اپنے تئیں آپ جو مرضی بنتے رہیں چاہے آپ ارسطو بن جائیں مگر رہنمائی ضروری ہے۔ آپ اپنے زاویہ نگاہ کو نقطہ نگاہ نہ بنائیں وگرنہ آپ ناقابل اصلاح ہو جائیں گے۔ ویسے بھی ہر شعبے میں ہر کوئی مہارت نہیں رکھتا۔ آپ کو کہیں نہ کہیں زانوے تلمذ طے کرنا پڑتا ہے یا کم از کم اس صحبت میں کچھ وقت گزاریں کہ آپ کا رخ سیدھا ہو جائے۔ حکمت تو حکیم سے ملے گی اور دین دین داروں سے۔ رہے پیش رو ترا نقش پا مرے مصطفی مرے مجتبیٰؐ تو ہے روشنی مری آنکھ کی ترا راستہ مرا راستہ آمدم برسر مطلب کہ میں نے چند جواہر مولانا حمید حسین کے درس سے حاصل کئے تو پیش کیے دیتا ہوں۔ سوال یہ تھا کہ سیدھا راستہ یعنی صراط مستقیم کون سا ہے۔ بنیادی اور اساسی بات پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔ قرآن کے ساتھ صاحب قرآن بھی تشریف لائے اور پھر اس کے ساتھ ایک اور چیز پیش نظر رہنی چاہیے کہ حضورﷺ کا تیار کردہ صحابہؓ کا طائفہ بھی تو از بس ضروری ہے۔ حضور ؐ ہی تو قرآن فرقان کی عملی شکل تھے۔ آپؐ نے قرآن کی روشنی میں نہ صرف عمل کر کے دکھایا بلکہ صحابہؓ کی جماعت تیار کر کے دکھائی جو آپؐ کے اسوہ کو اپنا کر مثال بنی۔ جن کی سانسوں میں آپؐ کی آرزو تھی اور جن کے دلوں میں آپؐ کی محبت دھڑکتی تھی ۔ آپؐ کے نقش قدم جن کے لئے منزل نشان تھے۔ آپ سورۃ فاتحہ ہی کو برابر میں رکھ کر دیکھیں تو سارے راز کھل جاتے ہیں کہ وحی کی غرض و غائت کیا تھی۔ اس نور ہدایت کے پہلے مخاطب کون تھے۔ دین کا علم سیکھنے والے حضور کریمؐ کی نگرانی میں تھے۔ تب پتہ چلتا ہے کہ انعمت علیم کن کے لئے کہا گیا ہے۔ وہ کون ہیں جن پر انعام کیا گیا اور پھر سیدھا راستہ کون سا ہے؟ ایک مرتبہ نبی پاکؐ نے صحابہ سے فرمایا کہ ان کی امت میں 72فرقے ہونگے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ ان میں سے راہ راست پر کون ہو گا یا ٹھیک اور راست کون ہو گا تو آپؐ نے فرمایا ’’ما انا علیہ و اصحابی‘‘ یعنی میں اور میرے صحابہؓ کی پیروی کرنے والا۔ آپؐ نے صحابہ کرام کو ایسے تیار کیا کہ ایک طائفہ کا زیادہ سے زیادہ مکمل ہونا اتنا ہی ممکن تھا۔ تبھی تو آپؐ نے کہا کہ صحابہؓ آپؐ کے ستاروں کی مانند ہیں۔ یہ جو انعام کیا جاتا ہے اسے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنہیں ایمان کی دولت دی گئی‘ جنہیں نبی پاکؐ کی صحبت نصیب ہوئی۔ وہ جو رسول اللہؐ پر کٹ مرنے کے لئے تیار تھے وہ جنہیں رسول ؐ سے سیکھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق ملی۔ وہ جن کے لئے آیات نازل ہو جایا کرتی تھیں۔ یہ وہی انعام یافتہ ہیں جن کے لئے سورۃ فاتحہ میں کہا گیا کہ ’’ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام کیا اور یہی راستہ سیدھا راستہ ہے۔ پھر یہاں تک ہی نہیں یہ دعا بھی سکھائی گئی کہ ان لوگوں کے راستے سے بچا جن پر اللہ کا غضب ہوا۔ وہی جو ابوجہل اور اس کے پیرو کار جو حضورؐ کو جھٹلاتے تھے اور گمراہ لوگوں سے بچانے کی بھی دعا کہ جن کو ہدایت مل بھی سکتی ہے یعنی وہ ابھی غضب کا شکار نہیں ہوئے۔ یہ بندگی اور خود سپردگی ہے جو اسلام نے انہیں سکھائی۔ یہ اللہ اور رسولؐ کی فرمانبرداری اور اطاعت ہے اور پھر ایسے شخص سے اللہ کی محبت لازم ہے: کیا بتائوں کہ بندگی کیا ہے میں نے خود اپنا احترام کیا ایک نکتے کی بات مولانا نے کی کہ مثال و تمثال صحابہؓ کا پورا طائفہ ہے۔ یہی جماعت تھی جس نے بڑی بڑی سلطنتوں کو زیر کر لیا۔ انہوں نے حضورؐ کی فکر کو اپنی فکر بنایا اور آپؐ کی آرزو کو اپنی آرزو۔ وہ کتنے خوش قسمت تھے کہ قرآن اتر رہا تھا‘ جن پر اتر رہا تھا وہ ان کی تربیت کر رہے تھے۔ یعنی کاملا را راہنمااور رہنما بھی خدا کی براہ راست نگرانی میں۔ حضورؐ کے فرمان کا مطلب تو سمجھ میں آ جانا چاہیے۔ آپؐ کا یہ کہنا کہ صراط مستقیم پر آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ ہیں۔ یہی طائفہ اور جماعت نبی پاکؐ نے قرآن کی روشنی میں تیار کی تھی اور ان کے لئے نمونہ آپؐ کی ذات تھی۔ آپؐ باقاعدہ ان کے معلم تھے کہ آپؐ کو معلم بنا کر ہی بھیجا گیا تھا۔ گویا ہمیں قرآن صاحب قرآن اور صحابہ کرامؓ کی موجودگی میں پروان چڑھنے والے معاشرے کو دیکھنا ہے۔ جو بھی اس زمانے کے قریب تر ہوتا جائے گا وہ اتنا ہی فائدے میں رہے گا کہ دین کی روح تو اسی معاشرے میں ملے گی جو پیغمبر کریمؐ نے خود اپنے اصحابؓ کی تربیت کر کے پیدا کیا تھا۔ سامنے یہ حقیقت ہو گی تو سورۃ فاتحہ بھی پورے سیاق و سباق کے ساتھ سمجھ میں آئے گی۔ سورۃ فاتحہ بھی تو ہم اللہ کے شکر کے ساتھ آغاز کرتے ہیں۔ تبھی تو ہمیں شکر ادا کرنے کی صورت بتائی گئی کہ اللہ کی توصیف سے بات کا آغاز کرو اور وہی تو لائق تعریف و تحسین جو عالمین کا مالک ہے‘ رحمت اور رحیم ہے اور قیامت کے دن کا مالک ہے اور صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں اور اس ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ اس سارے اعتراف اور یقین کے بعد ہم مالک سے کامیابی کا سیدھا راستہ مانگتے ہیں۔ اسی لئے ہمارے فقہا اور امام بھی صحابہؓ کی پریکٹس کو سامنے رکھتے ہیں۔ وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ تو جناب اسی دیار میں جانا پڑے گا: مجھے حکمتوں کی تلاش تھی میں ترے دیار میں آ گیا استاد حضورؐ خود اور اتالیق صحابہؓ ‘ سبحان اللہ۔ ایک آئیڈیل معاشرہ جس کی تربیت منزل من اللہ کے سائے میں ہوئی۔ آخر میں دو تازہ ترین اشعار: گل و گلزار بھی احساس میں کھل اٹھتے ہیں جب بھی کانوں میں پرندوں کی چہک آتی ہے سعدؔ جنت کی ہوائوں میں وہی رہتا ہے جس کی باتوں سے مدینے کی مہک آتی ہے