12 جنوری کو اِنڈیا کی فوج کے سربراہ جنرل منوج مکندا نروانے اپنی سالانہ نیوز کانفرنس میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ اِنڈیا سیاچن گلیشیئر سے فوج ہٹانے کے خلاف نہیں ہے تاہم پاکستان کو ایکچوئل گراؤنڈ پوزیشن لائن (اِے جی پی اَیل) کو پیشگی شرط کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔ پاکستان کی طرف سے ابھی تک اِس بیان پر باضابطہ ردِ عمل نہیں آیا۔ تاہم پاکستان اور انڈیا کے باہمی تعلقات کی نوعیت جبکہ انڈیا اور چین کے مابین سرحدی کشیدگی کے تناظر میں انڈین فوج کے سربراہ کے حالیہ بیان کا جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ آخر یہ بیان دینے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟ جبکہ اِس وقت اِس قِسم کے بیان سے اِنڈیا کیا فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ اِن دو سوالات کے جوابات دینے سے قبل ضروری ہوگا کہ اِس بات کو سمجھا جائے کہ پاکستان اور انڈیا کے مابین سیاچن کا تنازعہ کیا ہے؟ سیاچن تنازعہ کی ابتداء ریاست جموں و کشمیر پر اِنڈیا کے زبردستی اور ناجائز قبضے کے نتیجے میں مسلح تنازعہ سے ہوئی ہے جو کہ 1947 میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان شروع ہوا تھا۔ شملہ معاہدے کے بعد تیار کی گئی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) نے لائن کی شمالی انتہا کی وضاحت کی تھی۔ اِسی طرح جیسا کہ 1949 سیز فائر لائن (CFL) کے نقشوں میں تھا۔ 1949 کے نقشے کے وضاحت کے مطابق "اس سے شمال کی طرف باؤنڈری لائن کے ساتھ ساتھ پوائنٹ 18402 سے NJ 9842 تک جاتی ہے"۔ لائن NJ 9842 پر رک گئی اور گلیشیئرز تک آگے نہیں بڑھی۔ 1971 کی جنگ شملہ معاہدہ کے تحت سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا جو کہ شمال میں آخری پوائنٹ 9842 تک جاتی ہے جبکہ اِس سے آگے کے علاقے میں زمینی طور پر نشاندہی نہیں کی گئی تھی لیکن نقشے میں اِس پر اِتفاق تھا اور اِس سے آگے کے شمال میں واقع علاقے میں کسی بھی فریق نے کوئی فوجی تعینات نہیں کیا کیونکہ اِسے ناقابل رسائی سمجھا جاتا تھا اور یہی مانا جا رہا تھا کہ اِس علاقے میں کوئی فریق قبضہ نہیں کرے گا۔لہذا دونوں فریقوں نے مبہم الفاظ میں ایک قِسم کی اَنڈرسٹینڈگ پر اِعتماد کیا۔ سیاچن کے علاقے میں علاقائی حدود بندی کے حوالے سے وضاحت کا فقدان پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاچن کے میدان میں جاری کشمکش کا ایک اہم عنصر بن گیا ہے۔ 1982 کے اواخر میں انڈیا نے شِملہ معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس وقت ان علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا جب پاکستان امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں سوویت حملے کے خلاف مصروف عمل تھا۔ سیاچن اِیشو کے دیرینہ محقق رابرٹ جی وِرسنگ کے مطابق " 1983-84 کے موسم سرما میں سیاچن گلیشیئر کے آس پاس کے علاقوں میں پاکستان اور انڈیا کے فوجی دستوں کے درمیان ہونے والی فوجی جھڑپوں کے بارے میں یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ پہلے کس نے گولی ماری؟ تاہم اس کے کافی شواہد موجود ہیں کہ ہندوستانی مسلح افواج نے سب سے پہلے گلیشیئر پر مستقل چوکیاں قائم کیں اور انہوں نے اس کام کے لیے خود کو طویل عرصے سے تیار کیا تھا۔ آپریشن میگھدوت (Operation Meghdoot) کے شائع شدہ ہندوستانی اکاؤنٹس (اپریل 1984 کے وسط میں گلیشیر پر خصوصی تربیت یافتہ ہندوستانی افواج کی تعیناتی) شک کی بہت کم گنجائش چھوڑتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ پاکستانیوں کو سوتے ہوئے پکڑا گیا تھا اور یہ کہ گلیشیر پر پاکستان کے دعوے کو مضبوط کرنے کے لیے غیر ملکی کوہ پیمائی مہمات کو سپانسر کرنے کی پاکستان کی بنیادی حکمت عملی ناکام ہو گئی تھی"۔ انڈیا کی فوجی کارروائی کے ردعمل میں پاکستان نے آپریشن اَبابیل (Operation Ababeel) کے نام سے فوجی کارروائی کی اور تب سے سیاچن دونوں ممالک کے لیے دنیا کا بلند ترین محاذِ جنگ ہے اور دونوں ممالک کے لیے وہاں فوج رکھنا بہت زیادہ مہنگا ہے۔ اِنڈیا کی فوج کے سربراہ کی جانب سے سیاچن کو غیر عسکری بنانے کے بیان خوش آئیند قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ ماضی میں پاکستان کی طرف سے بھی یہ موقف رہا ہے کہ سیاچِن سے دونوں ممالک کی فوجوں کا اِنخلا کیا جائے مگر جن پیشگی شرائط کی انڈیا کی فوج کے سربراہ نے بات کی ہے، پاکستان کے لیے ان کا قبول کرنا اِنتہائی مشکل نظر آرہا ہے اور موجودہ صورتحال میں یہ ایک پیچیدہ عمل معلوم ہوتا ہے۔ ایک طرف اِنڈیا نے مقبوضہ کشمیر کی قانونی حیثیت تبدیل کی ہے جس کی وجہ سے کشمیری عوام میں شدید اِضطراب پایا جاتا ہے اور پاکستان کے لیے موجودہ صورتحال میں اِنڈیا کو رِعایت دینا کوئی حقیقت پسندانہ قدم نہیں ہوگا تاہم اگر اِنڈیا سیاچن میں NJ 9842 کی پوزیشن پر چلا جائے اور دونوں ملک سیاچن میں اَزسرِنَو حد بندی کا تعین کریں (بے شک یہ حد بندی کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر ہونی چاہیئے) تو اِس تنازعہ کا مستقل اور پائیدار حل ممکن ہو سکے گا۔ دوسری طرف چین اور اِنڈیا کے مابین گلوان وادی کے سرحدی تنازعہ کے پَس منظر میں بھی فی الحال یہ مشکل معلوم ہوتا ہے کیونکہ اِنڈیا جس وقت چین کے ساتھ لداخ میں پھنسا ہو ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ سیاچن میں کشیدگی کم کر کے اپنی معاشی بچت کرنا چاہتا ہے تاکہ چین کے ساتھ کشیدگی کے طول پکڑنے کی صورت وہ دوہرے نقصان سے بچ سکے۔ اِسی طرح موجودہ بیان کے پیچھے اِنڈیا کی یہ حکمت عملی کی بھی ہوسکتی ہے کہ وہ دنیا کو یہ تاثر دے کہ وہ بھی پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں کمی لانے میں دِلچسپی رکھتا ہے۔ پاکستان کی بھی یہ کوشش ہوسکتی ہے کہ اِنڈیا کی اِس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مفادات کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔ تاہم پاکستان کی جانب سے باقاعدہ مؤقف آنے کے بعد ہی صورتحال کا حتمی اندازہ لگانا ممکن ہو سکے گا۔ البتہ سیاچن سے پاکستان اور اِنڈیا کی افواج کے اِنخلا کے اِمکانات ابھی بھی قبل اَز وقت ہیں اَگرچِہ کہ دونوں ملکوں کے مابین تنازعات کا حل دونوں فریقوں سمیت تمام جنوبی اِیشیا کے لیے ترقی اور خوشحالی کا باعث ہوگا۔