پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سیاسی قیادت نے بھارتی جارحیت کی کھل کر مذمت کرتے ہوئے پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے۔ مملکت خداداد پاکستان پر جب بھی مشکل وقت آیا،سیاسی حریفوں نے تمام اختلافات ایک طرف رکھ کر ملکی سلامتی کے لئے کردار ادا کیا۔ کیونکہ ملکی سلامتی ہر پاکستانی کی سب سے پہلی ترجیع ہے۔ کارگل محاذ پر جب بھارت نے جنگ چھیڑی تو تمام سیاسی جماعتیں ایک صف میں کھڑی ہو گئیں۔ سابق آمر پرویز مشرف کے دور 2002ء میں جب بھارت سرحدوں پر فوج لے آیا تب بھی سیاسی جماعتوں نے ذاتی اختلافات کو بھلا کر سابق آمر کا ساتھ دیا۔2014ء میں پشاور آرمی پبلک سکول پر جب دہشت گردوں نے حملہ کیا تو تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف اسلام آباد میں جاری دھرنے کو ختم کر کے ملک میں امن کے لئے میاں نواز شریف کا ساتھ دیا۔ ایسے ہی مودی نے جب سرحد پر دراندازی کی تو اپوزیشن جماعتوں نے کھل کر اس کی مذمت کی۔ دو روز قبل بھارتی طیاروں نے جب بالا کوٹ کے علاقہ جابہ میں ہتھیار پھینکے تو اپوزیشن جماعتوں نے مودی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ پاکستان امن پسند ملک ہے اور ہمیشہ ہی امن کا داعی رہا ہے۔ لیکن بھارت اول روز سے پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے۔1948ء میں بھارت نے اس نیت سے پاکستان پر حملہ کیا تھا کہ وہ اسے ہڑپ کر لے گا لیکن اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی نوزائیدہ مملکت کے محافظوں نے بھارت کے دانت کھٹے کر دیے ۔1965ء میں بھارت نے بزدلانہ طریقے سے رات کے اندھیرے میں چھپ کر حملہ کیا لیکن چونڈہ کا محاذ اس کے لئے قبرستان ثابت ہوا۔1971ء میں مکتی باہنی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ہمارا مشرقی بازو الگ کیا گیا۔ بھارت صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے میں دیگر ممالک کو بھی عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے سازشیں کرتا رہا ہے۔ نیپال میں کمیونسٹ پارٹی مائو نواز کی سرپرستی کر کے نیپال میں شورش برپا کی گئی۔1996ء سے 2006ء تک پورے دس برس بھارت نے نیپال کے ناک میں دم کئے رکھا۔ سری لنکا کے تامل ٹائیگرز کو 25سال تک (را) نے اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا۔ جس کے باعث سری لنکا میں غربت‘ بے روزگاری کو فروغ ملا۔ اور عدم استحکام کی وجہ سے سری لنکن معیشت پائوں پر کھڑی نہ ہو سکی۔ اسی طرح بھارت نے بھوٹان کو اپنے زیرنگین رکھنے کے لئے وہاں پر حالات کو خراب کرایا۔ چین کے ساتھ 1962ء میں بھارت جنگ کر چکا ہے جس میں اسے اپنے علاقے اکسائی چن سے ہاتھ دھونے پڑے۔ بھارت پاکستان پر 4مرتبہ جنگ مسلط کر چکا ہے اور اس نے مقبوضہ کشمیر پر 70سال سے غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے ،اس کے باوجود وہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر امن پسند ہونے کے دعوے کرتاہے۔ دنیا کو بھارتی مکاری پر تب ہی یقین آ جانا چاہیے تھا جب وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے سے قبل بھارت کو امن کا پیغام دیا۔ حالیہ کشیدگی کے دوران بھی عمران خان نے 2مرتبہ بھارت کو بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی دعوت دی ۔ لیکن بھارت نے اس کا جواب نہیں دیا۔ عالمی برادری اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیا۔26فروری کو جب بھارتی طیارے بالا کوٹ میں آئے تب بھی پاک فضائیہ نے انہیں ٹارگٹ نہیں کیا کیونکہ پاکستان پہلے نقصان کا جائزہ لے کر اس کا جواب دینا چاہتا تھا۔ لیکن 27فروری کو بھارتی طیارے پاکستانی فضا میں آئے تو پاک فضائیہ نے اپنے دفاع میں حملہ کیا‘ جس کے فوراً بعد وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارت کو ایک بار پھر امن کی جانب توجہ دلوائی اور افہام و تفہیم سے مسائل حل کرنے کا کہا۔ لیکن بھارت ابھی تک اپنی شرارتوں سے باز نہیں آ رہا۔ لیکن عالمی برادری کی اس موقع پر خاموشی تشویشناک ہے۔ پاک بھارت حالات کی کشیدگی کا سب سے زیادہ نقصان امریکہ کو ہو گا کیونکہ علاقائی کشیدگی سے امریکہ اور طالبان کے مابین جاری مذاکرات کٹھائی میں پڑنے کا خدشہ ہے، اس لیے امریکی صدر کو پاکستانی وزیر اعظم کی امن کی بات کو لے کر بھارت پر زور دینا چاہیے کہ وہ خطے کو عدم استحکام سے دوچار مت کرے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں امن کو ایک اور موقع دیتے ہوئے خیر سگالی کے تحت بھارتی ونگ کمانڈر پائلٹ ابھی نندن کو رہا کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن بھارت ابھی تک نہتے شہریوں پر فائرنگ سے باز نہیں آ رہا۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے ایوان میں کھڑے ہو کر اسی مشکل گھڑی میں حکومت اور پاک فوج کے شانہ بشانہ چلنے کا اعلان کیا ہے،جو پاکستان کی طرف سے بھارت کو واضح پیغام ہے کہ پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح دشمن کے سامنے کھڑی ہے۔ بھارت ہماری صلاحیتوں سے آگاہ ہے اس لئے وہ ایسی شرارتوں سے باز آئے‘ کیونکہ یہ خطہ اب ایسے حالات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مودی سرکار نے صرف اقتدار کے لئے یہ تماشا لگایا ہواہے جو اس کے گلے پڑ گیاہے۔ اگر حالات کنٹرول سے باہر ہو گئے تو پھر مودی کا آئندہ اقتدار کا خواب بھی چکنا چور ہو جائے گا، اس لئے مودی وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی پیشکش پر غور کریں اور دونوں ممالک کو جنگ میں جھونکنے سے باز رہیں۔ بھارتی اپوزیشن کی 21جماعتیں بھی مودی کی جنگی پالیسی کے خلاف ہیں۔ بھارت کی سیاسی جماعتیں اگر الیکشن سے قبل نگران سیٹ اپ کا فارمولا اپنا لیں تو ہر پانچ سال کے بعد انتخابات کے قریب جنگی حالات سے چھٹکارا مل جائے گا۔ اس پر بھارتی سیاسی جماعتوں کو غور کرنا چاہیے۔ تاکہ مستقبل میں ایسے حالات سے بچا جا سکے۔ بھارتی اپوزیشن جماعتیں مودی کے مذموم عزائم سے اپنے عوام کو آگاہ کریں۔ کیونکہ پاکستان خطے میں امن‘ پیار اور محبت کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔