تاجدار بغداد سیدنا شیخ عبد القادرجیلانی رضی اللہ عنہ کا نام نامی اسم گرامی ’عبد القادر‘اور کنیت ’ابو محمد ‘ ہے ۔ جبکہ ’محی الدین‘، ’شیخ الشیوخ‘ ، ’سلطان الاولیا ء ، ’محبوب سبحانی ‘، ’شہباز لامکانی‘ ، ’غوث الثقلین‘، ’شیخ الاسلام ‘ اور ’غوث الاعظم ‘ وغیرہ آپ کے القابات ہیں۔سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ سمیت اولیائے کرام میں سے کسی بھی شخصیت کا تذکرہ کرتے ہوئے بد قسمتی سے ہمارا عمومی مزاج یہ بن چکا ہے کہ ہمارا سارا زور ان کی کرامات کے بیان پر ہوتا ہے ،اورکرامات کی تعداد دیکھ کر ہی ہم کسی ولی کے مقام و مرتبہ کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ یہ ان کی حیات مبارکہ کا فقط ایک پہلو اور ان کی زندگی کا صرف ایک گوشہ ہے ،لیکن اسے بیان اتنی کثرت سے کیا جاتا ہے کہ ان کی شخصیت کی باقی تابناک جہات اس کے مقابلے میں دب جاتی ہیں۔ شومئی قسمت کہ ہمارایہی افسوسناک رویہ حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی شخصیت کے حوالے سے بھی کار فرما نظر آتا ہے ۔اس میں کوئی دوسری رائے ہی نہیں کہ آپ کثیر الجہات شخصیت کے حامل ہیں، آپ کی ذات با برکات کو جس پہلو اور زاویے سے دیکھا جائے آپ اس میں یکتا اور بے مثال نظر آتے ہیں ۔علم و عمل،زہد و تقویٰ ، غیرت و حمیت ، جود و سخاوت ،خلوص و للہیت ، امانت و دیانت ، عدل و انصاف ، اکل حلال و صدق مقال ،سلوک و احسان، وعظ وارشاد اور تبلیغ و اشاعت ِدین میں آپ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔ لیکن ہماری اکثر تحریریں ،تقریریں اور لٹریچر دیکھ کر عام مسلمان کی نظر میں سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کا تصور یہ ابھرتا ہے کہ وہ فقط ایک صاحب کرامت بزرگ تھے جنہوں نے زندگی میں لوگوں کو اپنی چند کرامات دکھائیں ۔ اس زاویہ نظر میں مثبت تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے ۔ تذکار مبارکہ، کتب رجال وسوانح میں اجلہ علمائے اُمت اور ماہرین فن کے تأثرات پڑھ کر ہم یقینا اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آپ صرف ولایت میں غوث اعظم نہیں بلکہ علمی حوالے سے اپنے دور کے ’’ امام اعظم ‘‘ بھی تھے ۔نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ ائمہ حدیث و فقہ نے آپ کے علمی مقام و مرتبے کو نہ صرف بیان کیا ہے بلکہ آپ کی ذات ستودہ صفات کو علم کے میدان میں اتھارٹی بھی تسلیم کیا ہے ۔ سیدنا غوث اعظم بطورمفسر:حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ اپنے وقت کے ایک عظیم مفسر قرآن بھی تھے ۔ آپ نے چھ ضخیم جلدوں پر مشتمل ایک تفسیر بھی تالیف فرمائی ، جو ’’تفسیر الجیلانی‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔ چونکہ بنیادی طور پر اس تفسیر میں تصوف کا رنگ غالب ہے اور صوفیہ کرام کے ہاں اس کی بہت زیادہ شہرت ہے اس لیے علماء کرام نے اسے ’’صوفی تفاسیر‘‘ میں شمار کیا ہے ۔ تفسیر کے شروع میں ایک طویل وقیع مقدمہ ہے جن میں آپ نے ان بہت سارے امور پر کلام فرمایا جن کا قرآن حکیم اور اس کی تفسیر سے بہت گہرا تعلق ہے ۔اللہ تعالیٰ نے تفسیر جیلانی کو اس حد تک قبولیت عامہ عطا فرمائی کہ کوئی بھی صوفی مسلک و مشرب اس سے بے نیاز نہیں رہ سکا۔ کم و بیش تمام جید صوفیاء سالکان حق کو اس تفسیر کا مطالعہ کرنے کی زبردست تلقین کرتے ۔ تفسیر جیلانی میں آپ کا منہج اور طریقہ یہ ہے کہ آپ پہلے آیت ذکر کرتے ہیں ، پھر اس کی آسان اور مختصر عبارت میں تفسیر ذکر کرتے ہیں۔ اس دوران اگر اس آیت کی کسی دوسری آیت سے توضیح ممکن ہو تو دوسری آیت بھی ذکر کر کے ان کا آپس میں موازنہ کرتے ہیں یہاں تک کہ معنیٰ و مفہوم بالکل واضح اور نکھر کے سامنے آجاتے ہیں ۔ تفسیر میں آپ کا یہی منہج جا بجا نظر آتا ہے ،اس طریقہ کو مفسرین کرام ’’تفسیر القرآن بالقرآن‘‘ کا نام دیتے ہیں۔اس کے بعد آپ آیت سے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث ، اقوال صحابہ ، تابعین اور ائمہ کرام وارد کرتے ہیں،اسے مفسرین ’’تفسیر بالماثور‘‘ کا نام دیتے ہیں اور تفسیر کا یہ طریقہ افضل و اعلیٰ قرار دیا گیا ہے ۔ آیات احکام پر گفتگو کرتے ہوئے آپ فقہاء کے اختلافات، ان کے مسالک اور ان کے دلائل بھی اختصاراً بیان کرتے ہیں ۔ اس تفسیر کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ان اسرائیلی روایات پر عدم اعتماد کا ذکر کیا گیا ہے جن کا ثبوت نہ تو کتاب اللہ سے ملتا ہے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح احادیث سے ۔ کچھ مقامات پر اسرائیلی روایات بغیر حکم بیان کیے ذکر کی بھی گئی ہیں لیکن ایسا شاذ و نادر ہوا ہے ۔ شیخ المحققین علامہ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ آپ کے علم تفسیرپر مہارت و کمال پر گفتگو فرماتے ہوئے ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک دن کسی قاری نے آپ کی مجلس میں ایک آیت مبارکہ کی تلاوت کی۔ آپ نے اس آیت کی تفسیر میں پہلے ایک معنی ، پھر دو اس کے بعد تین ، یہاں تک سامعین کے علم کے مطابق آپ نے اس کے گیارہ معانی بیان فرمائے ۔ پھر دیگر وجوہات بیان فرمائیں جن کی تعداد چالیس تھی اور ہر وجہ کی تائید میں علمی استدلالات بیان فرمائے اور ہر معنیٰ کے ساتھ سند بھی بیان فرمائی ۔ سب حاضرین آپ کے علمی دلائل کی تفصیل سے حیرت زدہ رہ گئے ۔ (اخبار الاخیار) آپ کے تذکرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آپ اپنے دار العلوم میں، جس کی بنیاد آپ کے شیخ حضرت حماد علیہ الرحمۃ نے رکھی، روزانہ تیرہ علوم کا درس دیتے ۔ دن کے ایک حصے میں تفسیر القرآن ، حدیث اور اصول و نحو کی تعلیم دیتے اور دن کے دوسرے حصے میں مختلف قرأتوں کے ساتھ قرآن حکیم سکھایا جاتا۔ تفسیر قرآن کے دوران جب آپ احادیث و آثار ذکر کرتے تو ان میں بعض کی بعض پر ترجیح اور وجہ ترجیح بھی بیان کرتے ، اسی طرح بعض احادیث کا صحیح ہونا اور بعض کا ضعیف ہونا بھی بیان کرتے ، نیز رواۃ پر جرح و تعدیل بھی کرتے ۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سبھی امور وہ شخص سرانجام دے سکتا ہے جسے علوم حدیث میں مہارت تامہ اور ید طولیٰ حاصل ہو۔ آپ کے اساتذۂ حدیث میں بڑے بڑے جید اور اہل فضل و کمال محدثین کرام شامل ہیں۔جن میں ابو غالب محمد بن الحسن الباقلانی (متوفی:۵۰۰ھ)، جعفر بن احمد السراج (متوفی :۵۰۰ھ)، ابو سعد محمد بن عبد الکریم بن حشیش بغدادی(متوفی: ۵۰۲ھ)اور احمد بن المظفر بن حسن بن سوسن التمار (متوفی : ۵۰۳ھ)زیادہ مشہور ہیں۔ آپ کے اساتذہ اجازت سند دیتے ہوئے ارشاد فرماتے کہ سند کی اجازت تو آپ کو ہم دے رہے ہیں لیکن حدیث کی فہم آپ کے پاس ہم سے زیادہ ہے ۔ آپ کے تلامذہ میں نامور فقہاء و محدثین کا شمار ہوتا ہے ۔ تاریخ اسلام کے عظیم محدث اورفقہ حنبلی کے امام الائمۃ امام ابن قدامہ المقدسی علیہ الرحمۃ نے آپ کے سامنے زانوئے تلذ تہہ کیے ،انہوں نے کئی کتب تالیف کیں ،جن میں’’المغنی ‘‘ بھی ہے جسے فقہ کی سب سے بڑی کتاب سمجھا جاتا ہے ۔حضور غوث پاک سے استفادہ کرنے والوں میں امام ابن الجوزی جیسے محدث کا نام بھی آتا ہے جنہوں نے ’’صفۃ الصفوۃ‘‘، ’’تلبیس ابلیس‘‘ اور ’’الوفاء باحوال المصطفیٰ‘‘ سمیت ہر موضوع پر مشہور و معروف کتب امت مسلمہ کو پیش کیں، انہوں نے ایک کتاب ’’درر الجواہر من کلام الشیخ عبد القادر‘‘بھی لکھی جس میں حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے اقوال جمع کیے ۔حضور غوث پاک کے تلامذہ میں آپ کے صاحبزادے تاج الدین شیخ عبد الرزاق علیہ الرحمۃ بھی شامل ہیں ، انہوں نے بچپن میں آپ علیہ الرحمۃ سے احادیث کی سماعت کی، زبردست محدث اور فقیہ ہونے کی بنا پر انہیں مشاہیر نے ’’تاج الدین‘‘ کے لقب سے ملقب کیا۔