ترکی ضرب المثل ہے کہ اگر کسی بحران کی سمجھ نہ آرہی ہو تو دیکھو فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے۔ سب واضح ہوجائیگا، پاکستانی سیاست میں تحریک انصاف کے ظہور کے بعد جاری بحران کا معاملہ بھی یہی ہے ۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات جو کہ ان بیس سیٹوں پر منعقد ہوئے تھے جوتحریک انصاف کے منحرف اراکین کے مخالف کیمپ میں جانے کی وجہ سے خالی ہوئی تھیں۔ ان بیس سیٹوں میں سے پندرہ سیٹیں ہی واپس ہو پائیں۔ چار سیٹیں مسلم لیگ ن کے پاس گئیں جبکہ پانچویں ایک آزاد امیدوار کے حصے میں آئی۔ عمران خان نے اپنا غصہ الیکشن کمیشن پر اتارا۔ شفاف انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے الیکشن کمشنر کو جانبدار، نا اہل اور بد دیانت قرار دے کر ان کے استعفی کا مطالبہ کر ڈالا۔ خبر ہے کہ الیکشن کمشنر اپنی سکیورٹی کے بارے میں فکر مند ہیں اور اس سلسلے میں پولیس کی طرف سے اٹھائے گئے انتظامات سے خوش نہیں ہیں۔ پنجاب کے انتخابی دنگل کا فوری ردعمل مریم نواز شریف نے دیا ، انکا اصرار تھا کہ شکست کو کھلے دل سے تسلیم اور آئندہ ایسی نا خوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہیے۔اب ذرا پیپلز پارٹی کا رویہ ملاحظہ ہو، اس نے پنجاب کے ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا اور اپنے کارکنوں کو مسلم لیگ کے امیدواروں کو سپورٹ کرنے کا کہا تھا۔ پارٹی نے خود دلچسپی نہیں لی تھی تو شاید جیالے بھی دور رہے، خاص طور پر جنوبی پنجاب میں جہاں معاملات اس نسل کے ہاتھ میں ہیں جو اینٹی۔نوازشریف بیانیے کے زیر اثر پروان چڑھی ہے۔ لا محالہ طور پر وہ پیپلز پارٹی کے ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے فیصلے سے ناخوش تھی۔ انہوں نے ن لیگ کی کتنی سپورٹ کی ہے، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج کے تناظر میں کراچی میں بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں مجلس عاملہ کی نشست منعقد ہوئی، اعلان ہوا کہ انتخابات وقت پر ہی کرائیں گے۔ بعد ازاں آصف علی زرداری لاہو ر پہنچے اور پیپلز پارٹی کا موقف وزیر اعظم تک پہنچایا۔ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ اتحادیوں کی مشاورت سے کیا جائیگا۔ واضح طور ن لیگ پیپلز پارٹی حمایت کی وجہ سے تحریک انصاف کے سامنے سینہ ٹھونک کر کھڑی ہوگئی ہے۔وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اگر پانچ اراکین بھی پنجاب اسمبلی نہ پہنچ پائے تو چوہدری پرویز الٰہی وزارت اعلیٰ، جسکا کہ تحریک انصاف نے ان سے وعدہ کیا ہے، لاہور کی سڑکوں پر ڈھونڈھتے پھریں گے۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ عمران خان نوجوان نسل کو گمراہ اور اداروں کی توہین کے مرکب ہورہے ہیں اور یہ کہ حالات کا تقاضہ ہے کہ ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہو۔ قبل ازیں کابینہ کمیٹی تشکیل دیے جانے کا اعلان ہوا تاکہ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیاد ت پر تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کی راہ میں رخنہ ڈالنے کی پاداش میں غداری کے مقدمات بنائے جاسکیں۔ علاوہ ازیں چئیرمین نیب کے خلاف حکومت مخالفین کو ہراساں کرنے پر کاروائی کے امکانات کا بھی عندیہ دیا گیا۔یوں پنجاب کے ضمنی انتخابات اور ان کے نتائج ملکی سیاست میں بھونچال کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ عمران خان اپنی حکومت کو سازش کے تحت گرائے جانے کے حوالے سے نظریہ سازش پر قائم ہیں تو وفاقی حکومت ، جسکی آدھی سے زیادہ کابینہ کے خلاف مقدمات کے فیصلے التوا کا شکار ہیں، انتقامی کارروائیوں پر تلی نظر آتی ہے۔ تحریک انصاف کو پتہ ہے کہ اقتصادی بحران اور فتنہ پرور سیاست کے تناظر میں فوری انتخابات ایک مہنگا سودا ہے۔مقتدر ادارے انکی حمایت نہیں کریں گے۔ دوسری طرف اتحادی حکومت چونکہ نظریاتی حوالے سے چوں چوں کا مربہ ہے ، اس نے تہیہ کر رکھا ہے کہ اگر عمران خان کہے کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے تو یہ مغرب کی طرف نہ صرف اشارہ کرے بلکہ مریم اورنگ زیب صاحبہ اسے منطقی طور پر ثابت بھی کرڈالیں۔صورتحال یہ ہے کہ اس ملک میں ایک ایسی پارٹی کی حکومت بن گئی ہے جو کسی بھی صوبے میں برسراقتدار نہیں ہے۔ سب سے بڑی سپورٹ اسے حاصل ہے تو سندھ سے اور اسی سندھ میں سے ایک پارٹی ایم کیو ایم بھی ہے جو اگر وفاقی حکومت سے علیٰحدگی اختیار کر لے (جسکا وہ بار بار عندیہ دے رہی ہے ) اور تحریک انصاف کے ساتھ آملے، جسکے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کی توثیق ہونا باقی ہے، تو سیاست میں بھونچال آسکتا ہے۔ یوں یہ واضح ہے کہ ن لیگ کے طوطے کی جان پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ہے۔ یہی پارٹی ہے جس نے مسلم لیگ ن کو دوہزار تیرہ کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت مخالف تحریک کے سامنے ٹھہرنے کا حوصلہ دیا اور اس کے پانچ سالہ دور اقتدار میں بی ٹیم بنی رہی۔ اس وقت بھی یہ مسلم لیگ ن کی ہمت افزائی کر رہی ہے۔ فائدہ: ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل ملز اور دیگر خسارے کے شکار اداروں ( جو پیپلز پارٹی کے حامیوں سے اٹے ہوئے ہیں) کی نجکاری سے پہلو تہی، سندھ میں وفاقی منصوبوں کی ناکامی پر پردہ پوشی اور دریائے سندھ پر سندھ کے جاگیرداروں کا تصرف کہ جنوبی پنجاب اور جنوبی بلوچستان پیاسے رہتے ہیں اور کوٹری سے پانی نیچے نہیں جا پاتا۔ موجودہ سیٹ اپ میں سندھ کا حصہ نمایا ں ہے (پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم)۔ سب سے بڑھ کر پیپلز پارٹی کی سندھ پر پچھلے سترہ سال سے مسلسل حکومت۔ بھلا ہمیں یہ سب خیال کہاں سے آیا؟ ایسا ہمیں جنوبی پنجاب کے جیالوں سے پتہ چلا جنہیں ہم طعنہ دیا کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی "سرائیکستان " اور اسکے نتیجے میں ملنے والی سرکاری نوکریوں کا خواب صوبائی خود مختاری کے بدلے مسلم لیگ ن کے ہاتھوں بیچ کر سندھ لوٹ گئی ہے۔ اب بھلا اٹھارویں ترمیم اور صوبائی خود مختاری کا جنوبی پنجاب کو فائدہ ؟ وہی پراناجواب: "پیپلز پارٹی وسیب کاآخری مورچہ ہے، صوبہ بنانے کے لیے اسکی مخالفت کا خاتمہ ضروری ہے،قربانیوں کے بغیر منزل نہیں ملتی "۔