مجھ سے اکثر نوجوان پوچھتے ہیں کہ آپ زندگی میں کتنے بڑے لوگوں سے ملے ہیں۔ ایسے مواقع پر میں اپنی محرومی اور خوش قسمتی دونوں کا ذکر کرتا ہوں۔ محرومی تو یہ کہ میں نے علامہ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کا زمانہ نہیں پایا اور خوش قسمتی یہ کہ مجھے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جیسی عظیم المرتبت شخصیت کی نہ صرف زیارت بلکہ ان سے بات چیت کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ گزشتہ روز مجھے مدتوں کے بعد ایک خالصتاً علمی محفل میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ تقریب دی پنجاب اسکول سسٹم کے مدارالمہام سید احسان اللہ وقاص نے اپنے ادارے میں قائم کردہ ایک جدید طرز کے وسیع و عریض آڈیٹوریم کے افتتاح کے لیے منعقد کی تھی۔ اس آڈیٹوریم کا نام ’’سید مودودی آڈیٹوریم‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس کے افتتاح کے لیے سابق امیر جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے ساتھی سید منور حسن بطور مہمان خصوصی کراچی سے تشریف لائے تھے۔ سید صاحب اب آتی جاتی علالت کے باعث قدرے کمزور ہو گئے ہیں، مگر ان کی شگفتہ بیانی، حاضر جوابی اور حس مزاح پہلے کی طرح ہی حاضر موجود ہے۔ تقریب میں مہمانِ اعزاز کی حیثیت سے مولانا مودودیؒ کے بڑے صاحبزادے عمر فاروق مودودی بھی آئے تھے۔ تقریب سے مختصر خطاب کرنے والے اکثر مقررین وہ تھے جنہیں براہِ راست مولانا مودودی سے کسبِ فیض کا موقع ملا تھا۔ سید احسان اللہ وقاص کی درخواست پر مجیب الرحمن شامی نے مولانا مودودی کا وہ قلمی چہرہ پڑھ کر سنایا جس کی ابتدائی سطور کچھ یوں تھیں۔ ’’نام ابوالاعلیٰ، بندۂ باری تعالیٰ… داراوسکندر سے یہ مردِ فقیر اعلیٰ……لطافتوں کا پیرایہ، شفقتوں کا کنایہ، مسکراہٹوں کا سایہ، خواجہ مودود چشتی کا سرمایہ، پاکیزگی کا جایا، بندۂ خاکی، مگر جبریل کا ہمسایہ‘‘ تقریب کے سامعین کی اکثریت طلبا و طالبات اور اساتذہ و معلمات پر مشتمل تھی۔ سید منور حسن نے سامعین کو یاد دلایا کہ مولانا کا زیادہ زور ذہن سازی، کردار سازی اور فریضۂ اقامت دین پر تھا۔ سید صاحب نے کہا کہ ہمیں مولانا کے کرشماتی لٹریچر کے ذریعے اعلاء کلمۃ اللہ کی جدوجہد کو وہیں سے شروع کرنا ہو گا جہاں ہم نے اسے 1970ء کی دہائی میں چھوڑا تھا۔ مولانا کی کتابوں کو خیروبرکت کے لیے الماریوں میں بند کر کے نہیں بلکہ نوجوانوں کے ہاتھوں میں تھمانا ہو گا۔ علامہ احمد جاوید کا کہنا تھا کہ انسانی کردار سازی میں دس فیصد حصہ تعلیم اور باقی 90فیصد حصہ تربیت کا ہے۔ انہوں نے حاضرین کو باور کروایا کہ علامہ اقبالؒ کے بعد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی عالم اسلام کے فکری رہنما ہیں۔ سید مودودی کی شخصیت ایک جہانِ حیرت ہے۔ وہ ہمہ صفات اور ہمہ جہات تھے۔ وہ بیک وقت مفسر قرآن بھی تھے، وہ سینکڑوں کتب کے مصنف بھی تھے، داعیٔ اسلام بھی تھے، وہ اپنے زمانے کے ممتاز سیاست دان بھی تھے، وہ بانیٔ جماعت اسلامی بھی تھے اور تقریباً تین دہائیوں تک اس جماعت کے متحرک امیر بھی تھے۔ وہ امیر ہی نہیں بارہا جیلوں کے اسیر بھی رہے۔ جو چیز انسان کو حیرت میں گم کر دیتی ہے وہ یہ ہے کہ اتنے سارے کام کیسے انجام دے لیتے تھے۔ انہوں نے چھ جلدوں پر مشتمل کتاب اللہ کی تفسیر تفہیم القرآن تحریر فرمائی۔ جس کا ایک ایک لفظ انہوں نے نہایت ہی تحقیق و تدقیق کے ساتھ لکھا ہے۔ اتنی علمی گرانباری ان کی شگفتہ مزاجی میں ذرا سی تلخی بھی پیدا نہ کر سکتی تھی۔ سیاست کی آنکھ میں شرم و حیا نہیں ہوتی مگر کیا مجال کہ مولانا مودودی نے کبھی گالی یا گرم گفتاری کے جواب میں کوئی سخت بات کہی ہو یا گرم لہجہ اختیار کیا ہو۔ وہ اپنی خوش گفتاری پر کوئی آنچ نہ آنے دیتے۔ اگر مولانا کے پیروکار ان کی توجہ بعض حضرات کی تلخ نوائی کی طرف مبذول کرواتے اور مولانا سے درخواست کرتے کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں تو مولانا فرماتے کیا میں ان لوگوں کی خاطر اپنا اخلاق خراب کر لوں۔ عظیم لوگوں کو اللہ نے بے پناہ ذہنی و عقلی اور شخصی صفات عطا کی ہوتی ہیں۔ تا ہم جو چیز انہیں عام لوگوں سے بہت منفرد و ممتاز کرتی ہے وہ ضبطِ نفس ہے۔ مولانا مودودی کو اللہ نے ضبطِ نفس کی ناقابلِ یقین قدرت عطا کر رکھی تھی۔ اسی صفت اور قدرت کی بنا پر مولانا نے محیر العقول کارنامے انجام دیئے۔ وہ گزشتہ صدی کے مجدد بھی تھے۔ مولانا نے اسلامی دنیا کے علمائے کرام اور سیاست دانوں کو یہ حقیقت باور کروائی کہ وہ اپنے معاشروں میں کسی بھی طرح کی مسلح مزاحمتی تحریک سے اجتناب کریں اور جمہوریت کے ذریعے رابطۂ عوام کو بڑھا کر اقامتِ دین اور غلبۂ اسلام کا راستہ ہموار کریں۔ جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت پروفیسر خورشید احمد اور سید منور حسن جیسے فکری رہنمائوں کو سوچنا چاہئے کہ مولانا مودودی کے لٹریچر سے متاثر جس ملک کی تحریکِ اسلامی کو بھی جمہوریت کا ذرا سا بھی راستہ ملا اس نے وہاں بہت بڑی انتخابی کامیابی حاصل کی مگر مولانا کی اپنی تشکیل کردہ جماعت اسلامی کو پاکستان میں کوئی خاطر خواہ انتخابی کامیابی حاصل کیوں نہ ہو سکی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ کے بڑے صاحبزادے عمر فاروق نے سکول کے آڈیٹوریم کو مولانا مودودی کے نام سے منسوب کرنے پر ادارے کا شکریہ ادا کیا۔ ان کے علاوہ لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، ڈاکٹر غلام اکبر خان نیازی نے بھی خطاب کیا۔ احسان اللہ وقاص نے تقریب کے آخر میں یہ خوش خبری بھی سنائی کہ مولانا کی رہائش گاہ 5اے ذیلدار پارک اچھرہ کو مولانا کے شایان شان یادگار بنایا جائے گا۔ وہاں مولانا کی علمی نشست گاہ اور لائبریری کی ترتیب و تزئین کی جائے گی۔ وہاں ریسرچ اسکالرز کے لیے جدید سہولتوں سے مزین کمرے بنائے جائیں گے اور ایک ساٹھ ستر نشستوں والا سیمینار ہال بھی تعمیر کیا جائے گا۔ مولانا کی سابقہ رہائش گاہ کو ان کے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کی اکثریت نے اس کار خیر کے لیے وقف کر دیا ہے تا ہم گزشتہ دنوں مولانا کے ایک صاحبزادے حسین فاروق جماعت کے اکابر کے خلاف ایک کتاب شائع کرنے کا پروگرام لے کر پاکستان آئے اور فقیر سے بھی ملاقات کی۔ میں نے انہیں اس خیال سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔انہیں اپنے مؤقف پر نظرثانی کرنی چاہیے اور مولانا کی سابقہ رہائش گاہ اور اب ان کی آخری قیام گاہ کے ساتھ ملحقہ مولانا کے مرکز تحقیق و تصنیف کے قیام میں اپنے دیگر بہن بھائیوں کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے کیونکہ یہ مرکز مولانا سے محبت و عقیدت رکھنے والوں کے لیے انسپریشن کا بہت بڑا ذریعہ ثابت ہو گا۔ بہرحال فکرِ مودودی کی تجدید کے لیے احسان اللہ وقاص کی کاوشوں پر ہم انہیں مبارک باد پیش کرتے ہیں۔