تم ہمیشہ یاد رکھے جائو گے۔ تمھارا ماضی کسی حوالے سے ،تمھارا آج اور آنے والا کل۔ آئندہ نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ جب تبدیلی کا ذکر ہو گا۔ تمھارا نام سب سے پہلے لیا جائے گا۔ روایتی دیواروں میں جس شخص نے پہلی بار دراڑ ڈالی ، اس کے عین سامنے تمھارا نام ضرور لکھا جائے گا۔ تنقید اس لئے ضروری، تاکہ اصلاح کی صورت غالب آ سکے۔ تعریف اس لئے ضروری، تاکہ حوصلہ افزائی ہو سکے۔ لازم تو نہیں ہر شخص جانبداری کا چشمہ پہنے ہو۔ وزیراعظم عمران خان کے ماحولیات کے تحفظ پر اقدام ہمیشہ اس لئے بھی یاد رکھے جائیں گے کیونکہ جب ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے تھے تو یہی وہ شخص تھا جسے نا صرف اس بات کا ادراک تھا بلکہ فکر بھی نمایاں تھی۔ سیاست کی پیچیدگیاں کچھ دیر کو بھلا کر دیکھنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے روایتی سیاستدانوں کی نسبت کیسے ایک منفرد لیڈر کو پایا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا۔ سیاست کو کچھ دیر کے لئے بھلا دیتے ہیں۔ جس فضا میں ہم سانس لیتے ہیں، وہ کس قدر زہریلی ہے، ہم میں سے ماسوائے متعلقہ مضمون پڑھنے والوں اور ماحولیات ادارے کے کوئی نہیں جانتا تھا۔ خیبر پختون خواہ کی حکومت ملنے پر عمران خان صاحب نے بلین ٹری سونامی کا جو اقدام اٹھایا، اسے اکثر روایتی سیاستدانوں سمیت انہیں کے کارکنوں نے دیوانگی قرار دیا۔ کئی آوازیں تو اس مقصد کے خلاف اٹھیں۔ کسی نے کہا کہ: خان انفراسٹرکچر کی بجائے پورا زور بیجوں بارے معلومات پر لگا رہا ہے تو کسی کا طنزیہ قہقہہ ہی کافی تھا۔ لیکن پھر جو ہوا وہ سبھی نے دیکھا۔ ناقد بھی تعریف پر مجبور تھے۔ جانبداری کی عینک اتار کر جو کوئی بھی خیبر پختون خواہ گیا۔ اس نے اعتراف کیا کہ کس جانفشانی کے ساتھ یہ منصوبہ مکمل کیا گیا۔ اس سے پہلے ایسے پراجیکٹ انگریزی چینلز پر سنتے تھے فلاں ملک کی حکومت اب عوام کے لئے اس کام میں جت گئی۔ فلاں ملک کی تازہ ہوا کی وجہ اتنے فیصد پر پھیلا وسیع و عریض جنگل ہے۔ لیکن کیا کریں۔ ہم جیسے ترقی پذیر ممالک میں اکثر گلی سڑی سوچ کے حامل لوگوں کو یہ کل بھی دیوانگی لگتی تھی اور آج بھی۔ ابھی شجر کاری مہم پر بات کریں تو ماضی کی کسی بھی حکومت کا مفاد اس سے رتی بھر زیادہ نہ تھا کہ فلاں تاریخ سے ہفتہ بھر یہ مہم جاری رہے گی۔ متعلقہ روز وزیراعظم یا صدر اپنے ہاتھ سے پودہ لگانے کی فنکاری کرتے تھے، فوٹو شوٹ اور قصہ ختم۔ نہیں یاد کوئی ایسے بھی مختلف جگہوں کی خاک چھانتا ہو گا جیسے عمران خان۔ ابھی خان صاحب سیاحتی مقام ناران گئے۔ جنہوں نے بھی اس مقام کی سیر کی ہے بخوبی اس کی خوبصورتی سے واقف ہیں۔ پھر جب ان حسین راستوں کو کنہار جیسا دریا چار چاند لگا دے تو قیام کئے بنا چارہ نہیں۔ ان راستوں سے ہر بار گزر کر ایک منفرد تازگی کا احساس جگاتا ہے۔ پانی کا تیز بہائو، پتھروں سے ٹکراؤ پر شور مزید گہرا ہو جاتا ہے۔ صاف شفاف ہوا جو بھوک کی شدت کو بھی کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ ایک ساتھ بہت سے ہوٹل سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ دریائے کنہار اور ٹراؤٹ مچھلی لازم وملزوم ہیں ورنہ اس علاقے میں سیاحت کا مزا کرکرا ہو جاتا ہے۔ عمران خان نے کم و بیش تیس ہزار ٹراؤٹ مچھلیاں دریا کی نذر کیں تاکہ افزائش کا عمل تیز اور بہتر ہو۔ ساتھ ہی ناران کو عالمی سطح کا سیاحتی مقام بنانے کے لئے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں۔ ذرا ذہن پر زور دیجئے پہلے کس سیاسی لیڈر کو اس قسم کے کاموں میں الجھتے ہوئے دیکھا؟ کیا یہ بھی اعزاز کی بات نہیں کہ تاریخ میں پہلی بار پاکستان نے عمران خان کی قیادت میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کو ہوسٹ کیا۔ اس سے پہلے یہ دن پاکستان کے نصیب میں کبھی اس لئے نہیں آیا کیونکہ روایتی سیاست کرنے والوں کا سارا زور سیمنٹ، سریا اور اپنے لئے آسائش کے نمونے کھڑے کرنے پر رہا۔ ماحول کتنا حساس مسئلہ ہے اس پر لا علمی کے ریکارڈ سبھی نے توڑے۔ آج دنیا یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ ہم نے بہت تیزی کے ساتھ اس خطرے پر قابو پایا ہے۔طاقتور ممالک کے لیڈران تسلیم کر رہے ہیں کہ عمران خان کا 'ٹین بلین ٹری ' سونامی آبی حیات سمیت قدرتی ماحول کے لئے ایک شاندار منصوبہ ہے۔ یہ درست بات ہے ترقی کی سیڑھی انفراسٹرکچر بہتر ہونے پر منحصر ہے مگر اس کے لیے پیشتر زمین کو گنجا کرنا سراسر زیادتی ہے۔ یہ کسی ایک شہر کا مدعا نہیں اکثریت پر مشتمل ہے۔ آج تصور نہیں کیا جا سکتا کہ ہم نلکے کا پانی پی سکے۔ نہری پانی کو ترجیح دے سکیں۔ یہ ترقی نہیں پریشان کن صورتحال ہے کہ فلٹر شدہ پانی خرید کر پیتے ہیں۔ کبھی دلی شہر دنیا میں آلودگی پر پہلے نمبر تھا۔ کیا یہ جان کر ہوش نہیں اڑتے کہ اب لاہور شہر آلودگی کا ٹھپہ لگوا کر سب سے آگے کھڑا ہے۔ باغوں کا شہر کہلانا ماضی کا قصہ ٹھہرا۔ زور دے کر کہا جاتا تھا ' نیئں ریساں شہر لاہور دیاں ' اور 'جنے لہور نہیں ویکھیاں او جمیا نئیں ' اب کس منہ سے کہیں گے۔ خادموں نے اس شہر کو پیرس بناتے بناتے آلودگی کا گڑھ بنی ڈالا۔ پچھلے دس برسوں میں اس شہر کو اتنے بھونڈے انداز میں وسعت دی گئی کہ ستر فیصد درخت ہی کاٹ دیئے گئے۔ ماحول بارے عمران خان کے اقدامات اور فکر پر کئی کاوشیں تحریر ہو سکتی ہیں جنہیں ایک کالم میں سمویا نہیں جا سکتا۔ مگر سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کی تاریخ میں جب بھی ماحول پر اقدامات کی بات ہو گی۔ عمران خان کو سب سے اوپر رکھا جائے گا۔ لوگوں کو ماحول کی اہمیت سے لے کر اقدام اٹھانے تک جیسے عمران خان نے روشناس کروایا ویسے اقتدار کی مسند پر بیٹھے کسی دوسرے لیڈر نے نہیں۔ مگر مقابلہ کسی بھی بحران سے ہو قوم کے ساتھ کے بغیر ممکن نہیں۔ سیاسی اختلافات کو بھلا کر اپنے حصے کا مقابلہ سبھی کو کرنا ہو گا کیونکہ یہ فرد واحد نہیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے ہے۔