ملیں ہم کبھی تو ایسے کہ حجاب بھول جائے میں سوال بھول جائوں تو جواب بھول جائے تو کسی خیال میں ہو اور اسی خیال ہی میں کبھی میرے راستے میں گلاب بھول جائے یہ بھول بھی کیا شے ہے کہ کبھی اس میں کرشمہ سازی بھی ہو سکتی ہے۔ روز کہتا ہوں بھول جائوں اسے۔ روز یہ بات بھول جاتا ہوں۔ مجھے یہ سب کچھ خان صاحب کی وجہ سے یاد آ رہا ہے کہ انہوں نے دو سال گزرنے کے بعد رقیب رو سیاہ پر سوال داغ دیا ہے کہ ملک اس حال میں چھوڑنے والوں سے جواب طلب کیا جائے؟سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا۔ خان صاحب کو اب معلوم ہوا ہے کہ 1200ارب کا سرکلر ڈیٹ تھا توانائی کے منصوبے اور معاہدے سابق حکومتوں کے ہیں۔ معیشت کا برا حال تھا 20ارب کا خسارہ تھا وغیرہ وغیرہ۔ منیر نیازی ہوتے تو نواز شریف کی طرفداری میں بول اٹھتے: کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے مگر یہاں تو معاملہ اور بھی دلچسپ ہے کہ خان صاحب کس سے استدعا کر رہے ہیں وہ جانے والوں سے سوال کرے اور جواب مانگے۔ اگر خان صاحب برا نہ منائیں تو اس سے تو یہی سمجھ میں آ رہا ہے کہ آپ کو جو لے کر آئے ہیں انہوں نے آپ کو حقیقت سے آگاہ نہیں کیا۔ یہ تو ایسے ہی لگتا ہے کہ آپ کے خلاف ایک سازش ہو گئی ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ میں آیا نہیں لایا گیا ہوں۔چھوڑنے والے بھی کب خود چھوڑ کر گئے ہیں۔ بہرحال یہ تبدیلی کس تبدیلی کے لئے تھی اور اسے کون روک سکتا تھا۔ روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی ہے۔ سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے نہایت خاموشی کے ساتھ خان صاحب کی تقریر سنی اور اس رویے کو بیک ڈور مذاکرات کا نتیجہ کہا جا رہا ہے۔ ویسے بھی یہ تقریر گہرائی میں حکومت کی ناکامی ہی کا اعلان تھا چلیے ایک بات تو آپ نے ایسی کہہ دی کہ آپ کے سات خون معاف کہ آپ نے اسامہ کو شہید قرار دے دیا۔ اس بیان پر کتنوں پر موت واقعہ ہوئی ہو گی۔ اس حوالے سے اپنا ایک شعر یاد آ گیا: یہ کیا ہوا کہ اک مرے مرنے کی دیر تھی یکم دم ہی جی اٹھے مرے دشمن مرے ہوئے بہرحال کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ۔ چلیے بات آگے چلاتے ہیں کہ ایسا لگ رہا ہے جیسے تبدیلی آئی نہیں آنے والی ہے۔ دیکھیے منظر کب کھلتا ہے۔ منتظر تو سب ہیں۔سوال تو خان صاحب سے پوچھنا چاہیے کہ آپ اتنے تہی دست تھے تو کیوں آئے: زور و زر کچھ نہ تھا تو بارے میر کس بھروسے سے یہ آشنائی کی آپ نے تو آتے ہی وزیر اعظم ہائوس کی بھینسیں تک بیچ دیں کہ یہ بھی لگژری ہے۔ پھر پروٹوکول سے ہاتھ اٹھانے کا اعلان کر دیا اور جہاز پر سواری میں بھی دیر نہ لگائی اور اسے حاشیہ بردار کفایت شعاری بتاتے رہے کہ اس پر سفر بہت سستا پڑتا ہے۔ آپ کے وزراء نے بھی پروٹوکول کے دعویٰ کا ستیا ناس کر دیا۔ تعمیر شروع کی تو تجاوزات کے خاتمے کا خیال آیا تو جھونپڑی والوں کو بھی بے آسرا کر دیا۔ نوکریوں کا اعلان کیا تو بے روزگاری کی ہوا چلنے لگی۔ مکانوں کا تذکرہ میں نہیں کروں گا۔سو دن کی بات پھر بات گئی اور رات گئی اور بات۔اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ اسد عمر جیسا سقراط اور مراد سعید بقراط۔ہنسی نہ آئے تو کیا آئے مگر کیا کریں: پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی آپ نے تو چوروں اور ڈاکوئوں کا حشر نشر کرنا تھا مگر سیلاب بلا کا رخ تو عوام کی طرف ہی رہا۔ مہنگائی نے ان کی کمر توڑ دی۔ آٹا چینی کا سکینڈل اور پھر حالیہ پٹرول کا بحران اور کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔ ہائے ہائے آپ کی بے بسی‘ ترین اور خسرو بختیار آپ کی بکل سے نکلے۔اب تو حد ہی ہو گئی کہ فواد چودھری نے بیچ چوراہے بھانڈا پھوڑ دیا اور اپنی حکومت کی بربادی اور ناکامی یا زوال کے اسباب بیان کر دیے۔ اسد عمر اور شاہ محمود کا بھولپن کہ فواد سے استعفیٰ لینے کی بات کرتے ہیں۔ اس کے استعفیٰ سے کیا ہو گا۔ آپ سب سارے استعفیٰ بھی دے دیں تو کچھ نہیں ہونے والا۔ بات زیادہ بگڑ چکی ہے اب آپ کی قربانی سے بھی کچھ نہیں ہو گا: تیری وفا سے کیا ہو تلافی کے دہر میں تیرے سوا بھی ہم یہ بہت سے ستم ہوئے بلاول اور خواجہ آصف عمران خاں کو مباحثے کا چیلنج دے رہے ہیں۔ ان کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی تقریر سے لگ رہا تھا کہ وہ آخری تقریر کر رہے ہیں۔ ہائے اس قوم کی بے بسی کہ جس پر بلاول اور خواجہ آصف بغلیں بجا رہے ہیں اور وہ قوی امید رکھتے ہیں کہ قوم ایک مرتبہ پھر ان کا ترنوالہ بننے جا رہی ہے۔ جو بھی اٹھتا ہے وہ جالینوس نظر آتا ہے۔ فیاض چوہان صاحب کو بھی روزانہ ایک بیان ضرور جاری کرنا ہوتا ہے۔ اب فرماتے ہیں بجٹ کی تیاری میں عوامی رائے کو مقدم رکھا گیا۔ اب بتائیے یہ مذاق نہیں تو کیا ہے۔ کیا تنخواہ دار عوام میں نہیں آتے۔ شہباز شریف نے بالکل درست کہا ہے اور بار بار کہا ہے کہ ملازمین کی تنخواہیں 15فیصد بڑھنی چاہیے۔ ان کی بات کسی کو سنائی نہیں دیتی۔ان کا تو تعمیری کام بھی کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔ ہر وز اور نج ٹرین کا ٹریک لاہوریوں کا منہ چڑاتا ہے۔ آخر وہ کام حکومت نے کیا جس کا اندیشہ تھا۔ اربوں روپے جو خرچ ہوئے بے کار گئے۔ مجرم کون؟قوم آخر محاسبہ کرے گی۔ بزدار صاحب کے بیانات سے کام نہیں چلے گا۔ یہ وبا اور عذاب کے دن اللہ کرے ختم ہوں: اتنا آسان نہیں لہو رونا دل میں طاقت جگر میں حال کہاں آخر میں مجھے پرسہ دینا ہے کہ ہمارا بانکا سا شاعر سید آل عمران ہمیں چھوڑ گیا۔ دلی دکھ ہوا۔ اس کا تعلق پوٹھوہار سے تھا۔ اکادمی کی کانفرنس میں اس سے ملاقات ہوئی تھی ہائے ہائے کتنا وہ خوبرو تھا۔ مسکراتا تو پھول جھڑتے تھے۔ وہ بیمار تھا دعا تو کسی نے نہیں کی مگر مشیت تو خدا کی ہے اس کی ادب کے لئے بہت خدمات ہیں وہ اینکر بھی تھا اور شاعر بھی۔ اس کے لئے ایک شعر: اس کا چہرہ جو نظر آتا ہے چاند آنکھوں میں اتر آتا ہے اس کی بخشش کے لئے اللہ باری تعالیٰ سے اس کے محبوبؐ کے صدقے دعا کیجیے۔ اللہ اس کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔آمین