی تنظیمیں اور گروہ تشدد کا راستہ چھوڑ کر سیاسی عمل کا حصہ بن رہے ہیں۔ دنیا بھر میںاس بات کو سراہا جاتا ہے کہ تشدد پسند گروہ سیاسی عمل میں شریک ہونے لگیں ۔اس سے جمہوریت کو لاحق خطرات میں کمی آتی ہے‘ سیاسی نظام مستحکم ہوتا ہے اور معاشرے میں اختلاف رائے کو مکالمہ کے ذریعے طے کرنے کی روائت آگے بڑھتی ہے۔ پاکستانی ریاست نے سانحہ اے پی ایس کے بعد دہشت گردی کے انسداد کے لیے جو بیانیہ اختیار کیا تھا اس میں اس بات کو اہمیت دی گئی تھی کہ عسکریت پسندوں اور تشدد پسندوں کو اپنے نظریات کے پرچار سے روکا جائے۔ اس سلسلے میں ان گروہوں کا کردار اہم تھا جو پرتشدد نظریات کی حمائت کرتے رہے ہیں۔ سابق حکومت کی انتظامی بے دلی اور نالائقی کے باوجود یہ عمل کسی نہ کسی طرح آگے بڑھتا رہا۔ درپیش انتخابی مہم میں سابق تشدد پسندوں کی شرکت قوم کے لیے حوصلہ افزا ہے مگر وہ طاقتیں جو مذہبی‘ نسلی اور علاقائی بنیادوں پر پاکستان میں بدامنی پھیلاتی رہی ہیں ان کے لیے یہ صورت حال ناقابل قبول ٹھہری ہے۔ انتخابی سرگرمیوں اور امیدواروں کو نشانہ بنانے کا مقصد انتخابات کا التوا اور جمہوریت کا راستہ روکنا ہے۔ وطن کے دشمن پاکستانی قوم کو استحکام سے محروم رکھ کر اس کی منزل کھوٹی کرنا چاہتے ہیں۔ بلا شبہ سکیورٹی فورسز‘ انٹیلی جنس اداروں اور پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردی میں ملوث طاقتوں کا کھوج لگائیں۔ امن دشمن عناصر کے سہولت کاروں کو بے نقاب کریں اور سفاک افراد کو قانون کی گرفت میں لیں مگر معاشرے میں امن کے لیے یہ بات کافی نہیں ہو گی۔ کچھ ذمہ داریاں سماج کو بھی قبول کرنا پڑتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں انتخابات کے لیے منشور تیار کرتی ہیں۔ اشتہاری مہم کے لیے بجٹ مختص کرتی ہیں۔ ٹرانسپورٹ اور کارکنوں کے لیے اخراجات کا حساب کتاب کرتی ہیں لیکن یہ بات فراموش کر دیتی ہیں کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے اور ملک دشمن عناصر سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ فیصلہ کرنے کا مرکز ہے۔ یہاں قومی پالیسیاں طے ہوتی ہیں۔ یہی پارلیمنٹ تھی جس نے نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی‘ اس پارلیمنٹ نے سوات آپریشن کے حق میں فیصلہ دیا اور اسی پارلیمنٹ نے دہشت گردوں کو فوری اور یقینی سزا دینے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی۔ پارلیمنٹ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار سست روی سے نبھایا ہے لیکن پھر بھی سارے نظام کو کسی بڑے بحران سے محفوظ رکھتے ہوئے دہشت گردی کے انسداد کے لیے ایسے فیصلے کیے جن سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی۔ سیاسی جماعتوں کو اس بات کا لازمی خیال کرنا چاہیے کہ ان کے جلوس اور جلسوں کے لیے سکیورٹی انتظامات موثر ہوں۔ سیاسی سرگرمیوں کے دوران کیمروں کے ذریعے نگرانی کی جائے اور مقامی سرکاری انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھر پور تعاون کیا جائے۔بعض سیاسی جماعتیں انتظامی سطح پر حفاظتی تدابیر کو اپنے خلاف سیاسی انتقام کا نام دے کر سرکاری اداروں کے کام میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ انتخابی مہم کا بنیادی مقصد عوام تک اپنا پیغام پہنچانا ہوتا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ نے اس معاملے کو آسان بنا دیا ہے۔ ہمارے ہاں ابھی تک ٹیکنالوجی کو انتخابی مہم کے دوران کم استعمال کرنے کی وجہ سیاست میں ترقیاتی پروگرام اور قومی منشور کی بجائے شخصیت پرستی کی برائی ہے۔ لوگ اس وقت تک ووٹ دینے پر آمادہ نہیں ہوتے جب تک امیدوار خود ان سے ملاقات کر کے ووٹ کی اپیل نہ کرے۔ اس روائت کے ساتھ اب خطرات منسلک ہو چکے ہیں لہٰذا تمام جماعتوں کو چاہیے کہ وہ عوامی اجتماعات کو اپنی مہم کا ذریعہ بنانے کی بجائے اخبارات‘ ٹی وی چینلز‘ موبائل فون سے پیغام کی سہولت استعمال کریں۔