اسلام آباد سیاسی کھسر پھسر کا سب سے بڑا گڑھ ہے، کوئی دن جاتا ہو گا کہ کوئی نئی سازش ڈرائنگ رومز گپ شپ سے نکل کر زبان زد خاص و عام نہ ہوتی ہو گی۔دھاندلی کا شور جاری ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ کچھ سیاسی کھسر پھسر بھی زور شور سے ہو رہی ہے جو حکومت کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی اسے گرانے یا چند ماہ میں فارغ ہو جانے کے بارے میں مختلف تھیوریوں پر مشتمل ہے۔2002 ء میں بننے والی حکومت سے لیکر 2018 ء میں متوقع حکومت کے قیام کے حوالے سے سازشی تھیوریوں کا انبار ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد سے پہلے ڈرائنگ رومز میں پلنے والی سیاسی سازشیں یا افواہیں سینہ گزٹ چلتی تھیں۔ خبر کی صورت میں چھپنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس وقت ایڈیٹر کاانسٹی ٹیوشن بہت مضبوط تھا اور خواہش کو خبر بنانے والے رپورٹر کی خیر نہیں ہوتی تھی۔ اس قسم کی کھسر پھسر کو رپورٹ کرنے کا فن ہمارے کچھ سینئر اور ہم عصر انگریزی قلم کار کمال مہارت سے استعمال کرتے تھے۔انگریزی اخبارات میں چھپنے والی سیاسی ڈائریاں وہ واحد ذریعہ تھیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ آجکل کونسی سازشی تھیوری ڈرائنگ رومز میں زیر بحث ہے۔ ان میںشریک با خبر لوگ اکثراس حال میں گفتگو کرتے تھے کہ اکا دکا سچ بھی سامنے آجاتا تھا اور وہ بریکنگ نیوز ہوتی تھی۔یہ سیاسی ڈائریاں زیادہ تر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کے دوران تحریر کی جاتی تھیں اس لئے جن دنوں یہ اجلاس نہیں ہو رہے ہوتے تھے تو قارئین اس قسم کی کھسر پھسر سے لا علم رہتے تھے۔ سوشل میڈیا کے دور میں افواہیں اور سیاسی تھیوریاں بریکنگ نیوز کی طرح میسر ہیں۔ ہر لمحے کسی نہ کسی طرف سے کوئی نہ کوئی افواہ وارد ہو رہی ہوتی ہے اور بعض دفعہ تو یہ خبر کی صورت میں الیکٹرانک میڈیا پر جلوہ گر بھی ہو جاتی ہے۔موجودہ صورتحال میں حکومت سازی کے حوالے سے ہر قسم کا اندازہ خبر بن رہا ہے۔شاید اب ان سیاسی ڈائریوں کی اخبارات میں ضرورت نہیں رہی ۔ اب ذکر کچھ تازہ ترین سیاسی سازشی تھیوریوںکا، پہلی سازشی تھیوری انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور اسکے نتیجے میںاپوزیشن کا احتجاجی اتحاد بننے کے حوالے سے ہے۔ دھاندلی کے حوالے سے مختلف تبصرے، طنز اور اندازے لگائے جا رہے ہیں، احتجاج بھی ہو رہا ہے۔ ڈرائنگ روم ایکسپرٹس کا خیال ہے کہ یہ ابھی ڈھیلا ڈھالا اتحاد رہے گا، جوں ہی محسوس کیا جائے گا کہ نئی حکومت اپنے پنجے گاڑتے چلے جا رہی ہے اور احتساب کا عمل بھی رفتار پکڑ رہا ہے تو یہی اتحاد ایک بھر پور تحریک میں تبدیل ہو سکتا ہے جو سیاسی نظام کو اتھل پتھل کر کے رکھ دے گا جس کا فائدہ کسی اور کو ہو گا۔ دوسری سازشی تھیوری میاں نواز شریف کو این آر او دئیے جانے یا مانگے جانے کے حوالے سے ہے۔ اگرچہ میاں شہباز شریف نے بڑے بھائی سے حالیہ ملاقات کے فوراً بعد اس تاثرّ کی نفی کی ہے لیکن ہمارے باخبر اور ماہر تبصرہ نگار اسکو ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ انکا خیال ہے کہ میاں نواز شریف کی والدہ کی ایک مقتدر شخصیت سے اس حوالے سے جو بات ہوئی ہے اس پر رد عمل حوصلہ افزا ہے۔لیکن دوسری طرف ماہرین اور مسلم لیگ (ن) کے با خبر لوگ کہہ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کوئی ڈیل نہیں کریں گے بھلے انہیں دس سال جیل میں گزارنے پڑیں۔ تیسری سازشی تھیوری جو ان سب کی ماں ہے وہ بہت دلچسپ اور حیرت انگیز ہے اور کیوں نہ ہو اس میں ہمیشہ کی طرح بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا تڑکا لگایا گیا ہے۔کسی شاطر نے ایسا سازش کا تانہ بانہ بنا ہے کہ پہلی دفعہ سن کر یقین کرنے کو دل کرتا ہے۔۔ تھیوری کا آ غاز میاں نواز شریف کی لندن واپسی سے ہوتا ہے جو انہیں سیدھا جیل پہنچانے کا باعث بنی۔ بیان یہ کیا جاتا ہے کہ انہیں بین الاقوامی گارنٹی کے ساتھ بھیجا گیا ہے کہ جا کر عدالتوں اور سزا کا سامنا کریں آپ کے خلاف لندن کی جائیدادوں کے حوالے سے غلط فہمیوں کا ازالہ ہم خود کریں گے۔ پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں جو ان جائیدادوں کے حوالے سے میاں نواز شریف کو الزامات سے چھٹکارا دلائیں گے۔ کہا کہ برطانیہ کے Unexplained World Order میں ترمیم کے لئے پارلیمنٹ میں بل پیش کر دیا گیا ہے جس کے تحت انکی کرپشن کے خلاف کام کرنے والی ایجنسیاں آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کر سکیں گی اور برطانیہ میں موجود جائیدادوں کے حوالے سے مالکان کے بارے میں بھی معلومات حاصل کر سکیں گی۔پھر کیا ہو گا؟ جواب ملاکہ کچھ نہیں سمجھے! ہم نے معصومیت سے نفی میں سر ہلایا۔ ہمارے با خبر دوست نے انتہائی رازداری کے انداز میں بتایا کہ برطانوی ایجنسیاں میاں نواز شریف کے بچوں کی جائیدادوں کی تحقیقات کر کے انہیں قانونی قرار دیں گی اور انکی منی ٹریل کو بھی درست بتائیں گی۔اسکے بعد پاکستان کی حکومت، نیب اور عدالت کے پاس کیا قانونی اور اخلاقی جواز ہو گا کہ وہ میاں نواز شریف کو جیل کے اندر تو کیا سیاست سے باہر بھی رکھ سکیں۔ ایک نیا نواز شریف اسکے بعد جنم لے گا جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے کشتوں کے پشتے لگا دے گا اور اسے کوئی طاقت روک نہیں پائے گی۔ دھاندلی پر احتجاج کرنے والے بھی اسکے پیچھے صف آراء ہونگے اور بین الاقوامی قوتیں تو پہلے اسکو مکمل حمایت کا یقین دلا چکی ہیں۔لیکن برطانیہ یا کوئی اور طاقت ایسا کیوں کرے گی؟ جواب ملا کہ ایم کیو ایم کا قائد تو صرف کراچی کنٹرول کرتا تھا اسکے خلاف تین سال کی تحقیق کے بعد ٹھوس ثبوت برطانوی حکومت کو پاکستان نے فراہم کئے تھے لیکن انہوں نے اپنے بندے کو کلین چٹ دے دی۔ ایک شخص جو پورے پاکستان پر کنٹرول رکھ سکتا ہو اسکی وہ کیوں مدد نہیں کریں گے۔جب ہم نے با خبر دوست سے یہ تھیوری سنی تو دو دن تک واقعی یقین کی سی کیفیت میں گزارے ۔ اوسان بحال ہوئے تو غور شروع کیا تو پتہ چلا کہ تھیوری کمال کی ہے لیکن عملاً زیرو ہے۔ العزیزیہ سٹیل مل اورہل میٹل سٹیل سمیت اور بھی تو معاملات ہیں جن کا مغرب کے کسی ملک سے کوئی تعلق نہیں۔