در بہراں گل نو خواستہ سبحان اللہ جلوہ آرا ہے وہ بالواسطہ سبحان اللہ ایسا ہنستا ہوا چہرہ کہیں دیکھا ہی نہ تھا کہہ دیا میں نے بھی بے ساختہ سبحان اللہ آج تو میں کوئی مہکتا ہوا اور رنگ و روشنی سے مزین کالم لکھنا چاہتا ہوں۔ مسکراتے ہوئے چہروں کی بات کرنا چاہتا ہوں وہی کہ میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے‘آپ جانتے ہیں کہ زمستاں کی آمد آمد ہے۔ رات بھیگنے لگتی ہے اور صبح کی ہوا میں خنکی در آئی ہے۔ دوسری طرح محرم اور صفر کے بعد ربیع الاول کے آغاز ہی سے شادیوں کا سیزن شروع ہو چکا ہے یہ موسم سرما ہی اس کارروائی کے لئے موزوں ترین موسم ہے وگرنہ گرمی میں تو اپنی جان نکلی ہوئی ہوتی ہے۔ بیدل حیدری یاد آ گئے کہ: گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو رہے سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا یقینا آپ سمجھ گئے ہونگے کہ میں کوئی عروسی قسم کا کالم لکھنے جا رہا ہوں۔ آپ درست سمجھے کہ ہمارے محسن و مہرباں سید ارشاد احمد عارف کے لخت جگر حسن شاہ کا ولیمہ تھا اور رائل پام کنٹری کلب کا سلور مارکی تھا۔ جگہ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی کہ مکاں کو تو مکیں سے شرف ملتا ہے۔ یہ اکٹھ ظاہر ہے صحافیوں‘ دانشوروں اور سیلیبرٹیز کا تھا۔ اتنے پڑھے لکھے یا حرف و لفظ سے وابستہ لوگ کم ہی اکٹھے ہوتے ہیں۔ ہر اخبار اور ہر چینل سے کوئی نہ کوئی نمائندگی ضرور تھی۔کچھ موجودہ حالات کے باعث احتیاط برتی گئی تھی پھر بھی اچھی خاصی تعداد تھی۔ میں بھی اپنی بیگم کو ساتھ لئے وہاں پہنچا۔ ارشاد احمد عارف اور حسن شاہ اپنی خاندانی سادگی اور وضعداری کے ساتھ مہمانوں سے معانقہ کر رہے تھے۔ میں اپنی نشست پر جا بیٹھا اور بیگم خواتین کی طرف جہاں محترمہ شبانہ عارف ان کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔ اب مسئلہ ہوا کہ اکثر نقاب پوش تھے کہ ایس او پیز کا معاملہ تھا۔ میرے ساتھ سعید آسی صاحب آ کر بیٹھے تو میں نے کہا قبلہ یہ ماسک اتار دیجیے کہ اتنے عرصے بعد اس مبارک تہوار پر ملے ہیں تو وہ بھی جلوہ و دیدار کے بغیر۔ انہوں نے فوراً ماسک ایک طرف کر دیا۔ ساتھ ہی میرے ماموں جان عبدالجبار مفتی صاحب جو ملتان سے شادی پر آئے تھے نے بھی ماسک اتار دیا۔ باقی چاند چہرے بھی سامنے آئے۔ ڈاکٹر محمد شفیق چوہدری ‘رئوف طاہر اور خالد مسعود بھی وہیں ہمارے سامنے جلوہ افروز تھے۔ صحافت کی دلچسپ اور یادگار باتیں ہونے لگیں اور وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ ایسے ہی لگا کہ غنیمت ہے جو ہم صورت یہاں دوچار بیٹھے ہیں۔ حسن شاہ بہت شائستہ اورمہذب بچہ ہے۔ میرے لئے زیادہ عزیز کہ وہ میرے بیٹے عمیر کا کلاس فیلو بھی ہے۔ مجھے وہ دن یاد آئے کہ جب سابق آئی جی پولیس سردار محمد چودھری کے گھر پر سی این اے ممبرز کا کھانا تھا تو وہاں حسن شاہ بھی تھا۔ وہاں بیت بازی شروع ہو گئی تو اس دن حسن کے حافظے کا علم ہوا کہ اچھا لگا کہ ولیمہ میں اس کے استاد مختار شیخ صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ پھر غالب ہی یاد آتا ہے۔تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے۔ اس خاندان کی چشم و چراغ۔ ڈائریکٹر آرٹس کونسل صوفیہ بیدار اپنی اسسٹنٹ کمشنر بیٹی اور بیٹے حسین کے ساتھ موجود تھیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ انتہائی اچھا ماحول تھا۔ معروف کالم نگار اور نئی بات کے گروپ ایڈیٹر عطا الرحمن صاحب بھی ہماری ہی ٹیبل پر آ گئے اور اپنی شفیق مسکراہٹ کے ساتھ ملے اور یادیں تازہ ہونے لگیں۔ قارئین اگر میں شرکت کرنے والوں کے نام لکھوں گا تو کالم یہیں ختم ہو جائے گا۔ بہرحال چند نام ضروری ہیں۔ ہمارا پیارا سا شاعر وصی شاہ 92میڈیا کے چئیرمین میاں رشید‘ اسلم ترین‘ اسامہ شمس اور ندیم فاروقی وہاں موجود ہے۔ سہیل وڑائچ‘ سلمان غنی‘ ڈاکٹر امجد‘ بریگیڈیئر فاروق حمید‘ عارف نظامی‘ سجاد میر‘ عامر خاکوانی‘ صغریٰ صدف‘ مجیب الرحمن شامی‘ اشرف شریف‘ امتیاز تارڑ ‘ اوریا مقبول جان‘ اثر چوہان‘ ریاض چودھری حافظ فیض‘ رانامحمد عظیم‘ ذوالفقار راحت‘ فرید پراچہ‘ زکریا بٹ اور دوسرے جنہیں ماسک کی وجہ سے میں پہچان نہیں پایا۔ دوستوں کی کہکشاں کو دیکھ کر میں خوش ہوا۔عرصہ کے بعد ایک دوسرے کا حال معلوم ہوا اور مصروفیات بھی۔ شادیاں بھی کچھ بدل سی گئی ہیں۔ ایک زمانے میں جب اتنی ہما ہمی نہیں تھی۔ محلوں اور گلیوں میں شادیاں ہوتی تھیں۔ پورے شہر تک لوگوں کو معلوم ہوتا تھا کہ فلاں گھر میں ڈھولکی ‘مہندی تیل اور دوسری رسوم جاری ہیں۔عطاء الحق قاسمی نے بھی اچھا نقشہ کھینچا ہے کہ: شادیاں جب گلی میں ہوتی تھیں سب کے سب میزبان ہوتے تھے اب زندگی بہت تیز ہے پھر اللہ کا شکر ہے کہ کہیں نہ کہیں دوست یار اور رشتہ دار اکٹھے ہو جاتے ہیں سلامیاں اور مبارکیں چل رہی ہیں۔ میں تو ڈرتا ہوں کہ آنے والے وقتوں میں یہ کام بھی آن لائن نہ شروع ہو جائے اور یہ آن لائن والا مزید نہ بڑھ جائے۔ کام پھیلتے جا رہے ہیں اور وقت سکڑتا جا رہا ہے: رفتہ رفتہ میں کیسے بکھرتا گیا وقت گھٹتا گیا کام بڑھتے گئے صد شکر کہ اعلیٰ لوگوں کے ساتھ شادی میں شرکت وجہ فرحت و انبساط ہے مجھے احمد ندیم قاسمی صاحب نے بتایا کہ وہ اور قتیل شفائی ایک ایم این اے کے بیٹے کی شادی پر گئے تو ایک ہجوم کرسیوں پر براجمان تھا ۔ ایک شخص نے آ کر آواز لگائی کہ حضرات کھانا کھلنے والا ہے۔ شاعر حضرات!آپ اپنا کام شروع کریں ۔قاسمی صاحب فرمانے لگے کہ یہ سنتے ہی ہمیں ایسے محسوس ہوا کہ اکبرزمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا۔میں اور قتیل شفائی ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے کہ یہ کیا ہوا۔ وہیں سے ایک لوکل شاعر بھانپ گیا اور آ کر قاسمی صاحب کو کہنے لگا آپ پریشان نہ ہوں آپ کے حصے کا سہرا بھی میں ہی پڑھ دیتا ہوں۔ کیا کیا جائے کہ یہ سہرے چہرے اور رخصتیاں بھی تو اس شادی کا حصہ رہے ہیں ۔عبدالحمید عدم نے خالد احمد کا سہرا لکھا تھا پھر ابراہیم ذوق کا لکھا ہوا سہرا اور اس کے مقابلے پر غالب کا لکھا سہرا: ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں دیکھیں کہہ دے کوئی اس سہرے سے بڑھ کر سہرا اس سہرا بازی کے نتیجہ میں غالب کا قطعہ معذرت ایک ایسا شاہکار ہے جو ادب کو نصیب ہوا ڈھونڈ کر پڑھیے گا۔جس میں مشہور مصرعے ہیں۔ مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات اور کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے: سید حسن کے واسطے اپنی ہے یہ دعا تاثیر اپنے نام کی اس کو نصیب ہے