وطن عزیز کی بدقسمتی ہے کہ اسے آج تک سیاسی استحکام نصیب نہیں ہوسکا‘حکومتیں گرانا اور بنانا ایک مشغلہ ‘ ایک مذاق بن چکا ہے۔ آج ایک بار پھر سازشیں شروع ہوچکی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت گرا کر ایک نئی حکومت بنانے کے لیے پس ِپردہ جوڑ توڑ کیا جارہا ہے۔ حکومت بنے ابھی مشکل سے ڈیڑھ سال گزرا ہے لیکن اسے پاکستان کی تمام ناکامیوں‘ خرابیوں کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ تحریک ِانصاف کی اتحادی جماعتوں کو حکومت سے علیٰحدہ ہونے کی ترغیب دی جارہی ہے۔مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ماضی میں ایک دوسرے کی سخت مخالف پارٹیاں تھیں لیکن اب مل جُل کر مخلوط حکومت بنانے کے خواب دیکھ رہی ہیں۔سیاسی جماعتوں کا نہ کوئی نظریہ ہے‘ نہ کوئی اُصول۔ صرف اقتدار کی ہوس ہے اور یہ فکر کہ کسی طرح ان کے لیڈروں کے خلاف قائم کرپشن کے مقدمات اور تحقیقات ختم ہوجائیں۔ جو سیاسی جوڑ توڑ آج ہورہا ہے اس سے پہلے بھی کئی بار ہوچکا ہے۔ پہلے بھی کئی بار سیاستدانوں اور ریاستی اداروں نے گٹھ جوڑ کرکے حکومتیں گرائی اور بنائی ہیں۔ بار بار کھیلے جانے والے اس کھیل سے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا‘ ادارے مضبوط نہیں ہوپائے ‘ ملکی معیشت کو نقصان پہنچالیکن ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ ہماری سیاسی اشرافیہ اتنی ناعاقبت اندیش ہے کہ اپنے وقتی مفاد کی خاطر ملک و قوم کے مفادات کی پرواہ نہیں کرتی۔ رہے عوام تو وہ سیاسی نوٹنکی کی تماش بینی سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ حکومتیں بنانے ‘گرانے کا یہ شوق انیس سو نوّے کی دہائی میں زور و شور سے جلوہ گر تھا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر دو بار باری باری ایک دوسرے کی منتخب حکومتیںگرائیںاور خود حکومتیں بنائیں لیکن دونوںلیڈر اپنی پانچ سالہ مدّت پوری نہیں کرسکے۔اس عرصہ میں ملک کی معیشت کا بھٹّہ بیٹھ گیا‘حکومتی ادارے برباد ہوگئے ‘کرپشن عروج پر پہنچ گئی۔ دونوں میں کوئی نظریاتی اختلاف نہیں تھا‘ صرف کرسی کی لڑائی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو کرپٹ کہتے تھے۔ دونوں طرف ایک جیسے روائتی اشرافیہ کے لوگ تھے جوسیاسی پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں۔ دونوں نے ریاستی اداروں کی مددسے حکومتیں بنائیں اور جب حکومت نہ رہی تو انہی اداروں کو بُرا بھلا کہا۔ جب جنرل مشرف نے اقتدار سنبھال لیا تو بے نظیر بھٹو اور نواز شریف متحد ہوگئے۔ میثاقِ جمہوریت کرلیا۔ جب سے یہ ملک وجود میں آیا ہے یہ گھناؤنا کھیل جاری ہے۔ قوم کی بڑی بدنصیبی یہ ہوئی کہ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ملک بننے کے صرف ایک سال بعد ہی رحلت فرما گئے۔وہ اپنی زندگی میں آئین سازی کے عمل کو پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے۔اس کا فائدہ اُن فتنہ پرور‘ اقتدار کے حریص لوگوں نے اُٹھانا شروع کیا جو ان کی طاقتور شخصیت کے سامنے دبے ہوئے تھے ۔ دوسری بڑی شخصیت لیاقت علی خان کی تھی۔ وہ ایک انتہائی دیانت دار‘ مخلص اور قابل رہنما تھے لیکن مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے بعض زعما ء نے لسانی ‘ نسلی بنیادوں پر اُن کے خلاف بھی مہم چلانے سے گریز نہیں کیا۔ دوسری طرف‘ بھارت میں جواہر لال نہرو اورسردارولبھ بھائی پٹیل سمیت کانگریس کے بڑے بڑے لیڈرز تھے جو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے مل جُل کر کام کررہے تھے‘اپنے ملک کا آئین بنا رہے تھے‘ ادارے قائم کررہے تھے‘ مملکت کی جڑیں مضبوط کررہے تھے۔ بھارت کی پارلیمان نے آزادی کے صرف دو سال بعدہی ملک کا دستور منظور کرلیا جو جنوری انیس سو پچاس میں نافذہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے ابتدائی دنوں میں سیاستدان اور اعلیٰ سرکاری افسرمالی طور پر بددیانت نہیں تھے لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ وہ اقتدار کی ہوس میں شدّت سے مبتلا تھے ۔ انہوں نے کرسی کی لڑائیوں میں ملک کوسیاسی طور پر مستحکم نہیں ہونے دیا ۔اس طرزِ عمل سے ملک کو شدید نقصان پہنچا۔ انیس سو اکیاون میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد آئین سازی کا عمل پسِ پشت ڈال دیا گیا‘ محلاتی سازشیں تیز ہوگئیں۔ ریاستی اداروں اور لالچی سیاستدانوں نے جوڑ توڑ کے ذریعے سات سال کے عرصہ میں کسی الیکشن کے بغیر چھ وزارئے اعظم کو منصب پر بٹھایا اور اُتارا۔سیاستدان ایک دسرے کے خلاف ریاستی اداروں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے ۔خود مال بناتے رہے‘ عوام کولفاظی سے بے وقوف بناتے رہے۔ اس وقت وزیراعظم عمران خان ایک کمزور حکومت کے سربراہ ہیں۔ قومی اسمبلی میں ان کی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل نہیں۔ ایم کیو ایم‘ مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے تعاون سے ان کی حکومت قائم ہے۔ سینٹ میں تو انہیں اتحادیوں سمیت بھی اکثریت حاصل نہیں۔ وہاں حکومت قانون منظور کروانے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ اگر اتحادی جماعتیںاپوزیشن سے مل جائیں توعمران خان کا اپنی حکومت قائم رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ان اتحادی جماعتوں کی ڈوریں ہلانے والوں میںبعض ریاستی ادارے بھی شامل ہیں۔ اگر موجودہ حکومت گرتی ہے تو اس میں اپوزیشن کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کا بھی ہاتھ ہوگا۔ یہ وہی کھیل ہے جو ماضی میں کئی بار کھیلا جاچکا ہے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ اِن محلاتی سازشوں سے ملک و قوم کو نقصان کے سوا کچھ نہیں ملا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ملکی معیشت کی پسماندگی کے پیچھے ایک بڑی وجہ ہمارا سیاسی عدم استحکام ہے۔ سیاسی افراتفری‘ بے یقینی کے ماحول میں کوئی تعمیری کام نہیں کیا جاسکتا۔ آج عمرن خان کی حکومت کو ختم کرنے کی خاطر ان کے خلاف جو دلائل دیے جارہے ہیں وہ محض بہانے ہیں‘ اصل میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد اور سیاستدانوں کی رنجشیں ‘ ذاتی مفادات ہیں۔کوئی عمران خان سے لاکھ اختلاف کرے لیکن وہ مالی طور پر ایک ایماندار آدمی ہیں۔ ان کی ٹیم کے اکثر لوگ ابھی تک کسی مالی اسکینڈل میں ملوث نہیں ہوئے۔ پاکستان جیسے ملک میںجہاں حکمرانوں کی کرپشن عام بات رہی ہے یہ بڑی خُوبی کی بات ہے۔اُن میں حکومت چلانے کے انتظامی تجربہ کی کمی ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ وہ دُور ہوجائے گی۔ کوئی بھی حکمران ایک دو سال میں اپنے منشور پر عمل درآمد نہیں کرسکتا۔ اسی لیے دستور میں حکومت کی مدت پانچ برس مقرر کی گئی ہے۔ عمران خان کو بھی پانچ سال حکومت کرنے کا پُورا موقع ملنا چاہیے تاکہ وہ اپنے پروگرام پر عمل کراسکیں۔ اگروہ ایسا نہیںکرسکیں گے تو قوم آئندہ الیکشن میںخود اُن سے حساب کتاب کرلے گی۔