واقعہ کربلا نے انسانیت کو سرخرو کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کو حیاتِ نو بخشی ہے ۔اس عظیم اور بے مثال جنگ میں جہاں پر امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام کے با وفا،بہادرفرزندان اور رفقاء کے بے نظیر کردار موجود ہیں وہاں پرخواتینِ اہلِ بیت ِاطہار علیہم السلام اور خاندانِ نبوت کے بچوں کی بے مثل قربانیوں سے انکار ممکن نہیں ہے ، جس کو انسانیت کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ خواتین نے اس دنیا میں ہونے والی تمام تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اگراللہ کے عظیم پیغمبروں علیہم الصلوٰۃ والسلام کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ خواتین کا کردار بہت مؤثر رہا ہے ۔ جدالا نبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی تاریخ ،سیدہ ہاجرہ سلام اللہ علیہا کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے ۔ سیدناعیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اسم گرامی سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کے نام کے ساتھ لیا جاتا ہے ۔ تاجدارِ کائنات ، امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت وتذکار مبارکہ میں جابجا ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی قربانیاں نظر آئیں گی۔ اس کے علاوہ سیدہ خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی ہر مشکل میں، ہر جگہ اپنے پیارے بابا جان علیہ التحیۃ والثناء اور اپنے شوہر نامدار مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے ساتھ ساتھ نظرآتی ہیں۔ عورت کسی بھی رشتے میں کبھی اپنے کردار سے کم نظر نہیں آئی بلکہ ہمیشہ اس نے توقع سے بڑھ کر ہی کردار نبھایا ہے ۔ اسی طرح کربلا کے واقعات کو زندہ و جاوید بنانے میں بھی اسیران اہل بیت رضی اللہ عنہم اور کربلا کے دیگر شہداء کی ازواج اورامہات کا اہم کردار رہا ہے ۔ کسی بھی تحریک کے پیغام کو عوام تک پہنچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ کربلا کی تحریک کے پیغام کو عوام تک کربلا کی اسیر خواتین نے پہنچایا ہے ۔اور پھر کربلا کا واقعہ صرف عراق کی سر زمین کربلا پر ہونے والا ایک واقعہ نہیں ہے ،بلکہ کربلا ایک تحریک، ایک حقیقت،ایک مشن اور ایک مقصد کانام ہے کیوں کہ شہزادۂ رسول سیدنا امام حسین علیہ السلام کی اس عظیم تحریک کا آغاز28رجب المرجب 60 ھ سے شروع ہو ا اور یہ تحریک محرم الحرام کو عصر عاشورا کے ساتھ ختم نہیں ہوئی بلکہ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور سیدنا سجاد امام زین العابدین علیہ السلام کی سربراہی میں کوفہ اور شام کے فاسق،جابر اور ظالم حکمرانوں کے ایوانوں تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ اس انقلاب کی صدا پورے شرق و غرب اور عرب و عجم میں بھی سنائی دی۔لہٰذا ہم سیدنا امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ساتھ ان باکردار خواتین کو بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنھوں نے اس عظیم تحریک میں حصہ لے کر اپنے ناموں کو قیامت تک کے لئے حسینی کارواں کے ساتھ جوڑ لیا۔ بلکہ یوں کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ تحریک کربلا دو مرحلوں پر مشتمل ہے :پہلا مرحلہ، خون، شہادت اور انقلاب کا مرحلہ تھا، دوسرامرحلہ پیغام رسانی، امّتِ مسلمہ کی بیداری اور اس واقعہ کی یاد کو زندہ اور تازہ رکھنے کا مرحلہ تھا۔ تحریک کے پہلے مرحلے کی ذمہ داری سیدنا امام حسین علیہ السلام اور ان کے جان نثار رفقاء کی تھی جس میں وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ ظلم و ستم اور انحراف کے سامنے ثابت قدم رہے اور اس راہ میں جامِ شہادت نوش کیا۔جبکہ دوسری ذمہ داری قیامت تک آنے والی امت کی ہے کہ وہ نہ صرف آپ علیہ السلام کی اس عظیم قربانی کو یاد رکھے بلکہ اپنے اُوپرسیدنا امام حسین علیہ السلام کے کردار آیت قرآنی (یعنی’’ اے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! فرما دیجئے کہ میری نمازیں، میری قربانیاں،میری زندگی اورمیرا مرنا سب اللہ رب العالمین کی (رضا حاصل کرنے کی) خاطر ہے ‘‘(سورہ انعام :162)کے مصداق کردار کو لازم رکھے تاکہ سرخروی اس کا مقدر بن جائے ۔ واقعہ کربلا میں جہاں سیدنا مسلم بن عقیل علیہ السلام نے اپنے ساتھ اپنے دو شہزادوں سیدنا محمد و ابراہیم علیہما السلام کی قربانی پیش کرکے سرخروئی حاصل کی وہاں سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے صاحبزادوں عون و محمد علیہما السلام کی قربانی نے بھی شجردین کی جڑوں کو اپنے خون سے سیراب کیا۔ ان حالات میں امام عالی مقام علیہ السلام کی باوفا اہلیہ سیدہ رباب رضی اللہ عنہا میدانِ وفا میں کیسے پیچھے رہ سکتی تھیں؟ انھوں نے بھی اپنے جگر پارے سیدنا علی اصغر اور سیدہ سکینہ علیہما السلام کو قربان کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو بچا لیا۔ جیسے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے راہِ خدا میں اپنے محبوب ترین فرزند سیدنا اسمعیل علیہ السلام کی قربانی پیش کر کے قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے اُسوہ قائم فرمایا ایسے ہی نسل ابراہیمی کے جلیل القدرفرزند نواسہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا امام حسین علیہ السلام نے اپنے خاندان کے افراد کوراہِ خدا میں قربان کر کے رہتی دنیا تک اسلام کے جھنڈے کو سر بلند کر دیا۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا امام حسین علیہ السلام کی اس قربانی کو سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے اجمال کی تفصیل قرار دیا ہے :’’سر ابراہیم و اسماعیل بود‘‘یعنی سیدنا امام حسین علیہ السلام سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی تفصیل ہے یعنی ’’آن اجمال را تفصیل بود‘‘سیدناامام حسین علیہ السلام کی اس اولو العزمی اور ثابت قدمی کے پیش نظر شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے انھیں عشاق کا امام قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا۔ سیدہ سکینہ سلام اللہ علیہا، سیدنا امام حسین علیہ السلام کی پیاری صاحبزادی اور سیدنا عباس علم دارعلیہ السلام کی محبوب ترین بھتیجی تھیں۔اہل تاریخ کے ہاں آپ کا اسم گرامی ’رقیہ‘جب کہ’ سکینہ ‘آپ کا لقب تھا۔ سیدنا امام حسین علیہ السلام فرمایا کرتے تھے :’’ سکینہ میری نمازِ شب کی دعاؤں کا نتیجہ ہے ‘‘۔امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام نے آپ سے محبت کا اندازہ اپنے اشعار میں کی (اشعار کا ترجمہ)’’ تمہار ی جان کی قسم!میں اس گھر سے محبت کرتا ہو ں جس میں سکینہ اور رباب ہو ں۔ بے شک میں ان دونوں سے بے پناہ محبت کرتا ہوں اوران پر اپنا قیمتی مال خرچ کرتا ہوں، اور اس معاملہ میں اپنی زندگی میں عتاب کرنے والوں کی بات سننے والا نہیں یہاں تک کہ میں مٹی میں مل جاؤں۔‘‘(الاغانی) اللہ تعالیٰ ہماری ماؤ ں ، بہنوں اور بیٹیوں کو خاندان اہل بیت اطہار علیہم السلام کی خواتین طیبات کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الکریم الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم