راجہ محمد بشارت کی سربراہی میں قائم صوبائی سطح پر اعلیٰ سطحی کمیٹی نے ’’شانِ رحمۃٌ للعالمینﷺ‘‘ کے لیے ایک جامع اور تفصیلی پروگرام ترتیب دے کر اس کا آغاز و افتتاح کردیا ہے ۔ راجہ صاحب زیرک اور دانا شخصیت ہیں، ابتدائی طور پر حلیم اور بردباد، عز ت و اکرام دینے والے ، تأنکہ آپ از خود یہ ثابت نہ کردیں کہ آپ اس اعزاز واکرام کے مستحق نہیں ۔ بہرحال ان کی سرکردگی میں گزشتہ منگل کو ہونے والے اجلاس میں پنجاب بھر کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کو یہ ٹاسک بھی سونپا ہے کہ وہ اپنی اپنی جامعات میں ’’سیرت چیئرز‘‘قائم کریں اور انہیں مستعد ، معتبراور مفید بھی بنائیں ۔ ہمارے پاس رواداری ، انسان دوستی اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے ، اِس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ کل تھا اور نہ آج ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم کی بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم اور ہماری دانشگاہیں اسوۂ رسول ؐسے تمسک پیدا نہیں کر سکے ۔ بنا بریں ہماری سوسائٹی میں انتہا پسندانہ رجحانات کا تدارک بھی نہ ہوسکا اور اس وقت سب سے زیادہ فکر مندی’’درودوالوں ‘‘کو چاہیے ، جو کسی دور میں اَمن کی خوشبو عام کرنے اور بصیرتوں کو اُجالنے کے داعی اور دعویدار تھے ، آج اُن کے اپنے مزارات و محافل کا نظم ، اُن کی اپنی ہی پیداوار سے درہم بر ہم ہونے کو ہے ۔ بہر حال --- آج کی بات کی طرف آتے ہوئے حفیظ تائب یاد آگئے : سیرت ہے تری جوہرِ آئینہ تہذیب روشن ترے جلوئوں سے جہانِ دل و دیدہ گزشتہ کالم میں سیر ت طیبہؐ کی ترویج و تدریس کی بات ہوئی تو کسی صاحب نے اِس کے آغاز و ارتقاء اور بالخصوص ابتدائی سیرت نگاران کے حوالے سے استفسار کیا اور بین السطور یہ سوال بھی اُٹھایا کہ آخر اِس کے مطالعہ کی اتنی ضرورت کیوں ہے ---؟تو ہمیں اِس اَمر سے بخوبی آگاہ ہونا چاہیے کہ نبی اکرمﷺکی حیاتِ طیبہ انسانیت کے لیے ’’رول ماڈل‘‘ ہے ، بنا بریں آپ ﷺ کی زندگی کے مطالعے اور اس سے کسبِ فیض کی ترغیب، اللہ تعالیٰ نے اپنے مختلف احکام کے ذریعے اُمتِ محمدیہ کو عطا فرمادی ، اسی لیے اہلِ بیتِ اطہار اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ،آپ ﷺ کی حیاتِ عالیہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے، اِس کے ابلاغ اور حتی الامکان ،آپﷺکی تقلید و اطاعت کے ذریعے، فوزو فلا ح سے ہمکنار ہونے کے لیے کوشاں ہوئے ، آنحضرت ﷺ ایک مملکت کے مُوسس اور ایک منفرد نظامِ حکومت کے بانی تھے ، اس لیے تاریخ کا کوئی طالب علم، دنیائے انسانیت کے اِس عظیم انقلاب سے صَرف نظرنہ کرسکا ۔ یہ سوال اَب تک موجود ہے کہ اُس منجمداور ویران معاشرے میں اِس قدر قوت کیسے اور کہاں سے آگئی کہ دنیا کی نظر میں --- ایک گنوار، غیر مہذب اور بے توفیق قوم--- مہذب اور متمدن معاشروں کی لیڈر اور ان کو جہانبانی کے انداز اور اسلوب عطا کرنے لگی۔ یوں سیرتِ رسول ﷺکے مطالعے کے اسباب میں’’دینی و جوب‘‘ کے ساتھ معاشرتی ، سماجی اور سیاسی ضرورت کے عناصر بھی شامل ہوگئے۔ اس لیے ابتدائی زمانے ہی سے سیرت طیبہ ﷺ اور اسوۂ رسولﷺ پر توجہ ہونے لگی اور ابتدائی چند صدیوں ہی سے اِس پر اِس قدر لکھا گیا کہ یہ شرف و منزلت ہمیں دنیا کی کسی تہذیب اور سوسائٹی میں نظر نہیں آتی ۔ واضح ہو کہ ہمارے ہاں اوائل دور کے سیرت نگاروں میں اگرچہ ابو محمد عبد الملک ابنِ ہشام کو بہت شہر ت میسر آئی ، جو بنیادی طور پر یمن کے رہنے والے اور ایک واسطے سے محمد بن اسحاق کے شاگرد تھے ، عجب اتفاق کہ ابن اسحاق جو کہ فنِ سیرت و مغازی کے امام اور سیرت نگاری میں گراں قدر شہرت کے حامل ہوئے ، لیکن اُن کی کتاب السیرۃ النبویہ لا بنِ اسحاق کی بہ نسبت ، ابنِ ہشام کی کتاب کو بہت زیادہ شہرت میسر آئی ، ابنِ ہشام نے بنیادی طور پر ابنِ اسحاق ہی کی کتاب ، جو اُس نے اپنے استاد زیادہ بن عبد اللہ البکائی سے حاصل کی، کو ایسے ایڈٹ کیا اور اس کی کانٹ چھانٹ کر کے، اس کو ایسامصفٰی اور مُجلّٰی بنا یا کہ علمی دنیا اُس پر ٹوٹ پڑی اور اس کی طلب کبھی کم اور چمک ماند نہ پڑھ سکی ۔ ابن ہشام کا کام اتنا معتبر اور غیر معمولی ثابت ہوا کہ سیرت پر جامع ، مستنداور قدیم ترین مسبوط کام صرف اُسی کا معروف رہا ۔ تاہم اُس عہد اوّلین میں سیرت نگاری میں ایک بہت وقیع نام ، امام محمد بن شہاب الزہریؒ (058۔124ھ) کا بھی ہے جو کہ معروف محدث اور معتبر سیر ت نگارتھے، تابعی،مدینہ منورہ کے باسی اور تدوینِ حدیث کے بانیوں میں سرِ فہرست ہے ، جنہوں نے عروہ بن زبیر ؓ سے اکتسابِ علم کیا۔ عروہ بن زبیر بن العوام الاسدی القرشیؓ(22ھ۔93ھ) عہدِاوّل کے سیرت نگاروں میں ابتدائً، انتہائی اہم نام،جو مدینہ منورہ کے فقہائے سبعہ میں سے تھے ، عروہؓ کے والد حضرت زبیر بن عوامؓ نبی اکرم ﷺ کی سگی پھوپھی حضرت صفیہ بنتِ عبد المطلبؓ کے بیٹے، اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے بھانجے،حضرت اسمأ بنتِ ابی بکرؓ کے بیٹے اور خلیفۃ الرسول حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے نواسے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی خصوصی تربیت انہیں میسر رہی اور آپؓ کے علوم و معارف کے پاسبان اور علوم سیرت و مغازی کے معلم و ماہرتھے ۔خالہ کے علاوہ آپؓ کی والدہ محترمہ یعنی حضرت اسمأ بنت ابی بکرؓ ازخود مکی دور کی صحابیہ اور بالخصوص ہجرت کے واقعات کی چشمِ دید اور بہت سے امور میں براہ ِ راست شریک تھیں ۔ ان کے والد زبیر بن العوام ؓ عشرہ مبشرہ میں سے تھے، صفِ اوّل کے جانثار اور سپاہِ اسلام کے شیر دل مجاہد ، اس کے علاوہ حضرت علی المرتضیٰؓ، ترجمان القرآن عبد اللہ بن عباسؓ، سعید بن زیدؓ، زید بن ثابتؓ، عبد اللہ بن عمرؓ جیسی شخصیات اکتسابِ فیض کے لیے انہیں میسر ہوئیں۔آپؓ نے علم سیرت اور مغازی کے بارے میں اپنے دستِ خاص سے جو مجموعہ مرتب کیا ، اس کی تیاری میں خلفأ راشدین نے بھی دلچسپی لی ، حضرت عروہ بن زبیرؓ اپنے مرتب کردہ اِس مجموعہ سیرت کی تدریس فرماتے ، لوگ آپؓ کے حلقۂ درس میں شامل ہوتے ، آپؓ سے اِس تحریری مجموعہ کے حصول کی فرمائش کرتے ۔ آپؓ سے اِس مجموعہ سے بعد کے سیرت نگاروں نے خوب استفادہ کیا اور ابن سعد اور واقدی سمیت دیگر فیض یاب ہوئے ۔ اس ضمن میں حضرت عثمان ذوالنورینؓ کے صاحبزادے حضرت ابان بن عثمانؓ کا نام بھی ،اِس اوائل دور کی سیرت نگاری کے حوالے سے معتبر ہے۔ یہ بھی فقہائے مدینہ میں سے تھے ، تدوین مغازی و سیرت میں اِن کی خدمات بڑی کلیدی نوعیت کی ہیں،عبد الملک بن مروان کے عہد میں مدینہ کے گورنر تھے ، جنگ جمل میں حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ تھے ۔ مدینہ منورہ میں آپؓ کا حلقہ درس تھا ، آپؓ، اپنے مجموعہ’’مغازی ابان بن عثمان ‘‘ کی تدریس بھی فرماتے اور اِملا بھی۔اِس ضمن میں تیسری اہم شخصیت ابو عبد اللہ وہب بن منبہؓ،کتبِ قدیمہ کے ماہر ، اسرائیلیات کے عالم اور تاریخ سے خصوصی شغف کے حامل ، اصلاً عجمی النسل اور ایرانی تھے ، آپؓ کے والد اسلام کی نعمت سے سرفراز ہوئے ، آپؓ کے بھائی ابو عقبہ ہمام بن منبہؓ، بڑے ثقہ تابعی اور حدیثِ رسولﷺکے اوّلین جامعین میں سے تھے ، یہ دونوں بھائی حضرت ابو ہریرہؓ کے معروف شاگرد تھے ۔ اس کے ساتھ تدوینِ سیرت میں نمایاں خدمات سر انجام دینے والی شخصیت شرحبیل بن سعد الخطمی المدنیؒ،جو کہ انصار کے ایک آزاد کردہ غلام تھے ۔ مغازی اور بدریوں کے حالات کے عالم اور صاحبِ فتویٰ تھے ۔ تابعین میں ، اِن پانچ بزرگوں کے ساتھ ، خانوادۂ نبوت کی ایک انتہائی جلیل القدر اور محبوب ہستی حضرت امام علی بن حسین زین العابدینؓ کی ہے، جنہوں نے سیرت و مغازی کا ایک مجموعہ مرتب کر کے ، فیضِ عام کیا ۔ واقدی اور ابن کثیر وغیرہ نے صراحت کی ہے کہ امام زین العابدینؓ قرآنِ پاک کی طرح روزانہ اپنے مرتب کردہ اِس مجموعہ سیرت و مغازی کی تلاوت کرتے تھے ۔ شومی قسمت کہ آپؓ کے مرتب کردہ اس مجموعہ سیرت سے اُمّت اکتسابِ فیض نہ کرسکی۔