ہمارے معاشرے کی بُنت ہی کچھ ایسی ہو چکی ہے کہ سیاسی ہل چل، خواہ کتنی ہی بے معنی کیوں نہ ہو، سماجی اہمیت کے ہر بڑے اور اہم موضوع کو کھا جاتی ہے۔پھر سیاسی بحث و مباحثے کا وہ طوفان اٹھتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ سوشل میڈیا سے مین سٹریم میڈیا تک ایک ہنگامۂ ہائو ہوسنائی دیتا ہے، ممکنہ سیاسی امکانات، سیاسی جوڑ توڑ۔ سیاست کی قلابازیاں،اس سیاسی ہل چل کے، آنے والے مستقبل پر اثرات پر قیاس آرائیوں کے گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں اور سرپٹ دوڑتے ہوئے یہ گھوڑے اتنی گرد اڑاتے ہیں کہ ہر شے دھندلی ہو جاتی ہے۔ یہ گرد لہر اس اہم ترین موضوع کو اپنی پلیٹ میں لے لیتی ہے۔ جس سے سماجی کی بہتری جڑی ہوتی ہے۔ یوں انسانوں کی تربیت کے حوالے سے عوامی شعور کو بیدار کرنے کے حوالے سے اور بہت سی پرانی خباثتیں جوکائی کی طرح ہمارے ذہنوں میں جمی ہوئی ہیں، ان کی صفائی اور منجائی کے حوالے سے ہر اہم موضوع پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ ذرا سی سیاسی ہل چل پر میڈیا ایسی، ہائپ بناتا ہے کہ اہم ترین موضوعات، سیاسی مباحث کی جگالیوں کے سامنے بے معنی اور غیر اہم لگنے لگتے ہیں۔ چند روز پہلے تک جب کراچی بارشوں کے پانی میں ڈوب گیا تھا تو ایک بحث اور مکالمے کا آغاز ہوا تھا کہ آخر کراچی جیسے کاسمو پولیٹن شہر کو کن طاقتوں نے اس حال تک پہنچایا۔ ٹی وی کے پروگراموں میں کالموں میں سوشل میڈیا پر بات ہونے لگی۔ میں نے ہی اس پر کالموں کی سیریز لکھی۔ پھر ارادہ تھا کہ اب یہ لکھنا ہے کہ کراچی کے عوام اب خود حالات کی باگ ڈورکیسے سنبھالیں۔ اپنے گلی محلوں کی صفائی ستھرائی کے لیے خود چھوٹے چھوٹے گروپ بنائیں۔ ان کی ذہنی تربیت کے لیے اگر ایسا مکالمہ اور بات چیت ہمارے میڈیا پر جاری رہتی تو پھر ہم کہہ سکتے تھے کہ میڈیا نے لوگوں کو شعور دیا۔ ان کی تربیت کی کہ کیسے حالات کو خود بدلنا ہے۔ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ موٹرو ے کا سانحہ ہو گیا چند ہفتے پھر اس سانحے کی نذر ہوئے۔ میڈیا پر پھر وہی لایعنی بحثوں کا سلسلہ چل پڑا۔ ہمیں بات کا رخ اس طرف موڑنا تھا یہ واقعات اب تواتر سے ہو رہے ہیں تو اس کی روک تھام کے لیے معاشرے کا ہر یونٹ اپنا کردار ادا کرے۔ لڑکے اور لڑکیوں کی تربیت کی سمت درست کرنی چاہیے۔ لڑکیوں کو سیلف ڈیفنس کی تربیت دینا چاہیے۔ لڑکوں کی ذہنی تربیت کی ضرورت ہے۔ عورت کا احترام بحیثیت ایک فرد ایک انسان کے انہیں سکھانا چاہیے۔ ہو سکے تو نصاب کا حصہ بنا دیں۔ یہ بھرپور مثبت اور تعمیری مکالمہ اور تحریری بحثیں اور تجاویز کا سلسلہ شروع ہونا چاہتے تھا کہ پاکستان کی سیاست کے منظر نامے پر حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا اکٹھ ہو گیا اور پاکستان سے انتہائی سنگین بیماری کے علاج کے لیے لندن جانے والے میاں نواز شریف نے ایک بھرپور خطاب بھی کر ڈالا۔ حکومت کے خلاف تحریک، لانگ مارچ، استعفیٰ لینے کے مطالبات نے ایک بار پھر ہمیں سیاسی مباحث کی طرف موڑ دیا۔ ایسے سیاسی مباحث کا نتیجہ صفر جمع صفر برابر صفر ہوتا ہے۔ سیاسی بحثیں اس قوم کو ایک نشے کی طرح لگ چکی ہیں۔ اپنے مستقبل اور بدحالی سے بے خبر، نوجوان بلاول کے اور مریم کے سیاسی مستقبل پر اپنی چونچیں لڑا کے خود کو ہلکان کیے رکھتے ہیں۔ کون ان کو سمجھائے کہ تم خود گوڈے گوڈے مسائل کے گرداب میں پھنسے، ان کے سیاسی مستقبل کے لیے ہلکان ہو رہے ہو۔ جو چھینک اور کھانسی کا علاج بھی لندن اور امریکہ شفا خانوں سے کرواتے ہیں، ہمہ وقت سیاسی مباحث کے اس نشے نے ہمارے سماج کی ذہنی نشو نما روک دی ہے۔ ایک نشہ ہے جو تباہی کی طرف لے کر جا رہا ہے کیونکہ اس سے معاشرے کو کچھ بھی تعمیری اور مثبت نہیں سکھایا جا رہا ہے۔ کالم لکھتے ہوئے خیال آیا کہ 23ستمبر کو یہ کالم شائع ہو گا اور 23ستمبر2020ء کو یعنی آج کے دن ڈاکٹر عافیہ کو امریکی جیل میں 10سال مکمل ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ عالمی طاقت نے نا انصافی اور ظلم کی انتہا کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ناکردہ گناہ میں 86سال قید کی سزا سنائی تھی۔ جس کے10سال 23ستمبر کو پورے ہو چکے ہیں۔ صد افسوس کہ ڈاکٹر عافیہ کی ہائی کے لیے ہر سیاسی جماعت نے الیکشن مہم میں بلند و بانگ دعوے کیے اوران کے خاندان کو یقین دلایا کہ حکومت میں آتے ہی وہ عافیہ کی رہائی کے لیے امریکہ سے بات کریں گے لیکن پیپلزپارٹی، ن لیگ اور اب تحریک انصاف کی حکومت نے بھی اس حساس قومی مسئلے کو اقتدار میں آ کر مسلسل نظرانداز کیا۔ لا یعنی بحثوں میں اپنا قیمتی وقت برباد کرتے بے سمت معاشرے کے لوگ اور حکمران ایسے ہی ہوتے ہیں۔ حمیت اور غیرت سے بالکل عاری پاکستانیوں کے سینے میں سیدھی گولیاں اتارنے والا امریکی جاسوس قاتل ریمنڈ ڈیوس کی ’’باعزت رہائی‘‘ کے لیے انصاف اور قانون پورا نظام زمیں بوس ہو جاتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بدلے بھی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی پر مذاکرات کیے جا سکتے تھے لیکن کرتا کون ؟یہ موقع گنوا دیا گیا۔ اب امریکی جیلوں میں کورونا شدت سے پھیلا ہوا ہے۔ عافیہ کی دکھی بہن ڈاکٹر فوزیہ حکومت پاکستان سے اپیل کر رہی ہیں کہ ان کی بہن ڈاکٹر عافیہ کی کچھ عرصے سے کوئی خبر نہیں آئی۔ قید تنہائی، تشدد، جنسی درندگی اور کورونا کے وار، مسلسل اذیت کے دس برس عافیہ امریکی جیل میں گزار چکی ہیں۔ مجموعی طور پر جبر کے 17سال اس پر بیت چکے ہیں۔ کوئی اہل انصاف، اہل دل اہل ضمیر ہے تو اس پر سوچے۔ وزیر خارجہ اور ان کی سرپر ستی میں کام کرنے والے وزارت خارجہ نے کوئی لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔ امریکہ جیلوں میں کورونا کے باعث قیدیوں کی رہائی ہوئی ہے تو عافیہ کے معاملے پر مدلل مذاکرات کر کے عافیہ صدیقی کو بھی پاکستان واپس لایا جا سکتا ہے۔ امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے کو بھی اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ حکمرانوں سے لے کر اہل اختیار تک اور پھر عوام تک۔ سب سیاست کی لایعنی بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ ادھر امریکی قید خانے میں۔ قطرہ قطرہ پگلتی ہوئی زندگی۔ آواز دے رہی ہے کہ خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک۔ کوئی ہے جو اس پکار کا جواب دے!!